مولانا وحید الزماں قاسمی فن خطاطی کے بے تاج بادشاہ

شمس تبریز قاسمی

فن خطاطی مسلمانوں کے عظمتِ رفتہ کی روشن مثال مانی جاتی ہے، اسلامی تہذیب کی جمالیاتی روح دو فنون میں بذریعہ اتم ظاہر ہوتی ہے جن میں خطاطی اور فنِ تعمیر شامل ہے ، قرآن کریم کی نازل ہونے والی پہلی آیت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رب کے نام سے پڑھنے کا حکم دیا گیا جس نے قلم کے ذریعے پڑھایا۔ یا علم دیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ قلم جوآلہ تحریر و کتابت ہے اسے اسلام میں بے پناہ اہمیت حاصل ہے، اس کی اسلام کے نظامِ علامات میں بے حد گہری اور رمزیاتی معنویت ہے ۔


فن خطاطی کی تاریخ پانچ ہزار سالہ قدیم ہے ، ابتدائی شکل و صورت کے شواہد جواب تک فراہم ہو سکے ہیں ان کے مطابق اس فن کی پیشانی پر پانچ ہزار سالہ تاریخ کی عبارتوں میں یہ شواہد منقوش ہیں۔ ابتدا میں خطاطی اور مصوری ایک ہی فن تھا ، لوگ تصاویر کے ذریعے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرتے تھے جیسے پیار و امن کا اظہار کبوتر کی تصویر سے ہوتا ہے اور دشمن کا سانپ کی تصویر سے آج بھی یہ دونوں محبت و دشمنی کی علامت سمجھے جاتے ہیں ۔ مفہوم کی یہ تصویر کشی جسے مصر میں ہیرو غلیفی کہتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل تک رائج تھی، رفتہ رفتہ یہ تصویر یں بگڑنے لگیں لیکن ایک نیا طرز تحریر بننے لگا جسے ھیر وطیقی کہا جاتا ہے ۔مصریوں نے بائیس حروف کو بائیس پرزوں کی شکل دے رکھی تھی ۔ عربوں نے انہیں بڑھا کر اٹھا ئیس کر دیا اور پھر ان حروف کو چھ کلموں میں تقسیم کرکے ابجد مرتب کیا جو آج تک عربی میں اسی طرح موجود ہیں۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت خط حمیری تحریر کیا جاتا تھا دو سو سال کی ارتقاء کے بعد یہ خط کوفی بن گیا عہد عباسی میں ابن مقلہ بیضاوی نے خط کوفی نسخ ۔ محقق ۔ ریحان ۔ ثلث ۔توقیع وضع کئے اور پھر فارس میں نسخ و تعلیق کی وضع ہوئی۔


دنیا کے تحریری فنون میں مسلمانوں کی خدمات غیر معمولی اور نوعِ بشر کی وراثتِ خط میں مسلمانوں کا اضافہ بے شمار اور بے پایاں ہے ، دورِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، پھر خلیفۃ المسلمین حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروقِ اعظمؓ، حضرت عثمانِ غنیؓ اور حضرت علی ابنِ ابی طالبؓ کے ادوار میں قرآن پاک کی تحریر کو فروغ حاصل ہوا۔ قرآنی الفاظ کو خوبصورت سے خوبصورت کر کے لکھنے پر زور دیا گیا مذکورہ خلفاء نے بچوں اور بڑوں میں خطاطی کی تعلیم کو لازمی قرار دیا۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلا سکہ جس پر خطاطی سے الفاظ کندہ تھے وہ بھی حضرت علی ابن ابی طالبؓ کے دور میں ڈھالا گیا جس پر 40 ہجری درج تھا۔ اُمیہ خلیفہ عبدالمالک نے بھی مزید ترقی دیتے ہوئے خطاطی کو فروغ دیا۔ ابن الندیم کے مطابق پہلا عربی متن جو مکہ والوں کی طرف سے لکھا جاتا تھا طرزِ تحریر کے لحاظ سے خطِ نبطی کہلاتا تھا مگر عرفِ عام میں مکی خط اور مدینہ پاک میں لکھی جانے والی تحریر کو مدنی اور تیسرا بصرہ میں لکھا جانے والا خط اور چوتھا عربی طرزِ تحریر کوفی تھا۔ شروع میں کوفی خط بغیر نقطوں کے اور بغیر اعراب کے تھا پھر جس طرح ارتقائی مراحل طے ہوئے تو اسلامی خطاطی کو مزید حسنِ تحریر کے ساتھ لکھا جانے لگا۔ اس کے بعد غیر عرب لوگوں کے پڑھنے ، سمجھنے اور بولنے کی غرض سے نقطے اور اعراب لگائے گئے۔ اُمیہ دور میں ہی ایک اہم شخصیت کتبہ نے خطاطی کے حروف کو حسین و جمیل بنانے کے لئے جلی و تومان کو رواج دیا پھر عباسیوں کے دور 750سے 1258ء تک کئی خطاط پیدا ہوئے ان میں قابلِ ذکر ابن مقلہ بیضاوی ہیں جنہوں نے نہ صرف خطِ نسخ کو نیا طرز دیا بلکہ کئی اور خط بھی ایجاد کیا جن میں توقیع، ثلث، محقق، ریحان، اور خطِ رقعہ بھی شامل ہیں ان کے مکمل قواعد و ضوابط مرتب کیا تاکہ ہر طرزِ تحریر کو کن اُصولوں کے مطابق لکھا جائے۔


اس کے بعد یعقوب مستعصمی نے 1298ء میں خطِ تعلیق ایجاد کیا جو کہ پہلے سے موجود خط رقعہ اور توقیع کے ملاپ سے معرضِ وجود میں آیا۔ پھر خطِ کوفی کے بھی کئی نمونے یا طرز ہائے تحریر وضع کئے گئے۔ خطِ کوفی مغربی کا انداز الگ اختیار کیا گیا۔ اس کے بعد سولہویں صدی عیسوی میں میر علی تبریزی نے تیموری دور میں خطِ نستعلیق ایجاد کیا جو خطِ نسخ اور تعلیق کے امتزاج سے لکھا گیا اس ایجاد پر انہیں سرکار کی طرف سے ماڈل آف کیلی گرافی کا بڑا اعزاز دیا گیا۔ 712 عیسوی میں محمد بن قاسم جب برصغیر آیا تو عربی زبان و ادب اور عربی خطاطی کو خوب فروغ حاصل ہوا۔ لوگوں میں آہستہ آہستہ فنی شعور فہمی کا ادراک ہوا خطاطی کو بڑی پذیرائی ملی اب عالم عرب اور مشروق کے ساتھ ہندوستان و پاکستان اور دیگر ملکوں میں یہ فن ثقافتی شناخت کے حوالہ سے ایک اہم فنی اور ثقافتی درجہ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
خطاطی کی چمک دمک، اس میں لکھے گئے لفظوں کی جلوہ آرائی اور اساتذۂ فن کی تخلیقی صلاحیتوں کا طمطراق فقط مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں کے وجدان کو بھی اپنے جلوؤں سے مسرور و معمور کرتا ہے۔ میڈل کرسچل کنگ نے اپنی عدالت کے در و دیوار، فرنیچر اور محل کی تعمیراتی محرابوں کو عربی خطاطی سے مزین کئے ہوا تھا۔ مغلیہ دور کی اکثر عمارات اور خاص طور پر ساتواں عجوبہ تاج محل آگرہ، قطب مینار دہلی ، جامع مسجد دہلی، لاہور میں مزار قطب الدین ایبک اور اس دور کی تقریباً سبھی تعمیر آج بھی فنِ خطاطی کی جلوہ آرائی کی بدولت تر و تازہ ہے اور حُسنِ نظارا کا منبع و مرکز ہے۔
اب فن خطاطی صرف لکھنے کا عمل نہیں رہا بلکہ فنونِ لطیفہ کی ایک اہم صنف کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اب اس کے نقوش جریدۂ عالم پر نہ صرف ثبت ہو چکے ہیں بلکہ دوام حاصل کر چکے ہیں اور اب اس فن پر بین الاقوامی سطح کے مقابلے ہوتے ہیں اور خطاط صاحبان میں ان کی فنی خدمات پر گرانقدر انعامات تقسیم کئے جاتے ہیں، حالیہ زمانہ خطاطی کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے کمیپویٹر کی چکا چوند میں آکر لوگوں نے اس فن کو سیکھنا چھوڑ دیا ہے ، ہندوستان و پاکستان میں بھی یہ فن اپنے عروج پر تھا لیکن ان دنوں یہاں بھی یہ فن زوال پذیر ہے، تاہم خلیجی ممالک کسی حدتک لوگوں کا شوق اس سے وابستہ ہے اور وہاں خطاطی کو اہمیت حاصل ہے ۔
ہندوستان کی سزمین سے پیدا ہونے والے خطاطوں کی ایک طویل فہرست ہے ،جن کی خطاطی عالمی شہرت کی حامل ہے ، خلیق ٹونکی (مرحوم) اور مختار احمد ( بنگلور) کا اس فن میں نمایاں نام ہے ، ایسا ہی ایک ابھرتا ہوا نام مولانا وحید الزماں قاسمی کا ہے جن کی خطاطی کا خلیجی ممالک میں شہرہ ہے ، انتہائی قلیل عرصے میں انہوں نے خطاطی کی دنیا میں آسمان کی بلندیوں کا سفر کرنا شروع کردیا ہے ، ان کی خطاطی دیدہ زیب اور حسن و جمال کی پیکر ہوتی ہے ، اردو اور عربی کے تمام خطوط پر ان کی گرفت ہے۔

کے ساتھ مولانا وحید الزمان قاسمی، استاذ صباح الاربیلی الخطاط العالمی
مولانا وحید الزمان قاسمی، استاذ صباح الاربیلی الخطاط العالمی کے ساتھ

مولانا وحید الزماں قاسمی اتر پردیش کے ضلع گورکھپور میں واقع کمہریا گاؤں سے وطنی تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد گرامی مولانا محمد عبد اللہ قاسمی صاحب نے مولانا وحید الزماں قاسمی کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی علاقے کے مدرسہ میں حفظ قرآن کی تکمیل کے بعد 1997میں انہوں نے جامعہ حسینیہ لا ل دروازہ جون پور میں ابتدائی عربی فارسی میں داخلہ لیا اور وہیں پر عربی تعلیم کے ساتھ ساتھ قاری محمود عالم صاحب بلیاوی سے خطِ فارسی سیکھنے کا موقع ملا۔ 2002 میں وہ دارالعلوم دیوبند میں حصول تعلیم کے لئے گئے جہاں سے 2004  میں انہوں نے فراغت حاصل کی۔ مولانا وحید الزماں قاسمی کو بچپن سے لکھنے کا شوق تھا ، عربی خطوط دیکھنے کے بعد ان کا شوق مزید پروان چڑھا ، دارالعلوم دیوبند میں حصول تعلیم کے دوران انہوں نے خطاطی پر خاص توجہ دی،2004 میں دالعلوم سے فراغت کے بعد وہ قطر چلے گئے 2007 میں الثقافی الاسلامی فنار میں ایک انٹرنیشنل معرض اقلام کا انعقاد ہوا جس میں ترکی ، عراق ،شام ، مصر لندن ، بوسینا، فلسطین ، کویت، دبئی سمیت دنیا کے تمام عالمی خطاط نے شرکت کی، اس پروگرام میں مولانا وحید الزماں نے بھی اپنی خطاطی کے نمونے دکھلائے جس کی تمام عالمی خطاطوں نے پذیرائی کی اور مشورہ دیاکہ آپ کسی سے باضابطہ طور پر سیکھ لیں بہت جلد آپ ایک بہترین خطاط بن جائیں گے بلکہ اس میدان میں آپ کو عالمی شہرت ملے گی اور عالمی خطاط کے لقب سے پکارے جائیں گے۔ اس پروگرام میں اول پوزیشن سے سرفراز مشہور خطاط صباح الاربیلی ہوئے تھے جنہیں قطر حکومت نے اپنے یہاں رکھ لیا ، صباح الاربیلی کے قطر میں ہونے کا مولانا وحید الزماں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے ان سے خطاطی سیکھنی شروع کردی ، دو سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد انہیں کامیابی ملی، اور ان کی خطاطی عوام میں مقبول ہونی شروع ہوگئی ، صباح سے انہوں نے پہلے خط نستعلیق عربی سیکھا جس خط میں عموماً قرآن کریم کی کتابت ہوتی ہے، 2012 میں اس خط کو مکمل کرلینے کے بعد انہوں نے خط ثلث میں مہارت حاصل کی ، خطاطی کی دنیا میں خط ثلث کو تمام خطوط کا بادشاہ کہا جاتا ہے، اسی کے ساتھ انہوں نے خط رقعہ ، خط دیوان جلی، خط دیوانی اور دیگر خطوط سیکھ لئے۔ فی الحال وہ مایۂ ناز خطاط کہلاتے ہیں ، قطر میں کئی جگہوں پر خطاطی کا درس دیتے ہیں ۔
مولانا وحید الزماں قاسمی کی خطاطی منفرد ، بے مثال اور نمایاں اوصاف سے سرشار ہے ، ان کے خط میں بے پناہ دلکشی اور جاذبیت جھلکتی ہے ، اصول و ضوابط کی رعایت بھی ہوتی ہے اور خوبصورتی بھی اس سے مترشح ہوتی ہے ، خط رقعہ ، دیوان جلی ،جلی ، کوفی اور دیگر خطوط کے ساتھ اردو خط پر بھی یکساں عبور رکھتے ہیں اور اپنی خطاطی کے ذریعہ حسن وجمال کا جلوہ بکھیر کر رکھ دیتے ہیں ، قرآنی طرز کی خطاطی بھی وہ انتہائی خوبصورت اور صاف ستھرے طریقے پر کرلیتے ہیں ، قرآن کی جو آیتیں انہوں نے کتابت کی ہے وہ لائق دید اور قابل تعریف ہے ، ذرہ برابر کسی طرح کی کوئی تفریق نظر نہیں آتی ہے ، قطر اور دیگر ممالک کی مختلف مساجد اور دیگر مقامات پر ان کی خطاطی کا فن اپنا حسن کا جلوہ بکھیر رہا ہے ، مختلف عمارتوں کو وہ اپنی بے نظیر خطاطی سے زینت بخش چکے ہیں، یوں کہہ لیجئے کہ ان کے قلم سے جو بھی لکیریں کھینچتی ہے وہ جاذبیت ، حسن ، دلکشی ، خوبصورتی اور چاشنی کا پیکر ہوتی ہے، وہ جو کچھ لکھ دیتے ہیں وہ ایک مستقل خط کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔
آج کی دنیا میں کمپیوٹر کا غلبہ ہے ، ہر چہار جانب اس کا شور شرابہ اور ہنگامہ ہے ، ہینڈ رائٹنگ ، کتاب اور خطاطی بالکل معدوم ہوتی جارہی ہے ، ایسے انحطاط پذیر دور میں مولانا وحید الزماں جیسے عظیم خطاط ہمارے لئے قابلِ فخر ہیں اور باعثِ رشک بھی، ان کے اس فن کو ہم سلام کرتے ہیں ۔
stqasmi@gmail.com