جنید کے لہو کی خوشبو

مولانا ندیم الواجدی

دادری کے اخلاق سے لے کر جنید تک بل کہ اس کے بعد بھی کئی بے گناہ، بے قصور مسلمانوں نے ہندوشدت پسند جنونیوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا ہے، ان میں سے ہر واقعہ دردناک، دلوں کو جھنجھوڑنے والا اور جگر خون کرنے والا ہے مگر حافظ جنید کی شہادت نے لوگوں کو جس طرح بے قرار کیا ہے اور ان کی سوچ کو جس طرح نئی جہت دی ہے ، دوسرے واقعات نے اس طرح بے چین ومضطرب نہیں کیا اور ان کی سوچ کو اس قدر متأثر نہیں کیا، اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ معصوم بچہ روزے سے تھا، اس کے سینے میں اللہ کے کلام کی دولت محفوظ تھی، اور وہ چند دن پہلے ہی تراویح کی نمازمیں قرآن کریم سنا کر فارغ ہوا تھا، عید میں دو دن باقی تھے اور وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ عید کی خریداری کرکے خوشی خوشی گھر واپس لوٹ رہا تھا، اس کی آنکھوں میں عید کی خوشی کے سچے خوابوں کی چمک تھی کہ جنونیوں کی ایک بھیڑ نے اس معصوم اور نہتے بچے کے خوابوں کی وہ چمک اس کی آنکھوں سے چھین لی، اور اسے زخموں سے چور اور زندگی سے دور کرکے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر پھینک دیا، واقعۂ شہادت کے ان پہلوؤں نے ان گنت لوگوں کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، اور وہ مذہب، زبان، نسل اور علاقے کے امتیاز وتفریق کو بالائے طاق رکھ کر سڑکوں پر اتر آئے ہیں، ان کے دلوں میں اضطراب ہے، ان کی آنکھوں میں نمی ہے، ان کی زبانوں پر نعرے ہیں، ان کے ہاتھوں میں دفتیاں ہیں جن پر اس واقعے کی مذمت میں دلوں کو چھو لینے والے جملے لکھے ہوئے ہیں، انسانی ضمیر کی بیداری کایہ واقعہ بلاشبہ حافظ جنید کی شہادت سے رونما ہوا، اس کے خون کی خوشبو صرف دلّی میں ہی نہیں مہکی، صرف ہندوستان کے شہروں ہی میں نہیں پھیلی بل کہ یورپ اور اور امریکہ کے بڑے شہروں میں بھی اس کا اثر محسوس کیا گیا، ملک میں جاری بھگوا دہشت گردوں کی انسانیت سوز حرکتوں کے خلاف پہلا احتجاج راجدھانی دہلی کے جنترمنتر پر ہوا، اس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے حصہ لیا، یہ کوئی عام آدمیوں کی بھیڑ نہیں تھی جنہیں یومیہ مزدوری پر لاکر دھرنوں میں بٹھا دیا جاتا ہے، بل کہ یہ ملک کے چنیدہ شہریوں کا اجتماع تھا، امن پسند اور سیکولر ذہن رکھنے والوں کا ایک زبردست ہجوم تھا،اس میں ہر طبقے کے لوگ شامل تھے، شاعر، ادیب، قلم کار، صحافی، پروفیسر، فلمساز، تاجر، سماجی کارکن، کئی نامی گرامی ہستیاں بھی تھیں جو صرف انسانیت کے نام پر جمع ہوئیں اور جنھوں نے not in my name کے عنوان سے احتجاجی مظاہرہ کرکے ان جنونیوں کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور حکومت کی بے حسی کے خلاف اپنی آواز بلند کی، اسی طرح کی ریلیاں بمبئی، دہلی، کلکتہ، حیدرآباد، تروانتا پورم اور بنگلورمیں بھی منعقد کی گئیں، اور ملک سے باہر واشنگٹن، نیویارک، لندن اور سڈنی جیسے عالمی شہروں میں بھی انصاف اور امن پر یقین رکھنے والوں نے اس طرح کے اجتماعات منعقد کرکے دنیا کو یہ باور کرایا کہ انسانیت ابھی زندہ ہے، ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے والے ابھی باقی ہیں، اور مظلوموں کا ساتھ دینے والوں کی آج بھی کمی نہیں ہے۔
جنید سے پہلے کے واقعات پر مہر بہ لب رہنے والے بے حس حکمرانوں نے بھی احتجاج کی یہ دھمک محسوس کی ہے، اطلاعات ونشریات کے مرکزی وزیر وینکیا نائڈو نے کہا کہ اس طرح کی حرکتیں ہرگز برداشت نہیں کی جاسکتیں، جنید کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے، مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے بھی اس قتل کو انتہائی شرمناک اور دردناک قرار دیا اور کہا کہ حکومت ایسے حملوں کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی، ہریانہ کے وزیر اعلا بھی بولے جن کے قلمرو میں یہ وحشتناک واقعہ پیش آیا، ہمارے ہر دل عزیز وزیرا عظم جناب نریندر مودی جی نے بھی مہاتما گاندھی اور ونوبابھاوے جیسے امن پسندوں کا حوالہ دے کر بے گناہوں کے خون ناحق سے اپنے ہاتھ رنگنے والے دہشت پسندوں کو آئینہ دکھلانے کی کوشش کی، مگر ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم سمیت کسی بھی وزیر باتدبیر نے دل سے نہیں چاہا کہ ملک کو ان جنونیوں سے نجات ملے، اور یہ تمام لوگ جو عرصۂ دراز سے مذہب کے نام پر آتنک پھیلانے میں مصروف ہیں کیفر کردار کو پہنچیں، ورنہ کیا وجہ ہے کہ وزیرا عظم کی وارننگ کے بعد بھی یہ خونی کھیل برابر جاری ہے اور آج بھی آتنکیوں کی یہ بھیڑ معصوم لوگوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
جنید کی شہادت کے بعد احتجاج کا جو سفر شروع ہوا تھا وہ ابھی منزل تک نہیں پہنچا، روز کسی نہ کسی شہر سے خبر آرہی ہے کہ امن وانصاف کے نام پر لوگ جمع ہوکر احتجاج کررہے ہیں، خاص بات یہ ہے کہ ان اجتماعات میں یہ مصروف لوگ محض اپنے جذبے سے شرکت کررہے ہیں، اور اس میں مسلمانوں کی کسی جماعت یا تنظیم کا کوئی رول نہیں ہے، جنید کے آبائی گاؤں اور اس سے ملحقہ علاقوں کے ہندو اور مسلمان بھی جنتر منتر پر پہنچے ہیں اور انھوں نے بھی اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے، دوسری طرف سوشل میڈیا پر مسلم نوجوانوں کا غم وغصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے، انہیں اپنی قیادت سے شکایت ہے کہ آخر وہ کیوں خاموش ہے، اسی تناظر میں جامعہ نگر دہلی کے بعض مایوس مسلم نوجوانوں نے دین پسندوں کے مقابلے میں دین بیزاروں کو جوڑنے کی کوشش کی ہے، اپنی اس تحریک کو انہوں نے لال سلام کا نام دیا ہے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ انہیں اپنی مذہبی قیادت پر اعتماد نہیں رہا، اس طرح کے حالات میں مایوسی کی یہ کیفیت نہ غیر فطری ہے اور نہ حیرت انگیز، مگر اسے جذباتی ضرور کہا جاسکتا ہے، اور بغیر سوچے سمجھے اٹھایا گیا ایک قدم بھی، جامعہ نگر میں جہاں تقریباً تمام مسلم تنظمیں آن بان شان کے ساتھ قائم ہیں اس طرح کی کسی تحریک کا طلوع ان تنظیموں کے لئے نیک فال نہیں ہے۔
