اندھوں کے شہر میں آئینہ بیچتے ہیں

قاسم سید
طاقت اور عدوی قوت کو فیصلہ کن حیثیت دینے، بھیڑ کو انصاف کا حق اور محافظوں کے ہاتھوں ناپسندیدہ لوگوں کے قتل کی اجازت، جمہوریت اور سیکولرازم کو عملاً دفن کرنے کے مترادف ہے۔ ہندوستان کے سابق چیف جسٹس اے احمدی نے ایک بار کہا تھا کہ ملک کے عوام حکومت سے ڈرنے لگیں بجائے اس کہ حکومت ان سے ڈرے تو وہ ملک جمہوری نہیں رہے گا۔ آئین کی روح انصاف مساوات اور آزادی ہے۔ ان پر جب بھی کلہاڑا چلا عدلیہ اور میڈیا نےاپنی ذمہ داری نبھائی یہ کسی بھی مظلوم کی آخری امید ہیں۔

جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے وہ اس وقت شدید دباؤ میں ہے۔ پالیسی سازی اس کے ہاتھ سے نکل کر مالکوں کے ہاتھ میں آگئی ہے جو کارپوریٹ اور سرکار کی ضرورت کے تحت وضع کی جاتی ہے۔ اس وقت میڈیا کے تین چہرے ہیں کارپوریٹ ، فرقہ پرست اور ذات پرست یہ تینوں چہرے فاسشٹ طاقتوں کے ترجمان بن گئے ہیں جو سماج کے لئے سنگین خطرہ ہے۔ غریبوں، دلتوں، کسانوں، اقلیتوں اور دیگر مظلوم طبقات کےمسائل اس کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ ایک معمولی ایکٹریس جو اتفاق سے مسلمان ہو اور مانگ میں سیندور سجاتی ہو پرائم ٹائم کا موضوع بن جاتی ہے ۔ہمارے قابل علما اس پر اپنی گراں قدر رائے دینے پہنچتے ہیں اور اس کے بچھائے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا سے عام آدمی اس طرح غائب ہوگیا ہے جیسے غریب کی تھالی سے دال،ٹی وی مباحثوں کے لئے سنسنی خیز اور اشتعال انگیز موضوع منتخب کئے جاتے ہیں۔ تاکہ فرقہ واریت کی بھٹی کو خوب دہکایا جائے۔ اینکروں نے سوشل ریفارمر، فارن پالیسی ایکسپرٹ اور داخلی امور کے ماہرین کی پوزیشن سنبھال لی ہے۔ وہ ملک کی دھڑکنیں تیز کرنے کے لئے پاکستان اور کشمیر نام کا دیسی گھی استعمال کرتے ہیں تاکہ آگ جو بھڑکائی گئی ہے اس کے شعلے اور بلند ہوں۔ وہ اپنے شرکا سے ہاں یا نہ میں جواب سننا چاہتا ہے۔ گائے کو سیاست کا مرکز بنانے، کشمیر کو غزہ بنانے، دلتوں کے خلاف نفرت اور اقلیتوں کو درانداز کی شکل میں دکھانے کی جنونی پالیسی اس کی ٹی آرپی بڑھاتی ہے۔ میڈیا کا ایک بڑا سیکشن حب الوطنی کا سول ایجنٹ بن گیا ہے۔ اسے غیر سرکاری طور پریہ لائسنس مل گیا ہے کہ اپنی صوابدید کے مطابق دیش بھکت اور دیش دروہی طے کرے اختلاف رائے کی گنجائش ختم کردی گئی ہے۔ حکومت سے قربت اور داد و عیش کی ہوس نےصحیح اور غلط کی تمیز مٹادی ہے۔ کارپوریٹ میڈیا کا عمل دخل اس حد تک بڑھ گیا ہے آزادی کی بات کرنے والے تمسخر اور ہنسی کا کردار بن گئے ہیں۔ وہ دیش دروہی کی صف میں کھڑے کردئیے جاتے ہیں۔ اخلاق کے قتل پر دانشوروں کی طرف سے ایوارڈ واپسی، جے این یو اور کنہیا کمار کے قضیہ کے وقت حکومت پر نکتہ چینی غداری کے زمرہ میں ڈال دی جاتی ہے۔ اینکروں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کا سابق وزیر دفاع برملا یہ اعتراف کرتا ہے کہ ٹی وی انٹرویو کے درمیان ایک اینکر کے غصہ دلانے اور توہین آمیز سوال پوچھنے کے بعد سرجیکل اسٹرائیک کا فیصلہ لیا گیا۔ گویا ملک کا ایجنڈہ اب اینکروں کے ہاتھوں میں دے دیا گیا کہ وہ طے کریں اگلا قدم کیا ہونا چاہئے۔ بدعنوانی کے الزام میں جیل جانے اور بلیک میل کرنے والوں کو سیکورٹی دی جائے تو اس سے کیا پیغام دیا جارہا ہوگا۔ جو ہمارے ساتھ نہیں وہ دیش کادشمن ہے۔ جب سرکار پارٹی اور ملک کو ایک صف میں رکھ دیا جائے اور سرکار کی مخالفت کو ملک دشمنی اور دیش دروہی کہا جانے لگےاور میڈیا اس پالیسی کا حلیف ہو تو پھر میڈیا کی ریڑھ کی ہڈی پر سوال کرنا بے معنی ہے۔

میڈیا کا اعتبار اٹھنے کی وجہ بھی میڈیا کا وہ بڑا سیکشن ہے جس نے جھوٹ کو اپنا شعار اور چاپلوسی کو اپنا کردار بنالیا ہے۔خود کو زیادہ وفادار ثابت کرنے کی دھن میں اپنی شناخت کھوکر خواجہ سرا بن گیا ہے۔ میڈیا کا سرکار نواز طبقہ اپنے مخالف میڈیا کو دلال، چور اُچکّا اور دیش دروہی بتانے میں لگا ہے اچھے صحافی کا جینا محال ہے۔ سیاست داں، بیوروکریسی اور چٹ فنڈ مافیاؤں کےمثلث نے میڈیا و یرغمال بنالیا ہے۔راشٹرواد کو گؤ بناکر خود کو گؤ رکشکوں کےغول میں تبدیل ہوگیا۔ فرق اتنا ہے کہ گؤ رکشک بے خوف و خطر، قانون کی گرفت سے لاپروا سڑکوں پر انصاف کرتے ہیں اور یہ گؤ رکشک خوف و دہشت کی نفسیات پیدا کررہے ہیں۔ مودی نے 80 فیصد گؤ رکشکوں کو فرضی بتایا تھا۔ اس طرح میڈیا میں موجود راشٹر واد کے رکشکوں میں 80 فیصد نقلی اور فرضی ہیں۔ کبھی فوج کی چلمن تو کبھی پاکستان کا سہارا لے کر نفرت ودشمنی کی کھیتی میں کھاد ڈال رہے ہیں کیونکہ راشٹر واد کے لئے خوف اور نفرت دو اہم ہتھیار ہیں۔ اس کی بالواسطہ پشت پناہی اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے میڈیا کا وہ طبقہ جو موجودہ حالات سے دکھی ہے بہت کمزور ہوگیا ہے۔ اسے نکو بنادیا گیا ہے۔ بھپتیاں کسی جاتی ہیں اور ٹی آر پی میں وہ نیچے سے دوردرشن کے بعد ٹاپ پر دکھایا جاتا ہے۔

کارپوریٹ کی انٹری نے میڈیاکو لالچ زون میں پہنچادیا ہے ۔ گذشتہ تین سالوں میں کارپوریٹ میڈیا گائے، کشمیر اور پاکستان پر چل رہاہے۔ جمہوریت کا چوتھا ستون لڑکھڑا رہا ہے اس لئے مایوسی میں اضافہ ہو رہاہے۔

جہاں تک ہمارا تعلق ہے میڈیا کے معاملہ میں بانجھ ہیں اور قدرتی علاج کے تمام اسباب ہونے کے باوجود بانجھ پن دور کرنے کے لئے سنجیدہ کوشش بھی نہیں کرتے۔ دوسرے کی اولاد سے وفاداری، ذمہ داری اور فرمانبرداری کی امید رکھتے ہیں۔ اس کی بے رخی اور دل جلانے والوں حرکتوں پر ہاتھوں میں ملامت کے پتھر اور زبان پر شکوے آجاتے ہیں۔ اسے ذمہ داری کا احساس دلانا نہیں بھولتے۔ سوال یہ ہے کہ جس نے کروڑوں روپے لگائے وہ ہمارے مسائل و مفادات کی ترجمانی کیوں کرے گا۔ وہ ہمارے دکھ درد کو ترجیحی ایجنڈہ کیوں بنائےگا۔ حالانکہ ہزاروں ملامتوں کے باوجود اگر اخلاق، جنید جیسے معاملات موضوع بحث بن جاتے ہیں تو یہ بھی اس نالائق نافرمان ناخلف کےسبب ہی ممکن ہے۔ ورنہ ہماری آوازیں تو اردو میڈیا تک بلند ہوکر ختم ہوجاتی ہیں اور اردو میڈیا بے چارہ اپنی غیر جانبداری اور سچائی بیان کرنے کی روش پر قائم رہنے کی ہمت و جسارت نہیں رکھتا۔ اس کے اپنے مسائل ہیں۔ بامقصد میڈیا اول تو ہے نہیں جو ہے وہ جاں کنی کے عالم میں ہے۔ البتہ جن کی نہ کوئی پالیسی ہے نہ رائے اور ان کی نظریں صرف سرکاری وغیر سرکاری ’’مال غنیمت‘‘ پر رہتی ہیں ان کے لئے راوی عیش لکھتا ہے وہ اختلاف کرنے اور تحقیقی صحافت کرنے کا جھنجھٹ اور رسک مول نہیں لیتے۔ہمارے سماج میں زرخرید لونڈی بناکر جھاڑو پونچھا کرانے والوں کی کمی نہیں ہے۔ اس کے عوض میں مکھن لگی روٹی مل جائے تو گھاٹے کا سودا نہیں۔ پھر ہمارے یہاں جرأت مندانہ تحریر برداشت کرنے والے عنقا ہیں۔انکساری کی جگہ خوشامد، چاپلوسی نے حاصل کرلی ہے۔ اگر بڑوں کے دسترخوان پر بیٹھنا درجہ حاصل وزیروں کے آگے گھٹنوں پر جھک کر سلام کرنا ہی خوش بختی اور قربت ثابت کرنے کی علامتیں ہیں تو ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی۔ مسائل کی اکثریت نے بھی کارپوریٹ سے بچھے کچھے اردو میڈیاکی گردن کی رگوں کو ڈھیلا کردیا ہے۔

