بے وطن لوگ

پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی 

ہجرت کی تاریخ دنیا میں بہت قدیم ہے، مختلف اقوام وملل اور مذاہب کے پیروکاروں کو مختلف وجوہات کی بنیاد پر اپنا دیار چھوڑ کر دوسری جگہ سکونت اختیا رکرنی پڑی ہے ، یہودی، عیسائی ، مسلمان ، ہندو پارسی سمیت مختلف قوم اور مذہب کے ماننے والوں کو ظلم و ستم ، تشدد اور دیگر پریشانیوں کی بنا پر اپنا وطن چھوڑ کر دوسری جگہ جانا پڑاہے ۔ ہجرت کے بڑھتے سلسلہ کو ہی دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے بھی 1950 میں اس پر خاص توجہ دی اور یونائٹیڈ نیشن ہائی کمشنر آف ریفیوجی (UNHCR) کے نام سے مستقل ایک ایجنسی قائم کی گئی جس کا مرکزی دفتر سوئزلینڈ کے شہر جینوا میں واقع ہے ، اقوام متحدہ کی رپوٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 65 ملین لوگ بے وطن ہیں جو مہاجرین کی زندگی بسرکررہے ہیں، 1950 کے بعد جو لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ان کی تعداد تقریبا 21 ملین ہے جس میں سے 16 ملین یو این ایچ سی آر کے دائرے میں آتے ہیں جبکہ 5 ملین یو این آر ڈبلیو اے کے تحت ہیں جس میں فلسطینی مہاجرین شامل ہیں۔مہاجرین میں اس وقت سب سے زیادہ مسلمان ہیں، جن ممالک کے شہریوں کو بے وطن ہونا پڑا ہے ان میں شام سر فہرست ہیں جہاں کے تقریبا 5 ملین سے زیادہ شہری اپنے ملک میں جاری خانہ جنگی اور قتل وغارت گری کی وجہ سے دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں، دوسرے نمبر پر افغانستان جہان کے تقریباً 3 ملین شہری ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں، تیسرے نمبر پرمیانما رہے جہاں کے تقریباً 16 لاکھ سے زائد شہری تشدداور ظلم وستم سے تنگ آکر دوسری جگہوں پر پناہ لینے کیلئے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ چوتھے نمبر پر صومالیہ ہے جہاں کے تقریبا 15 لاکھ شہری اپنا ملک چھوڑ چکے ہیں۔پانچویں نمبر پر ساﺅتھ سوڈان ہے جہاں کے آٹھ لاکھ لوگ ہجرت کرچکے ہیں ۔ پناہ گزینوں میں مسلمانوں کے علاوہ یہودی ، عیسائی ،ہندو ،پارسی سمیت کئی قوم اور مذہب کے ماننے والے شامل ہیں۔ ان مہاجرین کی 90 فیصد تعداد کو مسلم ممالک نے اپنے یہاں پناہ دے رکھی ہے ، صرف دس فیصد ایسے مہاجرین ہیں جنہیں مسلم ملکوں کے علاوہ دوسروں نے پناہ دی ہے ،اس وقت مہاجرین کا سب سے بڑا میزبان ترکی ہے جہاں تقریبا تین ملین سے زیادہ شامی مہاجرین پناہ گزین ہیں اور وہاں مسلمانوں کے ساتھ شام کے عیسائی باشندے بھی پناہ لئے ہوئے ہیں۔دوسرے نمبر پر پاکستان ہیں جہاں تقریباً افغانستان اور میانمار کے دوملین مہاجرین قیا م پذیر ہیں۔تیسرے نمبر پر لبنان کا نام آتاہے جہاں 13 لاکھ مہاجرین پناہ گزین ہیں۔ ایران ،اردن سمیت مہاجرین کی میزبانی کرنے والے ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں سبھی سبھی اسلامی ریاستیں شامل ہیں ۔
