ڈاکٹر فرقان حمید
گزشتہ ہفتے انقرہ میں ایک نجی محفل کے دوران میرے چند ایک محترم دوست ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کو ڈکٹیٹر قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کررہے تھے اور اس کی وجہ وہ صحافیوں کی گرفتاری بتا رہے تھے۔ اسی طرح پاکستان میڈیا میں بھی میں کچھ عرصے سے چند ایک کالم نگار جو مغربی میڈیا سے بڑے متاثر ہیں، صدر ایردوان کو ڈکٹیٹر کے طور پر پیش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ بھی صحافیوں کی گرفتاری اور ملک میں لگائی جانے والی ایمرجنسی اور اس کی مدت میں توسیع کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ بھلا ان سے کوئی پوچھے ترکی میں ایردوان دور سے قبل کیا ڈیمو کرسی کی نہریں بہتی تھیں؟۔ ایردوان سے قبل ترکی دنیا بھر میں ایک ایسے ملک کے طور پر مشہور تھا جہاں پر تقریبا تمام ہی شعبوں میں فوج کا عمل دخل حاصل تھا اور کوئی پتا فوج کی مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا تھا۔ خاص طور پر میڈیا کی رسی خفیہ طور پرفوج ہی کے ہاتھوں میں تھی اور کوئی خبر اور کالم فوج کی پیشگی اجازت کے بغیر شائع ہی نہیں ہوسکتی تھی ۔ ( روزنامہ جنگ کے آرکائیو میں ” اتاترک سے ایردوان تک کے دور میں فوج کا کردار” کے زیر عنوان کالموں میں ترک فوج کے رول پر تفصیلی روشنی ڈال چکا ہوں ) ایردوان سے قبل کے جمہوری دور میں فوج نے جس طریقے سے اپنا کنٹرول قائم کررکھا تھا دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔ آپ اُس دور میں ڈیموکریسی کی عظمت اور معیار کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ اُس دور کے ملک کے وزیر اعظم مرحوم نجم الدین ایربکان کی جانب سے وزیراعظم ہاؤس میں ملک کی تاریخ میں پہلی بار علما ء کے اعزا ز میں افطار ڈنر دیا گیا۔ بس اس افطار ڈنر کے بعد میں ملک میں ایسا طوفان برپا ہوا جو ایربکان حکومت ہی کو لے ڈوبا اور ایربکان کو فوج کے شدید دباو کی وجہ سے اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ یہتھی فوج کے زیر کنٹرول ڈیمو کرسی کی عظمت۔ کیا ہمیں یہ نہیں معلوم کہ موجود صدر رجب طیب ایردوان جنہوں نے مرحوم ایربکان سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد نئی پارٹی ” جسٹس اینڈ ڈولپمینٹ ” تشکیل دی تھی اور پارٹی کے جلسہ عام میں ’’مسجدیں ہماری پناہ گاہیں ہیں ۔ان کے مینار ہمارے نیزے ہیں۔ان کے گنبد ہماری ڈھال ہیں اور اہلِ ایمان ہمارے سپاہی ہیں ۔‘‘پڑھنے کی بنا پر بغاوت کا مقدمہ چلاتے ہوئے آٹھ ماہ کے لیے پابند سلاسل نہیں کیا گیا تھا؟ ۔اس وقت ہمارے میڈیا میں سے کس کو ترکی کی ڈیموکریسی پر آواز بلند کرنے کی ہمت ہوئی تھی کیونکہ اس وقت مغربی میڈیا خاموش تھا اور انہوں نے بھی خاموشی ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ صدر ایردوان پاکستان کے سچے دوست اور خیر خواہ ہیں۔ کسی بھی انسان کو صدر ایردوان کو آمر کہنے سے قبل کم ازکم اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جب دہشت گرد تنظیم ” فیتو” نے فوج کے اعلیٰ افسران کے ساتھ مل کر ان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تو ان کی ایک کال پر عوام نے ٹینکوں کا رخ موڑ دیا اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ایردوان کے لیے ایک ڈھال ثابت ہوئے ۔کیا کبھی آپ نے اتنی بڑی تعداد میں عوام کو کسی ڈکٹیٹر کی خاطر سڑکوں پر نکل کر اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے ہوئے دیکھا ہے؟ ایردوان کو ڈکٹیٹر کہنے والےکیا یہ بتاسکتے ہیں ان کے برسر اقتدار آنے سے اب تک ان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہی ہوا ہےجبکہ ڈکٹیٹر کبھی بھی اپنی مقبولیت میں طویل عرصے قائم نہیں رکھ سکتا۔
رجب طیب ایردوان درحقیقت صرف ایک ترک رہنما کا نام نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم و جبر ہو طیب ایردوان ان کی نہ صرف آواز بنتے ہیں بلکہ ہر ممکن مدد بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف کی عالمی پلیٹ فارم پر جس طریقے سے کھل کر حمایت کی ہے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ صدر ایردوان ہی تھے جنہوں نے پاکستان کی حمایت میں بنگلہ دیش کی جانب سے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی پھانسی کے سزا دیے جانے پر نہ صرف رابطہ قائم کیا تھا بلکہ ان کی درخواست پر کان نہ دھرنے پر بنگلہ دیش سے اپنے سفیر کو ہی واپس بلوا لیا تھا۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان کے عالم اسلام اور مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانے اور پوری امت مسلمہ کے لیے ان کے دل میں درد ہی نے لوگوں کو ان سے محبت کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ایردوان کی قیادت میں اسلام سے محبت کا دم بھرنے والا ترکی دنیا میں ہر جگہ مظلوم و مقہور مسلمانوں کے سر پر ہاتھ رکھ رہا ہے۔ مسلمانوں پرکہیں کوئی آفت ٹوٹے یا مظالم ہوں ،ترکی کا دل ان کے غم میں سب سے بڑھ کر دکھتا ہے۔ یورپین جو اپنے آپ کو انسانی حقوق اور ڈیموکریسی کے چمپئین کہلوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ کیا انہوں نے شامی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دی؟ ہر گز نہیں۔ یہ ایردوان ہی تھے جنہوں نے شامیوں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا اور شامی پناہ گزینوں کے لیے ملکی سرحدوں کو کھول دیا اور اس وقت تین ملین کے لگ بھگ شامی پناہ گزین ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ایردوان نے دراصل شام کے مہاجرین کو گلے لگا کر “مواخاةمدینہ“”کی یاد تازہ کی ہے۔
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر سب سے توانا، آواز اور مضبوط اقدامات اور سب سے اہم کردار ترکی کے صدر ایردوان کا ہے، جنھوں نے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے اس پر خاموشی اختیار کرنے والوں کو بھی ذمے دار ٹھہرایا۔ انہوں نے اسلامی ممالک کے رہنماؤں سے رابطہ کرنے کے ساتھ ساتھ برما کی آنگ سان سوچی کو فون کرکے مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور بنگلا دیش میں آنے والے تمام روہنگیا مہاجرین کے نہ صرف تمام اخراجات برداشت کرنے کا اعلان کیا۔ اہل غزہ سے ان کی محبت سب کے سامنے ہے۔ 2008ء میں غزہ پٹی پر اسرائیل کے حملے کے بعدایردوان کے زیر قیادت ترک حکومت نے اپنے قدیم حلیف اسرائیل کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ ڈیوس عالمی اقتصادی فورم میں ایردوان کی جانب سے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے ساتھ دو ٹوک اور برملا اسرائیلی جرائم کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد ڈیوس فورم کے اجلاس کے کنوینئر کی جانب سے انھیں وقت نہ دینے پر ایردوان فورم کے اجلاس کا بائیکاٹ کرکے فوری طور پر وہاں سے لوٹ گئے۔ اس کے بعد 31 مئی 2010ء کو محصور غزہ پٹی کے لیے امدادی سامان لے کر جانے والے آزادی بیڑے پر اسرائیل کے حملے میں 9 ترک شہریوں کی شہادت کے بعد ایک بار پھر ایردوان عالم عرب میں ہیرو بن کر ابھرے۔ چند ماہ قبل جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مشرقی القدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کئے جانے کا مسئلہ ابھرا تو کھلے عام جس مسلمان رہنما نے اس کی مخالفت کی وہ طیب ایردوان ہی تھے۔ اس مسئلہ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں فلسطین اور مصر کے ساتھ مل کر قراردادیں لانے والا ملک بھی ترکی ہی تھا۔ ایردوان کے مطابق بیت المقدس اور حرم شریف کی مقدس اور تاریخی حیثیت کی حفاظت کرنا تمام اسلامی ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ انہوں نے اسرائیل پر غزہ پر عائد پابندیوں کا خاتمے کے لیے مسلسل دباو ڈالا ہوا ہے اور فلسطین کی کھل کر حمایت کو جاری رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ فلسطین میں مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچے ہوئے ہیں۔ ایردوان نے جب بھی دنیا میں کہیں مسلمانوں کو مشکل میں دیکھا تو انہوں ہی نے سب سے پہلے آواز بلند کی۔ دنیا کے کسی مسلم ملک میں زلزلہ، طوفان، قحط سالی، سیلاب آئے یا دہشت گردی و مسلم کشی کی لہر، ایردوان اور ان کی ٹیم پیش پیش رہے۔ پاکستان میں 2005ء کا ہولناک زلزلہ اور 2010 کا شدید سیلاب دونوں مواقع پر ایردوان خود پہنچے اور متاثرہ افراد کے نہ صرف آنسو خشک کیے بلکہ خود اپنےہاتھوں سے امداد بھی تقسیم کی۔ صومالیہ اور افریقہ کے کئی ایک اسلامی ممالک کا دورہ کرتے ہوئے افریقی عوام سے یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے تو وہ بھی ایردوان ہی نے کیا ہے ورنہ اسلامی ممالک غریب اور پسماندہ افریقی اسلامی ممالک کو بھولے بیٹحے ہوئے تھے۔ ایردوان کی ترکی کے تعاونی اور ترقیاتی ادارے ” تیکا” کے دفاتر قائم کرتے ہوئے غریب افریقی باشندوں کو ہر ممکنہ امداد فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہواہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی افریقی ممالک میں مقبولیت میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اگر اس وقت تمام اسلامی ممالک میں مقبولیت کے لحاظ سے رہنماؤں سے متعلق سروے کروایا جائے تو بلاشبہ ترک صدر ایردوان ہی اس وقت عالم اسلام کے بہترین اور مقبول ترین رہنما منتخب ہوں گے۔
(مضمون نگار معروف صحافی اور ترکی کے سرکاری اخبار ٹی آرٹی اردو سیکشن کے گروپ ایڈیٹر ہیں)