کردستان کی شکل میں مسلم ممالک کی ایک اور تقسیم کا منصوبہ

پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی 

مشرق وسطی میں ایک نئے ملک کی تشکیل کا مسئلہ زیر بحث ہے ،برسوں سے 35 ملین کرد اپنے لئے ایک آزاد ملک کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن ان کی جدوجہد کامیابی سے ہم کنار نہیں ہورہی ہے ، 2014 میں کردوں نے اپنے دیرینہ مقصد کی تکمیل کیلئے ایک ریفرینڈم کرانے کا منصوبہ بنایا تاکہ اس کے ذریعہ حاصل ہونے والی آراء کو بنیاد بناکر وہ ایک آزاد ریاست کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر کرسکیں، تین سالوں بعد گذشتہ سات ستمبر 2017 کو شمالی عراق کے صوبہ کردستان کے لیڈر مسعود بار زانی نے کردوں کی تمام علاقائی تنظیموں اور پارٹیوں سے مشورہ کرکے 25؍ستمبر 2017 کو عراق کے ماتحت کردستان علاقائی حکومت ( KRG ) میں ریفرنڈم کا انعقاد کیا ، کردستان کے لیڈر مسعود بارزانی کا دعوی ہے کہ اس ریفرینڈم میں اکثریت ’’ یس ‘‘ کا ووٹ آیا ہے ، یعنی عوام ایک آزاد کرد ریاست چاہتی ہے ۔ الیکشن کمیش نے بھی نتائج کا حتمی اعلان کردیا ہے کہ 92 فیصد ووٹ آزاد ریاست کے حق میں آئے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ عراقی حکومت نے اس ریفرنڈم کو غیر آئینی کہتے ہوئے مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ اس متنازع ریفرنڈم کی بنیاد پر مذاکرات ناممکن ہے۔ ترکی نے بھی اس ریفرنڈم کے انعقاد کی شدید مذمت کی ہے ، ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کردوں کی علاحدہ ریاست کے شدید خلاف ہیں ، ان کا ماننا ہے کہ کرد عوام اس طرح کا فیصلہ کرکے خود کشی کی جانب گامزن ہیں، اس سے کردوں کی حلق تلفی ہوگی، ان کے مسائل کا حل یہی ہے کہ وہ ہتھیار ڈال کر مذاکرات کی راہ اپنائیں اور نسل و ثقافت کی بنیاد پر آزاد ریاست کا خواب دیکھنا بند کردیں ۔ ترکی میں پیش آئے متعدد دہشت گردانہ حملوں کیلئے ترک حکومت نے اپنے یہاں سرگرم کردوں کی تنظیم پی کے کے کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے ، متعدد طرح کی پابندیاں بھی ترکی کے کردوں پر عائد ہے، ترکی میں یہ تنظیم دہشت گرد مانی جاتی ہے ، عالمی اداروں سے بھی ترکی کا مطالبہ ہے کہ وہ اسے دہشت گرد تنظیم نامزد کرے ، ترک صدر کا الزام ہے کہ پی کے کے کی فنڈنگ امریکہ سے ہوتی ہے اور ترکی کو تباہ و برباد کرنے کیلئے یہ تنظیم قائم کی گئی ہے۔ ایران بھی اس کے خلاف ہے ، امریکہ نے بھی ایک پریس ریلیز جاری کرکے بظاہر اس کی مذمت کی ہے ، اقوام متحدہ کی جانب سے بھی ریفرنڈم کی مذمت کی گئی تھی۔ دوسری جانب اسرائیل اس مسئلے پر خاموش ہے ، بلکہ پس پردہ اس کی حمایت بھی کررہا ہے۔ ترکی کے اخبار روزنامہ صحاب کے مطابق ایران اور ترکی کی خطے میں بڑھتی عسکری طاقت اور ایران کے کامیاب میزائل تجربہ سے اسرائیل خوف زدہ ہے ، پس پردہ آزاد کردستان کا سپورٹ کرکے ایران اور ترکی کی طاقت کو کمزو ر کرنا چاہتا ہے۔ عرب تجزیہ نگاروں کا بھی ماننا ہے کہ خطے میں ایک نئے ملک کا اضافہ سیاسی سطح پر عر ب کیلئے شدید نقصان کا سبب ہوگا، عراق کی حیثیت ختم ہوجائے گی ، ترکی ، ایران ، شام اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک کو شدید تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا خود کردوں کی اپنی یہ مجوزہ آزاد ریاست خانہ جنگی میں تبدیل ہوجائے گی۔

آس نقشہ میں دیکھیں کردوں کے مطلوبہ علاقہ کو

کردستان کے مسئلے پر ترکی ، شام ، عراق ، ایران نے تو کھل کر مخالفت کررہے ہیں کیوں کہ ایک علاحدہ ملک کی تشکیل سے سب سے زیادہ نقصان انہیں ممالک کا ہوگا، ان کی سرحدوں کا دائرہ کم ہوجائے گا لیکن بقیہ ممالک خاموش ہیں، عالمی ادارہ بھی کھل کر کوئی موقف نہیں اپنا رہاہے ، کوئی واضح نظریہ سامنے نہیں آرہا ہے کہ کردوں کے مسائل کا حل کیسے ہوگا ، انہیں آزاد ریاست ملے گی یا نہیں ، اتنا طے ہے کہ آزاد ریاست کی تشکیل سے مسلم ممالک کی ایک اور تقسیم ہوگی ، خانہ جنگی میں اضافہ ہوگا ، امریکہ کی معیشت بہتر ہوگی جبکہ عرب اور مسلم حکمرانوں کی اقتصادی صورت حال خراب ہوگی ۔ صہیونی اور صلیبی ایجنڈے کو فائدہ پہونچائے گا، مشرق وسطی کے جو ممالک اب تک خوشحال ہیں انہیں تباہ کرنے کا ایک اور آسان راستہ مل جائے گا ، امریکہ اور اسرائیل اس تقسیم سے براہ راست مسلم ممالک پر حاوی ہوجائے گا، اسی لئے فرانس کا ماننا ہے کہ کرد ریاست کی تشکیل سے مشرق وسطی جہنم بن جائے گا ، عرب بہاریہ کے نام پر مشرق وسطی میں جو تشدد کی لہر پیدا ہوئی تھی اس کی آنچ مزید تیز ہوجائے گی اور کئی پرامن ملک بھی اس شعلہ کا نوالہ بن جائیں گے ۔
کرد ایک قدیم نسلی گروپ ہے ، زبان ،علاقہ اور ثقافت کی بنیاد پر ان کا اتحاد ہے ، کئی مذاہب اور مسلک کے لوگ اس میں شامل ہیں تاہم اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے ۔ عالم اسلام کے عظیم ہیرو سلطان صلاح الدین ایوبی بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ، بی بی سی کے مطابق ان کی آباد ی 25 سے 35 ملین کے درمیان ہے ، ترکی کے جنوب مشرق حصہ میں ان کی آبادی تقریباً 15 فیصد ہے ۔ شام کے شمال مشرق میں 7 سے دس فیصد آباد ی ہے ۔ عراق کے شمال میں بیس فیصد آبادی ہے۔ اس کے علاوہ ایران کے شمال مغرب اور آرمینیا کے جنوب مغرب میں یہ کرد آباد ہیں ۔ عراق کے جس علاقے میں یہ کرد آزاد ریاست کا مطالبہ کررہے ہیں، وہاں سے تیل کے 20 فیصد ذخائر برآمد ہوتے ہیں ۔ آزادی کی صورت میں کردستان تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کے رکن دس بڑے ممالک میں شامل ہو جائے گا۔

شمالی عرا ق کے کرد لیڈر مسعود البرازانی

طیب اردگان کے ترجمان ڈاکٹر فرقان حمید اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ خلافت عثمانیہ کے زمانے میں کردوں کے اس علاقے کو ’’ کردستان ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور اسے ایک بہت بڑے صوبے کی حیثیت حاصل تھی۔ بی بی سی کے مطابق 1915 اور 1918 میں ترکی کے کردوں نے سلطنت عثمانیہ سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار انہیں کچل دیا گیا، پہلی عالمی جنگ کے بعد جب سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو اس زمانہ کے امریکی صدر وڈرو ولسن نے کردوں سے ان کی آزاد مملکت کے قیام کا وعدہ کیا اور 1920کے معاہدہ سیور میں ایک آزاد کرد مملکت کی تجویز بھی شامل کرلی گئی لیکن برطانیہ فرانس اور ترکی نے اس تجویز کو ناکام بنادیا۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مشرق وسطی میں کئی نئی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں، اس دوران کردوں نے بھی بہت کوششیں کیں لیکن آزاد خود مختار مملکت کے بارے میں کردوں کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ 1960 تا 1975ء تک شمالی عراق میں کردوں نے مصطفیٰ بارزانی ( مسعود بارزانی کے والد) کی قیادت میں جدو جہد کے نتیجے میں خود مختاری حاصل کی لیکن 1991 میں صدر صدام نے اس علاقے پر اپنی مکمل حاکمیت قائم کرتے ہوئے کردوں پر ایسے مظالم ڈھائے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے، اس دوران عراق اور ایران کے درمیان جنگ چھڑ گئی لیکن کردوں کے خلاف کارروائی جاری رہی اور جنگ کے خاتمے پر حکومتِ عراق نے 1988 میں کردوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے انکے خلاف زہریلی گیس کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں کرد مارے گئے۔ ترکی کے شمال مشرق میں عبد اللہ اوکلین نے 1978 میں پی کے کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس نے ترکی میں ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کیا، چند سالوں بعد اس تنظیم نے اپنی ایک آرمی بھی تشکیل دے دی اور ترک کی آئینی حکومت سے تصادم شروع کردیا، اس جنگ کے نتیجے میں اب تک چالیس ہزار سے لوگ قتل کئے جاچکے ہیں ، 2012 میں اردگان حکومت کی کوششوں سے پی کے کے نے جنگ بندی کا معاہدہ کرکے حکومت کے ساتھ پر امن مذاکرات کا آغاز کیا لیکن جولائی 2015 میں کردوں نے یہ معاہدہ ختم کرکے پھر مسلح جنگ شروع کردی ، مذاکرات بند کرنے کی وجہ کردوں نے ایک خود کش بم دھماکہ کو بنایا جس میں کردوں کے 30 ممبران مارے گئے تھے، شام سے متصل ترکی کی سرحد پر یہ دھماکہ ہوا تھا ، حکومت نے اس کیلئے داعش کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا جبکہ پی کے کے کہنا تھا کہ ترکی فوج اور حکومت کی کردوں کے خلاف یہ ایک سازش تھی۔
( کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com