روہنگیا بحران کے پس منظرمیں سوشل میڈیا پر ان دنوں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کو خود ان کے مسلم ممالک پناہ نہیں دیتے ہیں، مسلم مہاجرین یورپ کے عیسائی ملکوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں ، روہنگیا مسلمان ہندوستان میں پناہ لینا چاہتے ہیں، اسی طرح کی ایک اسٹور ی انڈیا ٹوڈے گروپ کے تحت چلنے والے نیوز پورٹل ” للن ٹاپ “ نے بھی شائع کی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ مسلمانوں کو خود مسلم ملک پناہ نہیں دیتے ہیں ۔ یہ تمام بات دراصل جہالت ، عدم واقفیت اور نادانی پر مبنی ہے ، یا پھر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس طر ح کی تحریر کے پس پردہ عصبیت چھپی ہوتی ہے۔ اس لئے آئندہ سطور میں ہم ان غیر مسلم مہاجرین کا تذکرہ کریں گے جنہیں مسلمانوں نے پناہ دے رکھی ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ پناہ گزینوں کو ٹھہرانے کا کام مسلم ملکوں نے ہی کیا ہے ،  صرف 10 فیصد مہاجرین غیر مسلم ممالک میں ٹھہرے ہوئے ہیں، مسلمانوں نے عیسائیوں ، یہودیوں اور ہندﺅوں کو بھی پناہ دی ہے ۔1339 میں جب اندلس کے بعض علاقوں پر عیسائی قابض ہوئے تو یہودیوں نے سمندر پار کرکے افریقی ممالک الجیریا ،مراکش اور تنزانیہ میں جاکر پناہ لی۔ 1496 میں یہودیوں کو جب پرتگال سے بھگایا گیا تو ان لوگوں نے پھر سمندر عبور کرکے افریقہ کے مسلم ممالک کا ہی رخ کیا جہاں انہیں ٹھہرایا گیا۔ اسی طرح 1492 میں جب اندلس میں مسلم حکومت کا خاتمہ ہوا اور فرڈنویس کی بادشاہت قائم ہوئی تو مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کا بھی قتل عام کیا گیا اس موقع پرتقریباً 2 لاکھ 50 ہزار یہودی مہاجرین کو خلافت عثمانیہ نے پناہ دی ، ان مظلوم یہودیوں کو سمندر پار کرنے کے لئے کشتیاں بھی خلافت عثمانیہ نے ہی بھیجی تھی۔ ہٹلر کے حکم پر جب فرانس میں یہودیوں کا قتل عام کیا گیا تو اس وقت بھی انہیں مراکش نے ہی پنادی ، پولینڈ کے تین لاکھ عیسائیوں نے ایران میں آکر سکونت اختیار کی، یورپ کے لاکھوں عیسائیوں اور یہودیوں نے مشرق وسطی کے شام ،فسطین اور عراق میں آکر اپنا ٹھکانہ بنایا، ہٹلر نے جب یہودیوں کا قتل عام شروع کیا تو اس وقت بھی دنیا بھر میں یہودیوں کو بچانے میں نمایاں کردار مسلمانوں نے ہی ادا کیا ۔ سری لنکا سے جب تمل ہندﺅوں نے بھاگنا شرو ع کیا تو اس میں سے کچھ نے ہندوستان آکر پناہ لی تو بہت سارے کو ملیشاءنے اپنے یہاں جگہ دی ۔اقتصادی سطح پر دیکھا جائے تو یہاں بھی مسلم ممالک نے کبھی تعصب سے کام نہیں لیا ہے ، مشرق وسطی کے ممالک میں لاکھوں ہند روزگار اور ملازمت سے وابستہ ہیں ، کسی مذہبی تفریق کے بغیر ان ممالک نے مسلمانوں کے ساتھ ہندﺅوں، عیسائیوں، یہودیوں، سکھوں ، بڈھسٹوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو روزگا رسے جوڑ رکھا ہے ۔
ہندوستا ن بھی ان ملکوں میں شامل ہے جس نے کچھ مہاجرین کو اپنے یہاں پناہ دے رکھی ہے لیکن یہ تعداد انتہائی کم ہے، ہندوستان میں سب سے زیادہ مہاجرین تبت کے ہیں ، جن کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے ، انہیں یہاں بہت سارے حقوق حاصل ہیں ، میڈیکل اور انجیرنگ کے شعبہ میں ریزرویشن بھی ملا ہواہے ،ان کے بچوں کی تعلیم کیلئے علاحدہ اسکول بنے ہوئے ہیں۔ افغان اور پاکستان کے ہندو بھی بڑی تعداد میں پناہ لئے ہوئے ہیں جنہیں سرکاری سطح پر تمام مراعات حاصل ہیں، میانما ر میں مسلم نسل کشی کی شروعات کے بعد روہنگیا نے دیگر ممالک کا رخ کرنے کے ساتھ ہندوستان کی سرحد بھی عبور کی اور یہاں آکر پناہ لی لیکن یہ یہاں کے شدت پسند ہندو عناصر کو برداشت نہیں ہے۔
