اللہ رے سناٹا۔۔۔

قاسم سید
تاریخ کی جابر عدالت اپنے فیصلے صادر کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے اور منوانے کی قدرت بھی۔ وہ کسی کے جاہ و جلال کو دیکھتی ہے نہ اتھارٹی کو، اس کے فیصلے حتمی ہوتے ہیں۔ نہ اپیل، نہ کوئی ریویو پٹیشن، ہاں مہلت عمل ضرور ملتی ہے۔ وہیں تاریخ کا سبق یہ بھی ہے کہ جنگیں بیرونی حملہ آوروں نے اسی وقت جیتیں جب قلعہ کے دروازے اندر سے کھولے گئے۔ سیلاب اسی وقت گھروں میں داخل ہوتا ہے جب دیوار کی بنیادیں کمزور ہوجائیں یا ہم نے سیلاب سے مقابلہ کا کوئی بندوبست نہ کیا ہو۔ چالاک دشمن پہلے اندرون میں اختلافات و انتشار کا ماحول پیدا کرتا ہے، فروعی اختلافات کو ہوا دیتا ہے، انھیں چنگاری سے آگ میں تبدیل کرتا ہے، پھر فائر بریگیڈ کا رول بھی ادا کرتا ہے اور ایسے لوگوں یا قبیلہ کو دشمنوں کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی جو دشمن پیدا کرنے کا ملکہ رکھتا ہو اور آپس میں دست و گریباں ہونے کو عین انصاف و عدل کا تقاضہ سمجھتا ہو۔ تو کیا ہم بھی توازن و اعتدال سے محروم بے سمتی کا شکار ہوکر دھیرے دھیرے اجتماعی خودکشی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ خوں رنگ موسموں اور بے اعتباری کی زندگی کش رتوں میں چار سو خزاں کے ڈیرے عبرت کے لئے کافی ہیں۔ شاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے اپنے گریبانوں سے کھیلنے میں لذت محسوس کرنے لگیں تو سمجھ لیجئے کہ سخت آزمائشیں اور چیلنج دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ ہندوستان میں آئے دن ایسے واقعات ہماری اجتماعیت، تہذیب، باہمی اتحاد، قوت برداشت کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں جہاں معمولی فروعی اختلافات پر تشدد، مارپیٹ، نفرت، حقارت، تنگ دلی، تنگ ذہنی اور کم نگاہی شناخت بنتے جارہے ہیں، حتیٰ کہ خدا کے گھر بھی ان آندھیوں سے محفوظ نہیں رہے اور اگر یہی رفتار رہی تو خدانخواستہ پاکستان جیسے مناظر ہندوستان میں بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ سب سے بڑا المیہ اور تشویشناک بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی وہ سیاسی و مذہبی جماعتیں جو مختلف میدانوں میں سرگرم ہیں، ملّی جدوجہد میں اپنا خون پسینہ ایک کررہی ہیں۔ وہ علما جن کی ثقاہت کی قسمیں کھائی جاسکتی ہیں، جن کے تقدس کو سلام کیا جاسکتا ہے، جن کی روحانی بالیدگی اور عظمت کردار کی گواہیاں دی جاسکتی ہیں، جن کے علم و عمل کی خوشبو سے مشام جاں معطر رہتے ہیں، خاموش ہیں اور پوری ملت اضطراب و کرب سے گزر رہی ہے۔
امام حرم ہندوستان آئے اور جہاں گئے مسلکی اتحاد پر زور دیا۔ بنگلور میں عظمت صحابہ کانفرنس کے دوران انھوں نے امن و اتحاد کا پیغام دیا اور کہا کہ دین اسلام کسی کو کافر بنانے کی اجازت نہیں دیتا، بے گناہوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا، مسلکی انتشار و اختلاف پر ان کی تجویز تھی کہ متحدہ کانفرنس کرکے اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جائے۔ امام کی اپیل کتنی اثرانداز ہوگی، ملت اسلامیہ میں اخوت و بھائی چارہ کو فروغ دینے کے لئے کون قدم آگے بڑھاتا ہے، اپنی انانیت کو قربان کرتا ہے، ایثار و قربانی اور پیش قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے، وسعت قلبی و وسعت نظر کا مظاہرہ کرتا ہے، مسلکی فوقیت و برتری کے شیطانی وسوسوں کو شکست دیتا ہے اور صرف اور صرف اسلام کی حقانیت اور کلمہ توحید کی بنیاد پر اتحاد و اتفاق کی صدائیں بلند کرتا ہے، اس کا امتحان باقی ہے۔
کیا ہم مسلکی منافرت کی دہکتی آگ میں خود کو جلا ڈالنا چاہتے ہیں؟ کیا مسجدوں میں فائرنگ، پتھراؤ، سنگ باری اور ہاتھاپائی کے مذموم واقعات میں بھی بی جے پی اور مودی سرکار کا ہاتھ دیکھتے ہیں؟ کیا دہائیوں سے جن شعلوں کو ہوا دی جارہی تھی؟ مساجد کے منبر اور مدارس کا بے جا استعمال کیا گیا، تبلیغ اسلام کی جگہ تبلیغ مسالک نے لے لی، اللہ کے گھر کو بھی مسلکی خانوں میں بانٹ دیا گیا۔ منافرت کا زہر ملّی اتحاد کی جڑوں میں ڈال کر انھیں کھوکھلا کیا گیا۔ اب اس بحث کا دائرہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا تک پھیل گیا۔ پرنٹ میڈیا کا ایک حصہ تو پہلے ہی اس کارخیر میں شریک ہے اور اس کے ثمرات سے مستفید بھی ہورہا ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر کبھی یہ سوچنے کی زحمت کی ہے کہ آخر یہ اسلام کی کون سی خدمت ہے، مسجدوں پر تالہ بندی منظور ہے، نمازیوں سے محروم کرنا گوارا ہے، مقدمات کے لئے تیار ہیں، ایک دوسرے کا سر پھاڑنے سے گریز نہیں، جیلوں میں جانا اور ضمانت کے لئے دردر کی ٹھوکریں کھانا قبول ہے، گریبانوں سے کھیلنے اور داڑھیوں پر ہاتھ ڈالنے میں کوئی تکلف نہیں، لیکن مسلک کی شکست کسی بھی حالت میں برداشت نہیں۔ آخر امامت کے جھگڑے یا مسجدوں پر قبضے کی لڑائی کی کس کے لئے؟ جب آگ پھیلتی ہے تو وہ کسی کا مذہب اور عقیدہ، مسلک پوچھ کر نہیں جلاتی جو راستہ میں آتا ہے اسے خاک کردیتی ہے۔ نیچے دو الگ مقامات کی خبر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلکی منافرت کی جس کھیتی کو نہ جانے کہاں کہاں سے کھاد فراہم کی جارہی تھی اب وہ تیار ہوگئی ہے۔
اڑیسہ کے جلیشور ضلع کی جامع مسجد میں امامت پر جھگڑے کی وجہ سے دو مسلکوں کے درمیان جم کر مارپیٹ ہوئی، دو درجن سے زائد فرزندان توحید شدید زخمی ہوگئے۔ مسجدوں میں اذان دینے اور نماز ادا کرنے پر پابندی لگادی گئی ہے۔ پولیس تعینات ہے، کسی کو بھی مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ جھگڑے کے دوران پتھراؤ ہوا، کئی نمازیوں کے سر پھٹے۔ سارے تنازع کی واحد وجہ دو مختلف مسلکوں سے تعلق رکھنے والے فرزندان توحید مسلکی بنیاد پر امامت دینے پر ایک دوسرے کے سامنے آگئے۔ پولیس کے سامنے ہی ایک دوسرے پر ہاتھ آزمائے گئے۔ مسجد میں تعمیراتی کام کی وجہ سے اینٹ پتھر بڑی تعداد میں موجود تھے، دونوں طرف سے ایک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔ اب معاملہ عدالت میں ہے، پورے شہر کے حالات کشیدہ ہیں، کوئی بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ مسئلہ مسلک کی بالادستی اور تسلط کا ہے۔ یہ خبر گیارہ مارچ کے اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ اب یہ مسجد اذان اور نماز سے محروم ہے۔
اب ایک خبر 11مارچ کے انڈین ایکسپریس کی ملاحظہ کریں۔ اس کا تعلق بنارس کے فرزندان توحید سے ہے۔ دو الگ مسلک ماننے والوں کے درمیان امام کی تقرری پر شدید تنازع کے بعد بنارس کی مقامی انتظامیہ نے مسجد پر تالہ لگادیا ہے۔ خبر کے مطابق جب نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے ایک مسلک کے ماننے والے مسجد پہنچے تو مین گیٹ پر تالہ لگا تھا۔ انھوں نے دوسرے مسلک کے ماننے والوں پر الزام عائد کیا۔ امام کے معاملے پر گزشتہ سال جولائی سے تنازع ہے، جب مولانا صدر الہدیٰ الٰہی اللہ کو پیارے ہوگئے اور ان کی جگہ مولانا معروف کو امامت کی سعادت ملی، تنازع اس بات پر ہوا کہ مرحوم مولانا جس مسلک کے ماننے والے تھے نئے امام کو بھی اسی مسلک و فکر والا ہونا چاہئے۔ ٹکراؤ اور لڑائی کے اندیشہ سے مقامی انتظامیہ نے جمعہ کے روز مسجد کا صدر دروازہ سیل کردیا۔ اے ڈی ایم دونوں اہل مسلک کو 18اپریل کو دفتر میں طلب کرکے سمجھانے بجھانے اور کسی حل پر پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ آدم پور پولیس اسٹیشن کے آفیسر رام کمار یادو نے تالہ لگانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جب فریقین میں اتفاق ہوجائے گا تبھی سیل کھولی جائے گی۔ اے ڈی ایم دندھاوسوانی کا کہنا ہے کہ دونوں گروپوں کے نمائندوں سے ملاقات کے بعد ہی اگلا قدم اٹھایا جائے گا۔ فی الوقت مسجد اپنے مصلّیوں سے محروم ہے۔ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مسجد میں تالہ لگنا، نماز کا نہ ہونا منظور ہے لیکن مسلک کی ہار منظور نہیں اور ہم ہیں کہ آثار قدیمہ کے تحت بند پڑی مساجد کا تالہ کھلوانے اور نماز کی اجازت دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور تحریک چلاتے ہیں۔ دوسری طرف جو مساجد اذان و نماز کے لئے آزاد ہیں ان پر تالہ اور سیل لگنے کو قبول کرتے جارہے ہیں۔ یہ عجیب و غریب تضاد اور مذاق ہے۔ اس سے قبل چھتیس گڑھ کی ایک مسجد کے حوالہ سے دو مسالک کے درمیان مارپیٹ، پتھراؤ اور ہاتھاپائی کی خبر آئی تھی۔ وہاں ایک مسلک والوں نے دوسرے مسلک کے ماننے والوں پر انھیں برا بھلا کہنے اور مذہبی اشتعال انگیزی پھیلانے کا الزام لگایا۔ رام پور میں ایک مسجد پر قبضہ کرنے کے لئے گھنٹوں فائرنگ کا المناک واقعہ پیش آیا تھا، پی اے سی نے مورچہ لے کر دونوں مسلک والوں پر قابو پایا تھا۔ ایسے واقعات شرمسار کرتے رہتے ہیں۔
ایسے حالات میں جب مسلم پرسنل لا کے سر پر تلوار لٹکی ہوئی ہے، تہذیبی یلغار جاری ہے، مختلف محاذ پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے، مسلمانوں کی تہذیبی و ثقافتی اور مذہبی بقا خطرے میں ہے، سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے اور ہم مسلکی منافرت میں الجھ کر ہنسنے اور مضحکہ اڑانے کا موقع دے رہے ہیں۔ مسلک کی بنیاد پر میت کو قبر سے نکال کر پھینک دیا جاتا ہے، یہ ہم جا کہاں رہے ہیں اور اسے کوئی روکتا کیوں نہیں؟ علماء خاموش کیوں ہیں؟ مسلم تنظیمیں کر کیا رہی ہیں؟ باہمی اخوت کی فضا پیدا کرنے کے اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جاتے۔ ایک چھت کے نیچے بیٹھ کر فروعی امور کو حل کیوں نہیں کیا جاتا؟ یہ اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی!!(ملت ٹائمز)
qasimsyed2008@gmail.com
(مضمون نگار سینئر صحافی اور روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ہیں )

SHARE