شمس تبریز قاسمی
گذشتہ سے پیوستہ
ٹیپو سلطان کی بادشاہت میں میسور کی یہ ترقی، چوطرفہ خوشحالی اور جنگی میدان میں بڑھتی ہوئی کامیابی انگریزوں کو برداشت نہیں ہوسکی ، پوری دنیا پر اپنی حکمرانی کا خواب دیکھنے والے انگریزوں نے ٹیپوسلطان کو ختم کرنے کی سازش رچنی شروع کردی اور جنوبی ہندکو اپنے زیر اقتدار کرنے کیلئے انہوں نے میسور پر پوری توجہ مرکوز کردی ، مؤرخین لکھتے ہیں انگریز ٹیپوسلطان کو جنوبی ہند پر اپنے اقتدار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔چناں چہ برٹش حکومت اور میسور کے درمیان صلح کو مشکل سے چھ سال ہوئے تھے کہ انگریزوں نے معاہدے کو بالائے طاق رکھ کر نظام حیدر آباد اور مرہٹوں کے ساتھ مل کر میسور پر حملہ کر دیا اس طرح میسور کی تیسری جنگ (1790تا 1792 ) کا آغاز ہوا۔ اس متحدہ قوت کا مقابلہ ٹیپو سلطان کے بس میں نہیں تھا ، اس لیے دو سال مقابلہ کرنے کے بعد ان کو صلح کرنے اور اپنی نصف ریاست سے دستبردار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔
جنگ میں یہ ناکامی ٹیپو سلطان کےلیے بڑی تکلیف دہ ثابت ہوئی انہوں نے ہر قسم کا عیش و آرام ترک کر دیا اور اپنی پوری توجہ انگریزوں کے خطرے سے ملک کو نجات دینے کے طریقے اختیار کرنے پر صرف کردی۔ نظام دکن اور مرہٹوں کی طرف سے وہ مایوس ہو چکے تھے اس لیے انہوں نے افغانستان، ایران ، ترکی اور فرانس تک اپنے سفیر بھیجے اور انگریزوں کے خلاف متحدہ اسلامی محاذ بنانا چاہا لیکن افغانستان کے حکمران زمان شاہ کے علاوہ اور کوئی ٹیپو سے تعاون کرنے پر تیار نہ ہوا۔ شاہ افغانستان بھی پشاور سے آگے نہ بڑھ سکا۔ انگریزوں نے ایران کو بھڑکا کر افغانستان پر حملہ کرادیا تھا اس لیے زمان شاہ کو واپس کابل جانا پڑا۔ خلاف عثمانیہ کے سلطان سلیم ثالث مصر سے فرانسیسی فاتح نپولین کا قبضہ ختم کرانے میں برطانیہ کی مدد کے باعث انگریزوں کے خلاف ٹیپو سلطان کی مدد کرنے کی ہمت نہیں کرسکے ۔ نپولین بوناپارٹ جو مصر کو فتح کرنے کے بعد اس وقت بحیرہ قلزم کے ساحل پر خیمہ زن تھا، اس نے ٹیپو سلطان کے نام خط لکھا۔ ” میرے عزیز دوست ٹیپو سلطان میں آپ کو انگریزوں کے آہنی شکنجے سے چھڑانے کیلئے ایک عظیم فوج کے ساتھ بحیرہ قلزم کے کنارے موجود ہوں، کسی خصوصی معتمد کو جلد از جلد مذاکرات کیلئے روانہ کریں تاکہ آپ کا سیاسی موقف جان سکوں۔ مگر فرانس کے داخلی حالات کی وجہ سے نپولین کو جلد فرانس لوٹنا پڑا “
انگریزوں نے ٹیپو سلطان کے سامنے امن قائم کرنے کے لیے ایسی شرائط پیش کیں جن کو کوئی باعزت حکمران قبول نہیں کر سکتا تھا۔ نواب اودھ اور نظام دکن ان شرائط کو تسلیم کرکے انگریزوں کی بالادستی قبول کر چکے تھے لیکن ٹیپو سلطان نے ان شرائط کو رد کر دیا۔ 1799 میں انگریزوں نے میسور کی چوتھی جنگ چھیڑ دی۔ آخری ہفتہ میں انگریزوں اور نظام دکن کی متحدہ افواج نے انگریز جنرل ہیرس کی قیادت میں سرنگا پٹنم پر جو دریائے کاویری کے درمیان ایک جزیرہ پر واقع ہے ، فیصلہ کن حملہ کیا۔ ٹیپو سلطان نے شیر کی طرح بے جگری سے مقابلہ کیا ۔اس مرتبہ انگریزی فوج کی کمان لارڈ ویلیزلی کررہا تھا جو بعد میں 1815 میں واٹرلو کی مشہور جنگ میں نپولین کو شکست دینے کے بعد جنرل ولنگٹن کے نام سے مشہور ہوا۔ اس جنگ میں وزیراعظم میر صادق اور غلام علی اور دوسرے عہدیداروں نے غداری کی۔ ان میں تین نمایاں تھے میر صادق ، قمرالدین، پورنیما کے ہیں ۔تاریخی رویات کے مطابق میر صادق اور متحدہ فوج کے جنرل ہپرپس کے درمیان خفیہ طورپر یہ طئے پایا کہ 4 مئی 1799 کی دوپہر سرنگا پٹنم کے قلعے کی فصیل پر یلغار کی جائے۔ اس وقت ٹیپو سلطان کے سامنے دوپہر کا کھانا رکھا تھا، باہر شور کی آوازیں سنیں اور حقیقت سے آگہی ہوئی تو فوری ا پنی زندگی کے آخری کھانے کی جانب نہیں دیکھا، عمامہ سر پر رکھا، جیبی گھڑی جیب میں ڈالی ، تلوار پکڑی اور جنگ میں کود گئے۔ بھوکے ٹیپو سلطان کے جسم پر ایک گہرا زخم آیا۔ ٹیپو سلطان اپنی تلوار کو اونچا رکھتے ہوئے دشمنوں کی فوج میں گھس پڑے۔ جان بہ لب شیر ٹیپو سلطان حیدری تلوار کا بھر پور خواب دیتے رہے اور بالآخر 4 مئی 1799 کو دار الحکومت سرنگاپٹنم کے قلعے کے دروازے کے باہر بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ۔
انگریز جنرل ہیرس کو سلطان کی موت کی اطلاع ہوئی تو وہ چیخ اٹھا کہ ” اب ہندوستان ہمارا ہے “۔ انگریزوں نے گرجوں کے گھنٹے بجا کر اور مذہبی رسوم ادا کرکے سلطان کی موت پر مسرت کا اظہار کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے ملازمین کو انعام و اکرام سے نوازا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب ہندوستان میں برطانوی اقتدار مستحکم ہو گیا ۔ اس کو اب کوئی خطرہ نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد اسلامی ہند میں نظام الملک آصف جاہ، حیدر علی اور ٹیپو سلطان جیسی حیرت انگیز صلاحیت رکھنے والا تیسرا کوئی حکمران نظر نہیں آتا۔ خاص طور پر حیدر علی اور ٹیپو سلطان کو اسلامی تاریخ میں اس لیے بلند مقام حاصل ہے کہ انہوں نے دور زوال میں انگریزوں کا بے مثل شجاعت اور سمجھداری سے مقابلہ کیا۔ یہ دونوں باپ بیٹے دور زوال کے ان حکمرانوں میں سے ہیں جنہوں نے نئی ایجادوں سے فائدہ اٹھایا۔ وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کی اور اپنی مملکت میں فوجی، انتظامی اور سماجی اصلاحات کی ضرورت محسوس کی۔ انہوں نے فرانسیسیوں کی مدد سے اپنی افواج کی جدید انداز پر تنظیم کی جس کی وجہ سے وہ انگریزوں کا 35 سال تک مسلسل مقابلہ کرسکے اور ان کو کئی بار شکستیں دیں۔ یہ کارنامہ اٹھارہویں صدی کے نصف آخر میں کوئی دوسرا حکمران انجام نہیں دے سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ بر صغیر میں انگریزوں کا جتنا کامیاب مقابلہ حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے کیا کسی اور مسلم اور غیر مسلم حکمران نے نہیں کیا۔
ٹیپوسلطان کی یہ خوبیاں اور دور اقتدار کی عظیم حصولیابیاں دنیا بھر میں ضر ب المثل ہیں، تاریخ کے اوراق میں انہیں نمایاں مقام حاصل ہے، غیر مسلم اور انگریز مؤرخین بھی ان کی قائدانہ صلاحیت ، جنگی کارنامے ، بہادری اور شاندار حکومت کے قائل ہیں، ٹیپو سلطان کی یہ خوبیاں آج بھی میسور میں جھلکتی ہے ، دنیا کے دیگر شہروں و خطوں کے مقابلے میں میسور کی تصویر مختلف نظر آتی ہے ، سر سبزو شادابی آج بھی وہاں برقرار ہے۔ ہندوستان کے گرین شہر میں وہ نمبر ون ہے ، صفائی ستھرا ئی میں بھی اس کا اول مقام ہے۔(جاری)