لیکن ملی جماعتوں کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں، آپس کے اختلافات انہیں ایک دوسرے سے جڑنے نہیں دے رہے ہیں، انفرادی حیثیت سے وہ جو کچھ کرسکتی ہیں کررہی ہیں، جمعیۃ علماء ہند (مولانا محمود مدنی گروپ) نے عید ملن کا پروگرام منسوخ کرکے بپھرے ہوئے نوجوانوں کے جذبات کو سرد کرنے کی جو کوشش کی ہے اس میں اسے کامیابی ملی ہے، کئی جماعتوں کے وفود غم زدہ خاندان سے مل کر آئے ہیں، جس سے اس خاندان کو حوصلہ ملا ہے، تازہ خبر یہ ہے کہ جمعیۃ علماء نے جنید کا کیس لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کی تیاری بھی مکمل کرلی ہے، جمعیۃ کاخیال ہے کہ موجودہ حالات میں جذبات کی رو میں بہنے کے بجائے قانونی چارہ جوئی کے لئے سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے، بلاشبہ قانونی کاروائی ضروری ہے، اور اس سلسلے میں مضبوط قدم اٹھانا وقت کا تقاضا ہے، جذبات میں بہنا بھی غلط ہے، مگر ملک میں اس وقت خوف وہراس کا جو ماحول ہے، اور وزیر اعظم کی وارننگ کے بعد بھی بے گناہ مسلمانوں کے قتل کا جو سلسلہ چل رہا ہے اس سے نمٹنے کے لئے بھی تو ہماری جماعتوں کو کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا، جمہوریت میں اپنی بات منوانے کے جو جائز طریقے ہیں ہم ابھی تک وہ طریقے بھی اختیار نہیں کرپارہے ہیں، بھلا ہو سیکولر مزاج انصاف پسندوں کا کہ وہ اس معاملے میں ہم سے بازی لے گئے، ہم نے اپنے گذشتہ ہفتے کے کالم میں بھی لکھا تھا اور آج پھر لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے تو ہماری جماعتوں کو اپنے گروہی مفادات اور مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کے قریب آنا ہوگا اور کسی ایک شخصیت کو اپنا قائد تسلیم کرکے اپنی جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا، جب سب مل کر بیٹھیں گے تو جدوجہد کا راستہ خود بہ خود ہموار ہوگا اور کامیابی کے امکانات بھی روشن ہوں گے، ہم سے بعض دوستوں نے سوال کیا ہے کہ آپ صرف ملّی قیادت کو للکارتے رہتے ہیں خود کچھ کیوں نہیں کرتے، اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ قیادت ہر شخص نہیں کرسکتا، جو لوگ پہلے سے اس میدان میں ہیں یہ کام ان کا ہے، یہ ذمہ داری ان کی ہے کہ وہ کچھ کریں، صحافی اور قلم کار تو ان کے حوصلوں کو مہمیز کرسکتے ہیں سو وہ ہم کرتے رہتے ہیں، بعض دوستوں نے یہ بھی پوچھا ہے کہ جدوجہد کا نقطۂ آغاز کیا ہونا چاہئے؟ اس کا جواب بھی اتحاد میں مضمر ہے، جب سب مل جل کر غور کریں گے تو جدوجہد کا نقطۂ آغاز بھی طے ہوگا، ہمارے ذہن میں ایک خیال آیا تھا اور وہ ہم نے جمعیۃ کے ذمہ داروں تک پہنچا بھی دیا تھا کہ اس کی تاریخ جدوجہد سے بھری ہوئی ہے، اسی جدوجہد کا ایک روشن باب تحریکِ ملک وملت بھی ہے جس میں اپنے مطالبات منوانے کے لئے جمعیۃ کے اراکین جیلیں بھرا کرتے تھے، موجودہ حالات میں اس طرح کی تحریک سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا جاسکتا ہے، فیصلہ تو جمعیۃ ہی کو کرنا ہے ہم صرف مشورہ دے سکتے ہیں، البتہ اس مشورے میں یہ اضافہ ضرور کریں گے کہ اگر جمعیۃ کوئی تحریک چلاتی ہے تو وہ تنہا جمعیۃ کی تحریک نہ ہو، بل کہ اس میں تمام ملّی جماعتوں کو شریک کیا جائے، ملک کے تمام سیکولر طبقوں کو ساتھ لایا جائے، مذہبی اور غیر مذہبی ہر طرح کی طاقتوں سے اس تحریک میں تعاون لیا جائے، اور سب کے تعاون سے اس چیلنج کا بھرپور جواب دینے کی کوشش کی جائے، یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اتحاد ہی کامیابی کی طرف پہلا قدم ہے۔
nadimulwajidi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں