پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
مجھے دوبارہ ہندو بننے پر مجبور کیا گیا ،میرے رشتہ داروں نے سینکڑوں مرتبہ میرے سامنے اسلام کی برائیاں بیان کی ، ظلم وستم اور ناقابلِ یقین دسیوں واقعات سنائے ، والدین نے پاگل تک کہا، تفریح اور زندگی کی تمام آسائشوں سے محروم کردیا، گیارہ ماہ تک مسلسل مجھے ہراساں کیا گیا، پنڈٹوں کو بلاکر میرے سامنے سناتن دھرم کی تبلیغ کروائی گئی، پریس کانفرنس کرکے مذہب اسلام کو چھوڑ دینے کا اعلان کرنے کیلئے مجھ پر شدید دباﺅ ڈالا گیا، لیکن ہر مرتبہ میرا جواب یہی تھا کہ اسلام ایک سچا اور حقیقی مذہب ہے، میں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے، کسی کا کوئی دباﺅ نہیں تھا، اس مذہب سے وابستگی اختیار کرنے کے بعد میرے دل کو سکون نصیب ہوا ہے۔
یہ جملے نو مسلم خاتون ڈاکٹر ہادیہ کے ہیں جس کے باپ ریٹائرڈ آرمی آفیسر ہونے کے ساتھ کیرالا آر ایس ایس یونٹ کے ذمہ داروں میں سے ایک ہیں، ہادیہ کا تعلق کیرلا کے ضلع کوٹیا مان کے ٹی وی پورم گاﺅں سے ہے، ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرلینے کے بعد ہادیہ نے سلیم میں واقع شیوراج ہومیو پیتھی میڈیکل کالج اینڈ ریسریچ انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیا، ہادیہ کے کلاس میٹ کی تعداد کل پچیس تھی جن میں سے دیویا، ارچنا راجن، دلنا اور جسینہ ابوبکر کیرا کی رہنے والی تھیں، ہم صوبہ ہونے کی وجہ سے ہادیہ ان کے ساتھ ہی رہنے لگیں، بعد میں جسینہ کی چھوٹی بہن فسینہ بھی ان کی ٹیم میں شریک ہوگئیں ، کچھ دنوں بعد ان سب نے ہاسٹل چھوڑ کر باہر ایک کیمرہ کرایہ پر لیکر ساتھ رہنا شروع کردیا، ہادیہ جو اس وقت اکھیلا کے نام سے جانی جاتی تھیں اسے پہلی مرتبہ مسلمان دوستوں کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا ، فسینہ اور جسینہ پنج وقتہ نماز کی پابند تھیں اور ہادیہ اس کے عمل سے دن بدن متأثر ہوتی جارہی تھیں، بالآخر اس نے ملیالم میں قرآن حاصل کرکے اس کا مطالعہ کرنا شروع کردیا، اس کے بعد وہ فیس بک پر بھی قرآن کی آیتوں کا خلاصہ پوسٹ کرنے لگی اور کہنے لگی کہ ملحد ہونے سے بہتر ہے اسلام جیسے مذہب کو اپنالینا، فسینہ بتاتی ہے کہ وہ اپنی ماں سے بھی یہ تمام باتیں شیئر کرتی تھیں۔ اکھیلا کی دلچسپی بڑھتی گئی ، کورس پر توجہ کم اور حصول اسلام پر زیادہ ہوگئی ، اسلامی تقریریں ڈاﺅن لوڈ کرکے سننے لگی ، اس دوران اس نے اسلام کے بارے میں مشکل سوال بھی کرنا شرو ع کردیا جس کا جواب دینا فسینہ کیلئے ممکن نہیں ہوپارہا تھا اس لئے اس نے اپنے والد پرائیل ابوبکر سے ملاقات کرائی۔
انڈین ایکسپریس کی رپوٹ کے مطابق 2011 کے رمضان میں ہادیہ اپنے گھر پر چھٹیاں گزار رہی تھی جس میں اس کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا گیا ، رمضان کے بعد عید الفطر منانے کیلئے اکھیلا مالاپورم میں اپنے دوسرے ہندو دوستوں کے ساتھ جسینہ کے گھر آگئیں اور وہاں نے اس پہلی مرتبہ اسلام کو اپنانے کی پیش کش کی ، کئی سال گزرنے کے بعد 10ستمبر 2015 کو کوچی پہونچ اکھیلا نے اپنے مسلمان ہونے کی ایک وکیل سے سرٹفیکٹ حاصل کی اور عائشہ نام رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ اکھیلا کے مسلمان ہونے کا راز نومبر میں اہل خانہ پر عیاں ہوا جب اس نے اپنے دادا کی وفات کے بعد ہندو رواج کے مطابق 40 روزہ سوگ میں شرکت کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ میں ایک مسلمان ہوں اور میرا مذہب اس طرح کے شرکیہ اعمال کی اجازت نہیں دیتا۔ جنوری 2016 میں ہادیہ نے اپنا گھر چھوڑ دیا ، مالاپورم پہونچ کر اس نے ابوبکر کے گھر میں پناہ لی پھر کالج چلی گئی ، اسی دوران اس نے ایک وکیل سے ایک اور سرٹفیکٹ حاصل کرلی جس میں وضاحت تھی کہ میں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔ 6 جنوری 2016 کو جب اکھیلا (ہادیہ) دوبارہ کالج پہونچی تو اس کا انداز بدلا ہوا تھا، وہ اسکارف کا استعمال کررہی تھی، نمازوں کی پابند بن چکی تھی ، ساتھ گھر جانے سے بھی وہ انکار کررہی تھی، ابوبکر کے گھر آنا جانا کررہی تھی ، ابوبکر یہ سب دیکھ کر خوف زدہ ہوگئے ، انہوں نے ہادیہ کے پاپ اشوکن کو ان تمام صورت حال سے آگا ہ کیا اور بتایاکہ وہ مسلمان ہونا چاہتی ہے، اشوکن نے کہاکہ میں آپ کے گھر اس کو لینے آﺅں گا ۔ اس دوران اکھیلا کو ساتھیا سرانی میں پناہ مل گئی ، یہ ایک دارالہجرت ہے جہاں نو مسلموں کو دو ماہ کی پناہ دی جاتی ہے ، وہاں دو ماہ رہنے کے بعد اکھیلا نے نیشنل وویمن فرنٹ کی صدر ایس اے زینبا کے گھر رہنا شروع کردیا ، وہاں جانے کے بعد اس کا نام ہادیہ ہوگیا ، ہادیہ کے باپ نے مقدمہ کردیا ، معاملہ ہائی کورٹ تک پہونچا، ہادیہ کے ساتھ زینبا کو بھی عدلیہ میں پیش ہونا پڑا ، ہائی کورٹ نے زینبا کو حکم دیا کہ وہ فی الحال ہادیہ کو اپنے گھر پر ہی رکھے۔
ڈاکٹر ہادیہ کے قبول اسلام کی یہ کہانی ہے جسے انڈین ایکسپریس اور کیرلا کے کئی معتبر اخبار نے لکھا ہے، کیرا اور چننئی کے سفر کے دوران یہاں کے لوگوں نے بھی اسی طرح کا معاملہ بتایا۔
اس پوری اسٹوری میں کہیں بھی لوجہاد کا کوئی عنصر نہیں ہے ،2011 سے لیکر 2016 کے شروع تک شفیع جہاں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے اور یہی وہ مدت ہے جس میں ہادیہ اسلام سے متاثر ہونا شروع ہوتی ہے اور پھر 2015 میں کھلے عام اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کردیتی ہے ، ستمبر میں کالی کٹ میں ایس اے زینبا سے میری تفصیلی ملاقات ہوئی تھی اس موقع پر انہوں نے بتایا تھا کہ ہادیہ نے مکمل طور پر اپنی مرضی سے اسلام قبول کیاہے ، کسی سے محبت ، لو جہاد اور دباﺅ جیسی کوئی چیز اس کے اسلام میں نہیں ہے ۔ اس کا ایمان انتہائی پختہ اور قیمتی ہے ۔
نومبر 2016 میں ہادیہ شادی کا منصوبہ بناتی ہے اور وہ اپنی سی وی ایک شادی کی ویب سائٹ پر ڈال دیتی ہے ، اسی سائٹ پر 2015 میں ہی شفیع جہاں اپنی سی وی ڈال چکا ہوتا ہے ، نومبر 2016 میں شفیع جہاں مسقط سے دو ماہ کی چھٹیاں گزرانے اپنے گھر آتا ہے ، اس دوران کا اس منصوبہ رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کا بھی ہوتاہے ، شفیع جہاں کے ساتھی سرانی سے تعلق ہونے کی وجہ سے محترمہ زینبا سے ملاقات ہوتی ہے اور پھر ایس اے زینبا ہادیہ اور شفیع جہاں کے درمیان رشتہ طے کردیتی ہیں، یہ دونوں خوشی بخوشی قبول کرلیتے ہیں اور انہیں کے گھر کے پاس ایک مسجد میں19دسمبر 2016 کو ان دونوں کا نکاح عمل میں آتا ہے ۔
دوسری جانب ہادیہ کا باپ بھی چین سے نہیں بیٹھتا ہے ،وہ ہادیہ کو مذہب اسلام سے برگشتہ کرنے کیلئے ہر طرح کے ہتکھنڈے اپناتا ہے، شادی کے دو دن بعد 21 دسمبر کو ہادیہ شفیع جہاں کے ساتھ عدالت پہونچتی ہے جہاں سے اسی مایوسی ملتی ہے، ہائی کورٹ سے اسے کالج جانے کو کہا جاتا ہے جبکہ شفیع جہاں کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ ہادیہ سے کسی طرح کا رابطہ نہ رکھے ،پھر 24 مئی 2017 کو کیرالا ہائی کورٹ اس شادی کو ختم کرنے کا فیصلہ سنا دیتی ہے ، شفیع جہاں نے حوصلہ سے کام لیتے ہوئے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرکے کیرالا ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا جس کے بعد سپریم کورٹ نے این آئی اے کی تحقیق کا حکم دیا، این آئی اے کی رپوٹ میں یہ صراحت ہوچکی ہے کہ ہادیہ کے قبول اسلام میں لوجہاد جیسا کوئی معاملہ نہیں ہے البتہ شفیع جہاں کو داعش سے تعلق رکھنے کے الزام میں پھنسانے کی پوری کوشش ہورہی ہے، کیرالا کی ریاستی حکومت بھی اس معاملے میں تحقیق کراچکی ہے جس میں اسے ہادیہ اور شفیع جہاں میں سے کسی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں، شفیع جہاں کا دعوی ہے کہ اس نے شادی میں ہادیہ کے باپ کو بھی مدعو کیا تھا لیکن انہوں نے شرکت نہیں کی ، یہ شادی ارینج میریج تھی، علاقے کی مسجد میں ہوئی تھی جہاں پچاس سے زائد لوگ تھے ، پنچایت سے میرج سرٹفیکٹ بھی انہوں نے بنوائی اور ایس پی کی رپوٹ میں بھی ان دونوں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا ۔کرائم برانچ کی رپوٹ میں بھی کلین چٹ ملی ۔
مئی 2017 میں ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد ہادیہ کو چھ ماہ تک نظر بند رکھا گیا ،ہراساں کیا گیا ،اسے شوہر سے نہ ملنے اور نہ ہی گفتگو کرنے دیا گیا ، میڈیا کے سامنے آنے کی اجازت نہیں ملی ، موبائل ،ٹی وی اور اس طرح کی تمام چیزوں سے دور رکھا گیا ، اس کا مذہب تبدیل کرانے کی کوشش کی گئی، پنڈٹوں کو بلایا گیا ، پریس کانفرنس کر کے اسلام چھوڑنے کے اعلان کرنے کا دباﺅ بنایا گیا لیکن ہادیہ نے ایسا کچھ نہیں کیا ، ایمان پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہی ، مشکلات حالات میں بھی اس کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی ، 27 نومبر کو سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ہادیہ نے ایک مرتبہ پھر واضح لفظوں میں کہاہے کہ” اسلام میں نے اپنی مرضی سے قبول کیا ہے، مجھے آزادی چاہیئے، بنیادی حقوق مجھے ملنے چاہیئے ،میں اپنے شوہر سے ملنا چاہتی ہوں “سپریم کورٹ نے ہادیہ کی شادی پر کوئی سوال نہیں کیا ،اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور بظاہر آزادی دیتے ہوئے ہادیہ کو والدین کے سپر کرنے کے بجائے سلیم کالج میں تعلیم جاری رکھنے کیلئے بھیج دیاہے، ہادیہ نے بارہا اپنے شوہر شفیع جہاں سے ملنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا لیکن سپریم کورٹ نے اجازت دینے سے انکار کردیا، ان کے شوہر کو ان کا گارجین بھی تسلیم نہیں کیا اور کہاکہ شوہر اپنی وائف کا گارجین نہیں ہوسکتا ہے ۔سپریم کورٹ نے این آئی اے کو تحقیقات جاری رکھنے کا بھی حکم دیا ہے، یہ تمام اشارات بتاتے ہیں کہ ہادیہ کی شادی پر لٹکنی والی تلوار ابھی بھی باقی ہے اور اب دوسرے راستے سے ان دونوں کو جدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔
سپریم کورٹ نے ہادیہ کی شادی پر سوال نہیں کیا نہ ہی اس کے مسلمان ہونے پر ، ساتھ ہی شفیع جہاں کو اس کا شوہر بھی تسلیم کیا گیا لیکن ملنے سے رو ک دیاگیا اور گارجین شپ کا بھی حق نہیں دیا گیا جبکہ اسی عدالت کا فیصلہ ہے کہ دو مخالف جنس کے لوگ اپنی مرضی سے مل سکتے ہیں، برسبیل تذکرہ ایک غیر مسلم کا کمنٹ جو دی ہندو کی سائٹ پر تھا یہاں پیش کرنا مناسب ہوگا کہ اگر دو لوگوں کا اپنی مرضی سے ایک ساتھ رہنا جرم ہے تو پھر سب سے پہلے سپریم کورٹ کے خلاف مقدمہ درج ہو نا چاہیئے کیوں کہ اسی نے ہمیں ایک ساتھ رہنے کا حکم دیا ہے “۔
این آئی اے کی تحقیق کار خ کا اب شفیع جہاں کی جانب زیادہ ہوگیا ہے ،اس پر داعش سے تعلق رکھنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے ،اس کے خلاف چار کریمنل مقدمات بھی درج ہوچکے ہیں ، دوسری جانب شفیع جہاں کا مانناہے کہ وہ بے قصور ہے ، شفیع کے دوست عبد الباسط نے اس بارے میں راقم الحروف کو بتایا کہ در اصل شفیع پڑھنے کے زمانے میں پی ایف آئی سے وابستہ تھا اور اس کا فیس بک پیج بھی ہینڈل کرتا تھا، پیج کے لائک ممبران میں سے ایک پر داعش سے تعلق رکھنے کا الزام تھا، جیسے ہی پیج ایڈمن کو پتہ چلا اسے بلاک کردیا لیکن اسی بناپر شفیع جہاں کو بھی اس میں گھسیٹ دیا گیا اور اس کے خلاف چارج شیٹ دائر کردی گئی ۔ شفیع کے دوستوں کے بقول آر ایس ایس نے ہادیہ کے اسلام کو انا کا مسئلہ بنالیا ہے ،ہادیہ کے فولادی عزم وحوصلہ کے سامنے جب آر ایس ایس کے لوگ بے بس ہوچکے ہیں تو اب ان کی کوشش ہادیہ اور شفیع جہاں کے درمیان جدائیگی پیدا کرنے کی ہے اور اسی لئے شفیع کو دہشت گرد بناکر پیش کرنے کی کوشش ہور ہی ہے ۔
کالج جانے کے بعد 29 نومبر کو فون پر ہادیہ کی شفیع سے بات چیت ہوئی ہے ، خبروں کے مطابق ہادیہ اب کچھ سکون محسوس کررہی ہے ،میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ہادیہ نے یہ واضح کیا ہے ابھی بھی اسے آزادی نہیں ملی ہے ، وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکار ہے ، بنیادی حقوق سے اسے محروم رکھا جارہا ہے ، ابھی بھی اسے موبائل کرنے کی اجازت نہیں ملی ہے، شوہر سے براہ راست ملنے پر پابندی عائد ہے ۔ ہادیہ کے اس کیس میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں ہوئی ہیں ، بطور ایک خاتون کے اس کو کئی طرح کی اذیتوں سے دو چار کیا گیاہے ، بنیادی حقوق سے مکمل طو رپر محروم رکھا گیا ہے ، آئین ہند میں دیئے گئے حقوق و اختیارات کا اس کے سلسلے میں کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا گیا ہے ، افسوس کی بات یہ ہے کہ حقوق نسواں اور فیمنزم کی بات کرنے والی وہ تمام خواتین آج منظر نامہ سے غائب ہیں جو ٹی وی چینلوں پر آکر زور زور سے طلاق کے معاملے پر مسلم خواتین کے حقوق کی پامالی کی باتیں کرتی ہیں ۔
ڈاکٹر ہادیہ کے عز م و حوصلے کو ہم سلام کرتے ہیں ،جو مشکلات کا سامنا کرکے ، تشدد برداشت کرکے اسلام پر قائم ہے، کسی بھی طرح کا اس کی زبان پر کوئی شکوہ نہیں ہے ، اپنے باپ ، رشتہ دار ، ہندو مذہبی رہنما ،پولس افسران ، خفیہ ایجنسیاں، ہائی کورٹ اور اب سپریم کورٹ میں اسلام پر قائم رہنے کیلئے جنگ لڑرہی ہے اور ہر جگہ ببانگ دہل یہ اعلان کر رہی ہے کہ اسلام ہماری چوائس ہے ، اپنی مرضی سے ہم نے اسلام قبول کیا ہے، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کی زبان میں وہ آج کی ام کلثوم ہے جو ہر ظلم کا مقابلہ کرکے اسلام پر قائم و دائم رہنا اپنی عظیم کامیابی سمجھتی ہے ۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)