الجزیرہ کی رپوٹ کے مطابق 1970 سے اب تک میانمار کے تقریباً 16 لاکھ سے زائد لوگ ہجرت کرچکے ہیں جس میں سے آٹھ لاکھ بنگلہ دیش میں ہیں، تین لاکھ پچاس ہزار کو پاکستان نے پناہ دے رکھی ہے، دو لاکھ سعودی عرب میں ہیں، پانچ ہزار تھائی لینڈ میں ہیں، ڈیڑھ لاکھ ملیشاء میں ٹھہرے ہوئے ہیں، چالیس ہزار ہندوستان میں ہیں، دس ہزا ر متحدہ عرب امارات میں ہیں ۔ ایک ہزار انڈونیشا میں ہیں ،اس کے علاوہ ایک لاکھ بیس ہزار آراکان میں اب تک اس حال میں باقی ہیں کہ انہیں حق شہریت حاصل نہیں ہے ۔
بے وطن اور مہاجرین کو پناہ دینے والے ممالک کی فہرست میں ہندوستان کی شبیہ اوروں سے مختلف ہے ، دنیا کے دیگر ممالک نے انسانیت کی بنیاد پر بے وطن لوگوں کو پناہ دے رکھی ہے ، لیکن ہندوستان میں پناہ دینے کی بنیاد مذہب ہے ، آزادی کے بعد سے لیکر اب تک ہندو مہاجرین کا یہاں دل کھول کر استقبال کیا گیا ہے جبکہ مسلمانوں کے ساتھ امتیاز برتا گیا ہے ، موجودہ حکومت نے تو کھلے عام پناہ دینے کی بنیاد مذہب کو بنادیا ہے ، روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کو اس لئے یہا ں سے بھگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیوں کہ وہ مسلمان ہیں، دہشت گرد ٹھہراتے ہوئے قومی سلامتی کیلئے خطرہ بتایا گیا ہے اور سپریم کورٹ سے یہ اپیل کی گئی ہے کہ وہ مداخلت نہ کرے ۔ دوسری طر ف میانمار کے روہنگیا ہندﺅوں کا بنگلہ دیش نے مسلمانوں کی طر ح ہی استقبال کیا ہے ۔
روہنگیا مہاجرین کا مسئلہ تبت ، تمل اور دیگر مہاجرین سے بالکل مختلف ہے ، اگر وہ لوگ ہندوستان میں قانونی طور پر پناہ حاصل کرسکتے ہیں کہ تو روہنگیا یہاں کی شہریت کے بھی حقدار ہیں ، روہنگیا کے بارے میں میانمار حکومت کا ماننا ہے کہ یہ لوگ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے اصل باشندے ہیں ، انگریز اسے یہاں لیکر آئے تھے ، اگر میانمار کی اس بات کو حقیقت مان لیا جائے تو پھر ہندوستان کا آئینی فریضہ ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو واپس لے ، برٹش حکومت میں میانمار متحدہ ہندوستان کا ہی ایک صوبہ تھا علاحدہ ملک کی حیثیت حاصل نہیں تھی، یہ الگ بات ہے کہ تاریخی شواہد اس کے خلاف ہیں اور روہنگیا آراکان میں نویں صدی سے آباد ہیں ، انگریز جنہیں وہاں لیکر گئے تھے وہ صرف چند خاندان ہیں۔ یو این ایچ سی آر کا بھی مانناہے کہ ہندوستان اور میانمار کا یہ اندورنی معاملہ ہے ، روہنگیا کی شہریت کا مسئلہ حل کرنا حکومت ہند کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ حکومت چاہے تو انہیں پناہ دے یا پھر میانمار میں انہیں حق شہریت دلائیں ۔ کم از کم روہنگیا کے بارے میں ایک واضح موقف اختیا کرکے بتائے کہ یہ اصل میں کس ملک کے شہری ہیں اور ان کا وطن کہاں ہونا چاہیئے ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں