اپنی تاریخ کا انکار ۔ روایت بگاڑنے کی کوشش

مولانا عبد الحمید نعمانی
غلط فہمی اور غلط بیانی میں فرق ہوتا ہے، اس سے آگے جب غلط بیانی جھوٹ پھیلانے کی مہم میں بدل جائے تو معاملہ بہت قابل توجہ ہوجاتا ہے، ذاتی سطح پر کذب بیانی سماج کے لیے اس قدر مضر نہیں ہے جتناکہ کذب بیانی مختلف طبقات اور فرقوں اور مذہبی اکائیوں میں نفرت و عداوت پیدا کرکے مشترکہ آبادی کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو درہم برہم کردے۔ ہندوتوادی یہی کام گذشتہ کئی برسوں سے مسلسل کررہے ہیں، یہ سب جانتے ہیں کہ تقدیس و تحقیر پر مبنی جات پات کا طبقاتی نظام، اکثریتی فرقے کی زندگی میں جز لانیفک کی طرح شامل رہا ہے، یہ دلت، آدی واسی اور محنت کش طبقات کے افراد بھی اچھی طرح جانتے ہیں، ان کے رہنماﺅں اور قائدین نے کبھی بھی نہیں کہا لکھا ہے کہ بھارت میں سماجی اونچ نیچ اور چھوا چھوت کی لعنت، مسلم حکمرانوں کی دین اور کارستانی ہے۔ لیکن سنگھ والے یہ دعوے مسلسل کرکے سماج کو گمراہ اورپسماندہ طبقات کو مشتعل کرنے کی سعی کررہے ہیں، کچھ برسوں پہلے وشو ہندوپریشد کے آنجہانی اشوک سنگھل نے بھی انگریزی جریدہ سنڈے کو دیے اپنے انٹرویو میں جب یہ دعویٰ کیا تھا تو سنجیدہ افراد بھی تالی پیٹنے پر مجبور ہوگئے تھے، اس کے بعد تسلسل سے یہ کہا جانے لگا ہے، کچھ دنوں پہلے ، بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان سونکر شاستری نے اکثریتی سماج کے تین پس کردہ جاتوں پر لکھیں اپنی تین کتابوں میں مذکورہ دعوے کو پوری شر انگیزی اور فریب کے ساتھ دہرایا ہے، یہ تینوں کتابیں، دہلی کے مشہور اشاعتی ادارہ پر بھات پرکاشن سے شائع ہوئی ہیں، کچھ دنوں پہلے شاستری صاحب سے ہماری ملاقات ایک ٹی وی چینل پر ہوئی تو ہم نے پوچھا کہ آپ یہ انوکھے دعوے کس ثبوت اور دلیل کی بنیاد پر کررہے ہیں، رامائن، مہابھارت، گیتا، پران، منوسمرتی اور دیگر سمرتیاں کیا مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں نے لکھی اور لکھوائی ہیں؟ ڈاکٹر بھیم راﺅ امبیڈکر کے حوالے سے آپ نے یہاں وہاںاور سیاق و سباق سے کاٹ کر کچھ سے کچھ ثابت کرنے کی سعی نا مشکو ر کی ہے، کیا انھوں نے ایسا لکھا اور مانا ہے کہ اکثریتی ہندو سماج میں جات پات کی اونچ نیچ ،مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں کی پیدا کردہ ہے؟ اس طرح کے سوالات کا کوئی بھی جواب سونکر شاستری نہیں دے سکے۔ اب پھر حال ہی میںسنگھ کے ہندی ترجمان پانچ جنیہ (۴فروری۸۱۰۲ئ۔ص۹۴) نے مکرسکرانتی کے تناظر میں سنگھ کی طرف سے منعقد ایک پروگرام کی رپورٹ شائع کی ہے، اس میں” پرگیاہ پرواہ “کے ذمہ دار راما شیش سنگھ کا بیان شامل کیا گیا ہے، یہ پروگرام گورکھپور یونیورسٹی میں منعقد ہوا تھا۔ سنگھ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ”مکرسکرانتی کے دوران سورج دھنو راشی سے مکر راشی میں داخل ہوتا ہے، اس کے بعد سے دن بڑے ہونے شروع ہوجاتے ہیں، سماج سے دھند، تاریکی چھنٹے لگتی ہے، یہ منفی پر مثبت کی فتح کا تیوہار ہے۔اس لیے آر ایس ایس کی کی طرف سے مشترکہ بھوج (کھان پان) کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، جس سے سماج میں پھیلی چھوا چھوت، بھید بھاﺅ جیسی برائیوں کو ختم کرنے کے لیے سبھی ساتھ بیٹھیں، من کی کدورت دور ہو، لوگوں میں مساوات کا جذبہ پیدا ہو، سماج میں ہم آہنگی ، تال میل پیدا ہو، سنگھ جی آگے یہ بھی کہتے ہیں ”ہندو سماج میں کسی جات کے اعلی، ادنیٰ ، اونچ نیچ ہونے کا سوال کبھی نہیں اٹھا، کیوں کہ یہاں جاتیاں اونچی یا نیچی تھیں ہی نہیں۔ باہری غیر ملکوں سے آئے حملہ آوروں نے ہمارے سماج کو توڑنے کے لیے ہمارے اندر یہ جذبے پیدا کیے، جس سے سماج میں شکست و ریخت پیدا ہوا ،لوگ آپس میں لڑیں، اس سے غیر ملکیوں کو بھارت میں حکومت کرنا آسان ہوجائے، اس کے ساتھ راماشیش سنگھ یہ کہنا بھی نہیں بھولتے ہیں ”چرچ کی پیدا کردہ، عیسائی مشنری، کمیونسٹ طاقتیں، دنیا کے دیگر ممالک میں مسلسل دشمنوں کی طرح کام کرتی ہی ہیں، لیکن بھارت میں متحدہ مورچہ بناکر ہندو سماج کو توڑنے کا کام کرتی ہیں، آج ہندو سماج ان کی سازشوں کو سمجھ کر کمر کس کر کھڑا ہورہا ہے“۔
دیکھا جاسکتا ہے کس دیدہ دلیری کے ساتھ غلط بیانی اور کذب بیانی سے نفرت و اشتعال انگیزی پیدا کرکے، اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، یہ تو آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب آن ریکارڈ سنگھ والے ایسی غلط بیانی سے کام لے سکتے ہیں، تو اندرون خانہ اور خفیہ پروگراموں میں کیا کچھ کہتے اور کرتے ہوں گے۔ اس کے آئے دن ہمیں سب تجربے و مشاہدے ہوتے رہتے ہیں، کچھ دنوں پہلے ایک مشہور اور بقول اس کے سب سے تیز ٹی وی چینل پر ایک معروف سنگھ مفکر نے آن کیمرا ایک ایسی بات سے کھلے عام انکار کردیا، جو ہر پڑھے لکھے آدمی کو معلوم ہے، راقم سطور نے یہ سوال اٹھایا کہ جب گروگولولکرسے سیکھ لے کر، عیسائیوں، کمیونسٹوں سمیت مسلمانوں کو ملک کا داخلی خطرہ قرار دے کر بات کی جائے گی تو ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور باہمی میل محبت کو فروغ کیسے ملے گا؟ اتفاق سے ہمارے پاس گروجی کی کتاب Bunch of Thoughtsتھی، ہم نے مذکورہ حوالہ دکھایا بھی لیکن آن کیمرا انکار ہی کرتے رہے ہاں بریک میں اینکر کے سامنے اقرار کیا، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کہاں تک اور کس حد تک جانے کا عزم و ارادہ ہے، اکثریت کے عام لوگوں میں یہ غلط ذہن پروان چڑھ رہا ہے کہ ملک میں قدیم وجدید برائیوں حتی کہ سماجی اونچ نیچ وغیرہ کے لیے بھی مسلم ،عیسائی اورکمیونسٹ ذمہ دار ہیں، اس صورت حال میں ان کے خلاف نفرت و عداوت کا اور سنگھ پریوار کے محافظ و پشت پناہ ہونے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، جب تک متعین طور پر ضروری باتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے غلط فہمیوں کا ازالہ بلکہ غلط بیانیوں کی تردید و تغلیط نہیں کی جائے گی تب تک ہماری ریلیوں ، جلسوں اور کانفرنسوں کے خاطر خواہ اثرات و فوائد سامنے نہیں آئیںگے، ایسا نہیں ہے کہ ہندوتوادی طاقتوں کی مزاحمت نہیں ہورہی ہے، سیکولر اور صاف ذہن افراد کسی نہ کسی جہت سے مختلف سطحوں پر مزاحمت کررہے ہیں،خاص طور سے دلت اور سماجی کارکنان اور دانشوروں ،مصنفوں کی طرف سے خاصی مزاحمت و مقابلہ آرائی ہورہی ہے، ڈاکٹر محمد منظور عالم، آئی او ایس وغیرہ کے پلیٹ فارم سے بہتر کام کررہے ہیں، جناب نوید حامد، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی وغیرہم کو ہندوتو کی جارہی سرگرمیوںپر فکر و تشویش ہے۔ جماعت اسلامی کے مرحوم امیر ڈاکٹر عبد الحق انصاری ہندوتوکی آئیڈلوجی کے مختلف پہلوﺅں کو سامنے لانے کے حامی و فکر مند دکھائی دیتے تھے، انتظار نعیم نے دلت مسئلہ جڑ میں کون؟ لکھ کر مسلمانوں پر ہندو سماج میں اونچ نیچ بڑھانے کے الزام کی اچھی تردید کی ہے، آئی او ایس اور قاضی پبلشر وغیرہ سے کئی قابل توجہ چیزیں سامنے آئی ہیں، لیکن مطلبوبہ سطح پر لوگوں تک پہنچ نہیں پارہی ہیں، اپنے دائرے میں اثر انگیزی کے باوجوداُن کو ہندوتو کی تحریکوں اور سنگھ پریوار کے کاموں کے مقابلے میں نہیں رکھا جاسکتا ہے، اس بار پرگتی میدان کے کتاب میلے میں پریوار کے درجنوںبک اسٹالز لگے تھے، لیکن قاضی پبلشر وغیرہ کا سرے ہی سے اسٹال نہیں تھا، جب کہ دوسری طرف، دلت اشاعتی ادارے ، اپنے موقف اور نظریے کو سامنے لانے کے حوالے سے منو وادکا ز بردست طریقے سے سامنا کررہے تھے، اس کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے اکثریتی ہندو سماج میں رائج اونچ نیچ پھیلانے اور بڑھاوا دینے کا الزام بالکل بے بنیاد طور پر مسلم سماج اور اس کے حکمرانوں پر لگایا جاتا ہے، کبھی اس کا الزام انگریزوں اور عیسائی مشینریزپر لگایا جاتا ہے، جیسا کہ راما شیش سنگھ کے بیان میں دیکھا جاسکتا ہے، آر ایس ایس کے سابق سر سنچالک کے ایس سدرشن بھی ایسا کہتے تھے، ان کا کہنا ہے کہ انگریزوں نے اپنے سامراجی مقاصد کے تحت بھارت میں ”پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو©©“ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے، آریہ ، دراوڑ، آدی واسی، غیر آدی واسی، ہریجن، اعلی، برہمن، غیر برہمن وغیرہ مختلف قسم کے امتیازات اور بھید بھاﺅ کھڑے کیے تھے، بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد بھی گذشتہ ۰۶ برسوں سے وہی غلط تاریخ ہم کو پڑھائی جارہی ہے۔ (سدرشن جی کی سوانح ،ہمارے سدرشن جی ،ص۶۳۳، مطبوعہ پربھات پرکاشن، دہلی، از بلدیو بھائی شرما ڈائریکٹر نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا)
ظاہر ہے کہ یہ بھی تاریخ کا غلط مطالعہ پیش کرنے کی کوشش ہے، بھارت میںطبقاتی اور سماجی اونچ نیچ اور بھید بھاﺅ کی بیماری مسلمانوں، انگریزوں کے آنے کے بہت پہلے سے ہے، ابھی چند دن ہوئے کہ ہندو جاگرن ابھیان کے سربراہ سے ایک ٹی وی پروگرام میں ملاقات ہوئی تو بات چیت کے دوران میں ہمارے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے سماج میں بھید بھاﺅ پیدا کرنے کا کام انگریزوں نے کیا ہے، مسلم حکمرانوں نے تو ہمارے کچھ مندر توڑے لیکن انگریزوں نے ہمارے نظریات کو ہی منہدم کردیا، منو سمرتی وغیرہ میں اونچ نیچ والے ایسے شلوک شامل کردیے جن کے حوالے ڈاکٹر بھیم راﺅ امبیڈ کرنے دے کر معاملے کو کچھ سے کچھ کردیا ہے، ہم نے کہا کہ کوئی ایسی منو سمرتی بھی ہے جس میں یہ الحاقی شلوک نہ ہوں اس پر کہا کہ ایسی کوئی منو سمرتی نہیں ہے، راقم سطور نے کہا کہ آپ لوگ کم از کم ایک دواصلی نسخے تو محفوظ رکھتے، کہا بس ہندو سماج ، ایسا نہیں کرسکا، ظاہر ہے کہ یہ سب مفروجات ہیں، جب تک اپنی کمیوں اور غلطیوں کو دور کرنے کے بجائے ان کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالی جاتی رہے گی تب تک بہتر تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے، اصل بات یہ ہے کہ اگر اونچ نیچ، ماضی میں تسلیم کرلیا جائے گا تو اس کا قابل تقلید و نمونہ کی طور پر حوالہ دینا مشکل اور بے معنی ہوجائے گا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غلط بیانی کرکے فرقوں کے درمیان نفرت و تشکیک پیدا کی جائے، ایسی حالت میں امن پسند اور انصاف نواز تنظیموں اور افراد کی ذمہ داری زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ سماج میں غلط مفروضات کی بنیاد پر فرقہ پرستی و نفرت پھیلاکر غلط مقاصد کے حصول کی کوششوں کی مزاحمت کی جائے۔
(مضمون نگار معرو ف مصنف ،ہند وازم کے ماہر اور آل انڈیامسلم مجلس مشاورت کے جنرل سکریٹری ہیں )
noumani.aum@gmail.com