ایسا نہیں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں یا دل دردمند نہیں۔ کانفرنسوں کی کثرت اور ان پر خرچ کئے جانے والے لاکھوں کروڑوں روپے اس بات کا مظہر ہیں کہ سیدھی سادھی امت کو جو ترجیحات بتائی گئی ہیں وہ ان پر لٹانے کو تیار ہے۔ وہ تو اپنے بدن کے کپڑے اور رگوں کا خون تک دے سکتی ہے اور دے رہی ہے۔ مسلم جماعتوں کے عالیشان دفاتر، این جی اوز کی بلڈنگیں آئے دن ان کے غیر ملکی اسفار اور کارِ خیر کرنے والوں کے پاس اللہ تعالی کے فضل و عنایت کی بےپایاں بارش یہ بتاتی ہے کہ کسمپرسی کے باوجود یہ یہ خستہ حال امت بڑے بڑے پہاڑ ڈھونے کو تیار ہے۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے وہ ترجیحات تو دور کسی بھی درجے میں شامل نہیں ہے اور میڈیا سے محرومی کا نتیجہ ہے کہ ہم ملک کے سامنے اپنا موقف نہیں رکھ پاتے۔ صرف پریس ریلیزوں سے مسائل حل نہیں ہوتے جب تک طاقتور متبادل میڈیا کے بارے میں قوم کے ارباب اختیار نہیں سوچیں گے رسوائیوں نامرادیوں اور غلط فہمیوں کا علاج نہیں ہوسکے گا۔ یہ دور جلسوں کا نہیں میڈیا کا ہے۔ مناظروں کا نہیں ڈیبیٹ کا ہے۔ اونا واقعہ میں دلتوں میں بیداری پیدا کردی مگر مظفر نگر اس سے پہلے گجرات اور اخلاق سے لے کر جنید تک جیسے وحشیانہ واقعات ہماری فکر اور ترجیحات بدلنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم روایتی سیاست اور روایتی طریقہ کار سے ہٹنا نہیں چاہتے۔ موجودہ حالات کو اپنی بداعمالیوں اور اللہ کا عذاب کہہ کر کندھے جھٹک کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ معزز مسلم قیادت نجانے کس قیامت کا انتظار کر رہی ہے کیا وہ میڈیا کے الجزیرہ بننے سے ڈرتی ہے یا اس کا کام چل رہا ہے اس لئے بے پرواہ ہے۔ وہ سیکولر جماعتوں کو کاندھوں پر ڈھونے میں ہی عافیت سمجھ رہی ہےجبکہ ان کی منافقت سب پر عیاں ہے۔ آپ کی دعوت پر ان کی آمد ہی افتخار و کامیابی کے لئے کافی ہے تو ہم صرف دعائے خیر ہی کرسکتے ہیں۔ قیامت ہی میں نہیں دنیا میں بھی کوئی کسی کا بوجھ نہیں ڈھوتا۔ اپنے حصے کا کام خود کرنا پڑتا ہے۔ مایوسی گناہ ہے اور اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے مگر حضور خالق ارض و سما کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ ایسی قوموں کی کوئی مدد نہیں کرتا جن کو اپنی حالت بدلنے کا خود احساس نہیں ہوتا۔

qasimsyed2008@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں