فطری دوستی کے پس پردہ!

پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
ہندوستان ۔ اسرائیل کی دوستی 2018 کے آغاز میں مکمل ہوگئی ہے ، ایک ناجائز اور غاصب اسٹیٹ کے ساتھ ہندوستان کے سفارتی تعلقات میں اب کوئی کمی نہیں رہ گئی ہے ، دونوں ملک کی اعلی قیادت کا ایک دوسرے کا یہاں دورہ ہوچکا ہے ، وزراء کے وفد کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے ۔ دفاع اور انٹلیجنس سمیت کل نو معاہدوں پر دستخط بھی ہوگیا ہے ، تجارت کے شعبہ میں دونوں ممالک بیحد قریب ہوتے جارہے ہیں ۔ بطور خاص این ڈی اے کی موجودہ سرکار اسرائیل کے لئے بہت بہتر ثابت ہوئی ہے ، نریندر مودی صاحب کے الفاظ میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد اسرائیل کے اچھے دن آگئے ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ ہندوستانیوں کے اچھے دن کا مطلب برے دن ثابت ہوا ہے ، گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں چار اعلی قیادت نے ایک دوسرے ملک کا دورہ کیا ہے ۔
اکتوبر 2015 میں سب سے پہلے سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے اسرائیل کا سرکاری دورہ کیا ، وہاں کی پارلیمنٹ کنیسٹ میں انہوں نے خطاب کیا ، تقریباً ایک سال بعد نومبر 2016 میں اسرائیل کے صدر روین ریولی نے ہندوستان کا چھ روزہ دورہ کیا ، اس دورے کو دونوں ملک میں خصوصی اہمیت دی گئی کیوں کہ اس موقع پر ہندوستان ۔ اسرائیل کے پچیس سالہ سفارتی تعلقات کا جشن بھی منایا گیا تھا ، گذشتہ بیس سالوں کے درمیان پہلی مرتبہ کسی اسرائیلی صدر کا یہ ہندوستان دورہ تھا ، اس سے قبل وہاں کے صدر وزیر وازمان جنوری 1997 میں ہندوستان آئے تھے ۔ جولائی 2017 میں نریندر مودی نے اسرائیل کا دورہ کیا ، بنجامین نتین یاہو نے پرجوش انداز میں خیر مقدم کیا ، ہندی میں گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا ”سواگت ہے میرے دوست ۔ یہاں تک پہونچنے میں ہم نے کیوں 70 سال لگادیئے ؟“۔ نریندر مودی کی شروع سے اسرائیل کے تئیں قربت رہی ہے ،2006 میں گجرات کے وزیر اعلی ہونے کی حیثیت سے بھی انہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا ، زراعت اور آب پاشی کے تعلق سے انہوں نے اسرائیلی ٹیکنالوجی کو گجرات کیلئے حاصل کیا تھا ۔ بہر حال مودی کے اس سفر کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک نئے باب کی شروعات ہوئی ، اسرائیل کو فلسطین پر ترجیح ملی ، کیوں کہ مودی ایسے پہلے وزیر اعظم تھے جنہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا ، اس کے ساتھ اس سفر میں فلسطین کو بھی نظر انداز کیا گیا ۔ قبل ازیں ہندوستان کا جو وفد جاتا تھا وہ اسرائیل کے ساتھ فلسطینی قیادت سے بھی ملتا تھا۔ اسرائیل کیلئے سب سے اہم بات یہ نہیں تھی کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نے ان ملک میں قدم رکھا ہے بلکہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل یہ گوشہ تھا کہ فلسطین کو نظر انداز کرکے انہیں اہمیت دی گئی ہے ۔ 8 ماہ بعد جنوری 2018 میں بنجامین نتین یاہو بھی اپنے دوست سے ملنے ہندوستان پہونچ گئے ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی نے استقبال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ، ایئر پورٹ پر انہوں نے پروٹوکول توڑ کر پرتپاک استقبال کیا ، مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی ، 9 معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں، آبائی وطن گجرات بھی انہیں لیکر گئے ہیں جہاں انہوں نے چرخہ چلایا ہے ۔نریندر مودی کی بنجامین نتین یاہو سے یہ پہلی ملاقات نہیں ہے ، اس سے قبل 2014 میں دونوں وزرائے اعظم کی نیویارک میں ملاقات ہوچکی ہے ، اسی ملاقات میں ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی اسرائیل کے تئیں بیحد جذباتی ہوگئے تھے، اپنے ہم منصب نتین یاہو کو انہوں نے ایک بہتر رشہ کے قیام کا اشارہ دے دیا تھا ، جس پر مسلسل عمل ہورہا ہے ۔ ذرائع کے مطابق دونوں اس موقع پر خصوصی میٹنگ بھی چاہ رہے تھے لیکن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دونوں کی تقریر کا پروگرام مختلف تھا اس لئے چاہتے ہوئے بھی یہ ممکن نہیں ہوسکا۔
عالمی سیاست میں اسرائیل کا کوئی وجود نہیں ہے ، اس کی حیثیت ایک چھوٹے سے ملک کی ہے ، اس جیسی ریاست کے سربراہ کی روزانہ ہندوستان آمد ہوتی رہتی ہے ، وزیر اعظم سے ملاقات ہوتی ہے ، ضابطہ کے مطابق پروٹوکول دیا جاتا ہے ، حیدرآباد ہاﺅس میں مشترکہ پریس کانفرنس ہوتی ہے ۔ پھر وہ روانہ ہوجاتے ہیں، نہ میڈیا میں کوئی تذکرہ ہوتا ہے اور نہ ہی عوام کو پتہ چلتا ہے ۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات قائم ہونے کے بعد ہندوستان کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں ہوسکتا ہے، البتہ اسرائیل اس سے خوب فائدہ اٹھائے گا ۔ اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کے مطابق بنجامین نتین یاہو کے ساتھ 130 تاجروں کا قافلہ بھی ہندوستان آیا ہوا ہے جو مختلف تجارتی سمیناروں میں شرکت کررہے ہیں، جمعرات کو وزیر اعظم کے ساتھ اقتصادی شہر میں ممبئی میں یہ سب ایک ساتھ شرکت کریں گے ، وہاں ہندوستان کے بھی اہم تاجر ہوں گے ۔ ان سب کے باوجود اسرائیل کو اگر حکومتی گلیاروں سے لیکر میڈیا تک میں بیحد اہمیت دی جارہی ہے ، ٹی وی چینلوں پر ایک ایک سرگرمی کی خبریں دکھائی جارہی ہیں تو اس کے پیچھے کی کہانی بھی سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس کی طرف ایک اشارہ بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھوا نے اپنے ایک مضمون میں کیا ہے ۔ انڈین ایکسپریس میں آج ان کا ایک مضمون چھپا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں ” ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان کئی چیزیں فطری طور پر مشترک ہیں اور اسی چیز نے دونوں کو بیحد قریبی دوست بنادیا ہے ۔ ان کے مطابق ہندوستان بھی برٹش کالونی کا حصہ رہا ہے اور اسرائیل بھی اسی کے ماتحت تھا ، اسی طرح وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ اسرائیل فلسطین سے پریشان ہے اور ہندوستان پاکستان سے پریشان ہے اس کے علاوہ یہ دونوں ملک اسلامی دہشت گردی کے بھی شکار ہیں ۔
مادھوا کے مطابق یہ چیزیں ہندوستان ۔ اسرائیل میں فطری دوستی کا سبب ہے ، دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اسلام دشمنی دونوں کے درمیان بڑھتی قربت کی اہم وجہ ہے ، اسرائیل کی مسلم دشمنی کوئی پوشیدہ نہیں ہے ، اسرائیل کیلئے فلسطین نام کی کوئی ریاست ناقابل برداشت ہے، اسے مسلمانوں کا وجود وہاں بالکل منظور نہیں ہے ۔ ہندوستان کی موجودہ حکومت کو بھی اسلام کا وجود گورا نہیں ہے ، آر ایس ایس کا سب سے پہلا نشانہ اسلام ہے ، مسلمانوں کی مذہبی شناخت کا خاتمہ ان کا اولین ایجنڈا ہے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان جن 9 معاہدوں پر دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ ہوا ہے اس میں انٹلیجنس کا تبادلہ بھی شامل ہے ، دہشت گردی اور ملکی سلامتی سے متعلق ایشوز پر موساد اور آئی بی کے درمیان معلومات کا تبادلہ ہوگا جس کے شکار سب سے زیادہ مسلمان ہوں گے اور یوں دہشت گردی کے نام پرہندوستانی مسلمانوں کی گرفتاری کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگا ۔ موجودہ حکومت کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اسرائیل سے بھر پور معاونت ملے گی ۔ گذشتہ کل دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بنجامین نتین یاہو نے واضح لفظوں میں کہہ بھی دیا ہے کہ انتہاء پسند اسلام ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے ، ان کے ساتھ وہاں وزیر اعظم نرنیدر مودی بھی شریک تھے ۔ عالمی سطح پر اپنی شبیہ مثبت بنانے اور مسلم ممالک سے قربت برقرار رکھنے کیلئے ہندوستان نے فلسطین کے خلاف بھی کوئی اقدام نہیں کیا ہے بلکہ اسرائیل کو بے پناہ اہمیت دینے کے باوجود کئی موقع پر ساتھ بھی دیا ہے، دسمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی حمایت کرنا ہندوستان کا کوئی معمولی قدم نہیں تھا اور اب اگلے ماہ وزیر اعظم نریندر مودی فلسطین کا دورہ بھی کررہے ہیں ۔ ہرچند کے یہ سب توازن برقرار رکھنے اور دنیا کو دکھانے کیلئے ہے کہ اسرائیل کے ساتھ فلسطین سے بھی ہمارے رشتے برقرار ہیں ، سچائی یہ ہے کہ اسرائیل کے تعلق سے ہندوستان کی پالیسی اب بدل گئی ہے ، یہاں بھی امریکہ کی فرماں برداری ہورہی ہے ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں