سعودی معاشرہ میں تبدیلی کا رجحان

پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان موجودہ فرماں روا شاہ سلمان کی چھٹے بیٹے ہیں جن کی ولادت 31 اگست 1985 کو تیسری بیوی فہدہ بن فرحان بن سلطان کی آغوش میں ہوئی تھی، 2003 میں کنگ سعود یونیورسیٹی سے انہوں نے لاء میں تعلیم حاصل کی ،اس کے بعد کچھ سالوں کیلئے امریکہ جاکر انہوں نے سیاسی ٹریننگ اور حکومت سازی کی تربیت حاصل کی ، وہاں کے ماہرین سیاست اور پروفیسر حضرات کی نگرانی میں عالمی سیاست کا گہرائی سے مطالعہ کیا ، 2009 میں اپنے وطن لوٹ کر وہ سعودی سیاست میں باضابطہ طور پر شامل ہوگئے ، اپنے والد شاہ سلمان کے خصوصی مشیر کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آئے جب وہ ریاض کے گورنر تھے ،2011 میں ولی عہد سلطان بن عبد العزیز کی وفات کے بعد شاہ سلمان ان کی جگہ ولی عہد منتخب کئے گئے اور وزیر دفاع بھی بنائے گئے ،اسی کے ساتھ محمد بن سلمان کو بھی آگے بڑھنے کا موقع ملنا شروع ہوگیا ، جنوری 2015 میں شاہ عبد اللہ کی وفات کے بعد شاہ سلمان خادم الحرمین الشریفین بنے اور محمد بن سلمان کو پوری آزادی کے ساتھ حکومت میں موثر ہونے کا موقع ملتا گیا، وزرات دفاع انہیں سونپی گئی ،نائب وزیر اعظم کا منصب ان کے حوالے کیا گیا اور پھر جون 2017 میں ولی عہد محمد بن نایف کو برطرف کرکے ان کی جگہ محمد بن سلمان کو ولی عہد بناکر سعودی عرب کا مستقبل اس 31 سالہ نوجوان کے ہاتھوں میں سونپ دیا گیا ۔
محمد بن سلمان اس وقت سعودی حکومت میں نمبر دو کی حیثیت رکھتے ہیں، جبکہ حقیقی معنوں میں تمام اختیارات انہیں کے پاس ہیں، شاہ سلمان برائے نام اور کاغذ پر خادم الحرمین الشریفن ہیں ، خارجہ، داخلہ ،معاشی ،تعلیمی سمیت تمام طرح کی پالیسیاں محمدبن سلمان ہی طے کررہے ہیں،31 سالہ محمد بن سلمان دنیا کے سب سے نوجوان وزیر دفاع ہیں ،شاہ سلمان کے بعد وہ سعودی حکومت کے تاریخ میں سب سے کم عمر بادشاہ بن جائیں گے ، عالمی سیاست میں انہیں سعودی عرب کے ایک کامیاب بادشاہ کی حیثیت سے دیکھا جارہا ہے ،عالمی میڈیا کی بھی ان پر بھر پور توجہ ہے ، ماسکو ،واشنگٹن اور بیجنگ میں شاہ سلمان کی نمائندگی کرنے پر دنیا بھر میں ابھی اسے انہیں ایک نمایاں شناخت مل چکی ہے۔
محمد بن سلمان کی آمد کو سعودی میں ایک انقلاب کی حیثیت سے دیکھا جارہا ہے ،انہیں ایم بی ایس کے نام سے جانا جاتا ہے ، داخلہ ،خارجہ اور معاشی پالیسی سعودی کی یکایک بدل چکی ہے ،محمد بن سلمان سعودی معاش کو پٹرول اور قدرتی ذخائر پر محدود کرنے کے بجائے اس کو وسیع کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں، اس مقصد کے پیش نظر انہوں نے 2016 میں وزن 2030 کی بنیاد رکھی تھی جس کا مقصد سعودی معیشت کو فروغ دینا اور قدرتی ذخائز سے آزاد بنانا ہے۔
محمد بن سلمان کی سب سے زیادہ توجہ اسلامی معاشرہ کی تجدید ، مشرقی معاشرہ سے قریب کرنے اور اسلام پر لگے انتہاء پسندی کے داغ کو ختم کرنے کی ہے ،سعودی عرب دنیا کے ان چند ممالک میں سرفہرست ہے جہاں کا آئین اور قانونی اسلامی کہلاتاہے تاہم اب مکمل طور پر اسے بدلنے اور مغربی افکار و نظریات ہم آہنگ کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں ، کچھ دنوں سے مسلسل یکے بعد دیگرے ایسے فیصلے لئے جارہے ہیں ،معاشرہ ،تعلیمی نظام ،سماجی امور اور دیگر سبھی چیزوں کو بدلا جارہاہے ۔
سماجی تبدیلی کے اہم فیصلوں میں قابل ذکر سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنا ہے ،اس فیصلے کی گونج دنیا بھر میں اب تک سنائی دے رہی ہے ،دنیا بھر کی شوبز خواتین نے اس فیصلے کو سراہا، خواتین کی آزادی سے تعبیر کیا ،ہندوستان کے ایک اہم علمی خانوادہ سے تعلق رکھنے والی محترمہ عظمی ناہید نے بھی راقم الحروف سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ڈرائیونگ اب ذاتی ضرورت بن گئی ہے اور اس اعتبار سے یہ دیر آید درست آید فیصلہ ہے ، سعودی عرب کے اس فیصلہ سے سعودی معیشت کو بھی فائدہ ہوگا ،ایسے ہزاروں ہندوستانی اور پاکستانی کوبھی اپنے وطن واپس لوٹنا ہوگا جو وہاں خواتین کی کار ڈرائیونگ کے کاموں پر مامور ہیں ، خواتین کی آزادی کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے انہیں نیشنل ڈے کے پروگرام اور کھیل اسٹڈیم میں جانے کی بھی اجازت مل گئی ہے ،2018 سے اب خواتین میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی وہاں نظر آئیں گی، ممکن ہے آئندہ دنوں میں خواتین پر عائد دیگر پابندیاں بھی ختم کردی جائیں گی جن میں تنہا بیرون ملک جانا، حجاب وغیرہ شامل ہیں ۔

محمد بن سلمان سعودی عرب میں جدید اسلام لانے کے منصوبہ پر بہت تیزی کے ساتھ عمل پیرا ہیں، وہاں کے مذہبی نصاب کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کا عمل شروع ہوگیا ہے ، ایم بی ایس کا مانناہے کہ ابھی سعودی عرب میں جو اسلام ہے وہ انتہاء پسندی پر مبنی ہے، اس تعلیم سے اسلام کو شدید نقصان پہونچا ہے اور دنیا بھر میں سعودی عرب کی شبیہ خراب ہوئی ،ترمیم ، تجدید اور تبدیلی کا یہ سلسلہ احادیث رسول تک پہونچ گیا ہے ، اب وہاں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی از سر نو تدوین ہوگی ۔

اس تبدیلی کے فیصلے سے دنیا بھر میں خوشگوار ہلچل مچی ہوئی ہے ،عالمی میڈیا میں اسے خوصی اہمیت کے ساتھ کوریج دیاگیا ہے ،اس اندازسے تجزیہ اور تبصرہ کیا جارہاہے جیسے ستمبر 2017 میں سعودی خواتین کو 1400 سے غلامی سے آزادی مل گئی ہے ،گذشتہ دنوں بی بی سی کے ایک پروگرام میں اینکر ساریکا سنگھ نے سعودی عرب میں مقیم ایک غیر مسلم لڑکی کو تبصرہ کرنے کیلئے مدعو کر رکھا تھا، اینکر کو امید تھی کہ وہ سعودی ثقافت پر تنقید کریں گی ، حجاب اور دیگر ایشوز خواتین کی غلامی سے تعبیر کریں گی لیکن سعودی میں بچپن سے مقیم اس لڑکی کا تبصرہ خلاف توقع تھا ، مہمان تبصرہ نگار نے بہت کشادہ دلی کے ساتھ کہاکہ سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ہم لڑکیاں خود کو محفوظ سمجھتی ہیں، کبھی بھی اور کہیں بھی وہاں کی سرحد میں قتل، ریپ اور اس طرح کے کرائم کا کوئی اندیشہ اور خطرہ نہیں رہتاہے ۔ ان اقدامات کا خیر مقدم اور اس کی سراہنا وہاں کے مذہبی رہنما اور سپریم علماء کونسل نے بھی کی ہے ،ان امور کو اسلام کے متصادم کہنے کے بجائے ضرورت سے تعبیر کیا گیا ہے، تاہم ان کے سب ساتھ اب تک یہ سوال گردش کررہاہے کہ اگر بات صرف اتنی سی تھی تو اب تک کیوں پابندی عائد تھی ، خواتین کے اس مطالبے کی تکمیل کیوں نہیں کی جارہی تھی ،1990 کی دہائی سے خواتین ڈرائیونگ کا مطالبہ کررہی تھیں ،کئی ایک خاتون کو سزا تک دی گئی ۔
محمد بن سلمان سعودی عرب میں جدید اسلام لانے کے منصوبہ پر بہت تیزی کے ساتھ عمل پیرا ہیں، وہاں کے مذہبی نصاب کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کا عمل شروع ہوگیا ہے ، ایم بی ایس کا مانناہے کہ ابھی سعودی عرب میں جو اسلام ہے وہ انتہاء پسندی پر مبنی ہے، اس تعلیم سے اسلام کو شدید نقصان پہونچا ہے اور دنیا بھر میں سعودی عرب کی شبیہ خراب ہوئی ،ترمیم ، تجدید اور تبدیلی کا یہ سلسلہ احادیث رسول تک پہونچ گیا ہے ، اب وہاں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی از سر نو تدوین ہوگی ۔ عرب نیوز اور رائٹر کی رپوٹس کے مطابق سعودی حکومت نے علماء و دانشوران پر مشتمل ایک کمیٹی کی تشکیل دی ہے جو احادیث رسول کا از سر نوجائزہ لے گی ، محمد بن حسن الشیخ کو اس کا چیرمین بنایا گیا ہے۔
احادیثِ رسول کا جائزہ کس طرح لیا جائے گا ،کس بنیاد پر لیا جائے گا، اس کی اب تک تفصیل نہیں آسکی ہے ، کیا بخاری و مسلم اور صحاح ستہ کی بھی از سر نو تدوین ہوگی ، قرآن کریم کے بعد بخاری شریف کے اصح الکتب ہونے ،مسلم شریف ،ابوداﺅد شریف ،ترمذی شریف ،نسائی ابن ماجہ جیسی کتابوں پر صدیوں سے امت مسلمہ کا جو اتفاق چلا آرہا ہے اس سے بھی چھیڑ چھاڑ کیا جائے گا اور ہاں سے بھی احادیث کو نکالا جائے گا ،یہ باتیں تشویش طلب اور علماء کے لئے قابل غور بھی ہے۔ یہ بھی سوال ہے کہ جو اسلام چودہ سو سال سے چلا آرہا ہے ،جس نے پور ی دنیا کو انسانیت کی تعلیم دی ہے ، جس قرآن و حدیث میں امن وسلامتی کا درس دیا گیا ہے ، جس کتاب سے تحریک پاکر اسلامی افواج نے دنیا کی عظیم طاقتوں کو شکست دی تھی ،وہ آج انتہاء پسندی پر مشتمل ہوگیا ہے یا مشترقین کے اعتراضا ت کا جواب دینے اور دفاع کرنے کے بجائے خود اسلامی تعلیمات کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے ۔
قرآن کریم ، احادیث رسول اور اسلامی افکار و نظریات کو شروع سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، مغرب نے ہمیشہ اسلام پر انتہاء پسندی کا الزام عائد کیا ہے جس کا علماء نے مضبوطی کے ساتھ تعاقب کیا ، ایسے اعتراضات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہزاروں کتابیں تصنیف کرکے اسلام کی حقانیت ثابت کی دوسری جانب مسلم حکمرانوں نے کبھی اس پر خاص توجہ نہیں دی ،انہوں نے اپنی شکست اور ناکامی کا سہرا اسلام پر نہیں ڈالا ،کسی اور طاقت سے مرعوب ہوکر اپنا مذہبی نصاب انہوں نے تبدیل نہیں کیا اور جس کسی نے کوشش کی تو اس دور کے علماء نے کامیاب نہیں ہونے دیا ۔ عالم اسلام کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے جب کسی حکومت نے مغرب کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہوئے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ اسلام انتہاء پسندی پر مبنی ہے ، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا نظام فرسودہ ہوچکا ہے ، حکومت وریاست کی ترقی میں اسلامی تعلیمات رکاوٹ بن رہے ہیں اور اس کی تلافی کیلئے سرکاری مشنری کا استعمال کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی از سر  نو تدوین شروع کردی گئی ہے ۔ امریکی اسکالر کی مدد سے نصاب مرتب کیا جارہا ہے ، قابل تعجب امر یہ ہے کہ سعودی عرب کے سرکاری علماء ایسے تمام اقدامات کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں اور جو اس کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں انہیں جیل کی سلاخوں میں بند کیا جارہا ہے ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں