خوفناک تصویر ــ افسوسناک اقدامات

پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی

عالم اسلام اس وقت بحران کا سامنا کررہا ہے۔ ثقافتی ، معاشی اور تعلیمی میدان میں شدید پسماندگی کا شکار ہے۔ اسلام دشمن قوتیں چہار جانب سے مسلمانوں پر حملہ آور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بیسوی صدی میں مسلمانوں کے خلاف صلیبی اور صہیونی قوتوں نے جو منصوبہ بند سازشیں رچی تھیں اس پر مسلسل عمل جاری ہے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد 1950 پچاس کی دہائی میں مسلمانوں نے خود کو کسی حد تک سنبھالنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ کئی ممالک نے اقتصادی سطح پر ترقی حاصل کی۔ عالمی سطح پر کئی عظیم مسلم قائدین پیدا ہوئے۔ انہوں نے دشمن کی سازشوں کو سمجھتے ہوئے ان سے مقابلہ کرنے کی حکمت عملی تیار کی۔ ایک نئی صف بندی کا اعلان کیا ۔ امریکہ۔ یورپ۔ برطانیہ اور روس جیسی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے عالم اسلام کو متحد کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ شاہ فیصل ۔ جنرل ضیاءالحق ۔ صدام حسین ۔ معمر قذافی سمیت کئی حکمرانوں نے عالم اسلام کے زوال کو عروج میں تبدیل کرنے کا روڈ میپ تیار کیا لیکن دشمنوں نے ان کے بلند عزائم کا اندازہ لگاتے ہوئے انہیں وقت سے پہلے ختم کرنے کا منصوبہ بنالیا اور مختلف بہانوں سے ان سب کا قتل کرادیا گیا۔ نائن الیون کا ڈرامہ کرکے مسلمانوں پر حملہ کرنے کی راہ تلاشی گئی۔ دہشت گردی کی اصطلا ح گڑھ کر مسلمانوں کے قتل عام کا جواز پیدا کیا گیا ۔ جمہوریت کا نعرہ لگا کر مشرق وسطی کے سکون کو تباہ کرنے کی پلاننگ ہوئی ۔ آج پوری دنیا میں مسلمان پریشان حال ہیں جہاں مسلمانوں کی اپنی حکومت ہے ، اپنی زمین ہے ۔ قرآن کا نظام نافذ ہے وہاں بھی مسلمان آلام و مصائب کے شکار ہیں۔ آپس میں دست گریباں ہیں۔ جہاں وہ اقلیت میں ہیں وہاں بھی اکثریتی طبقہ کے مظالم کا سامنا کررہے ہیں ۔فلسطین ۔ شام ۔افغانستان۔ لیبیا۔ عراق۔ پاکستان۔ اردن۔ میانمار ۔ ہندوستان۔ نائیجریا۔ صومالیہ سمیت دنیا کے ہر کونے اور خطے میں مسلمان ظلم کی چکی میں پسے ہوئے ہیں ۔ دنیا کی تمام طاقتوں اور حکومتوں کی نظر میں بھی اسلام کھٹک رہاہے۔ انہیں دل سے مسلمانوں کا وجود گورا نہیں ہے۔ پوری دنیا نظریاتی طور پر اسلام کے وجود کو مٹانے کیلئے کوشاں ہیں۔ اسلامی شعائر اور قرآنی نظام کے خلاف ان کی مشنری مصروف عمل ہے۔ یہ دنیا کی تصویر ہے۔ مسلمانوں کی سنگین صورت حال ہے۔ مسلمانوں سے ان کا وجود، ان کی زمین، ان کی ثقافت چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔
عالمی سطح پر جس طرح مسلمانوں کو تنہا کیا گیا ہے۔ ان پر چہار جانب سے یلغاریں ہوری ہیں اس کا تقاضا تھا کہ دنیا کے اہم مسلم لیڈران سر جوڑ کر بیٹھتے ۔ سبھی ایک مشترکہ ہدف بناتے ۔ اسلام دشمن طاقتوں کی شناخت کرکے ان سے نمٹنے کی منصوبہ بند ی کرتے۔ فلسطین کو یہودی قبضہ سے آزاد کرنے کیلئے ایک مضبوط موقف اختیار کرتے۔ شام ۔افغانستان اور عراق میں امریکہ اور روس کی مداخلت روکنے کی تحریک چلاتے لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے۔ ان سب مقاصد کیلئے اوآئی سی نام کی ایک تنظیم بنی ہوئی ہے جس میں تمام مسلم ممالک شریک ہیں۔ عرب لیگ موجود ہے لیکن ان سب کا کام نششتن ۔ برخاستن اور گفتن سے زیادہ نہیں ہے ۔
عالم اسلام کے عظمت رفتہ کی بحالی ، شان و شوکت کی بازیافت ، جنگی قوت کے حصول ، طاقتور فوج کی تشکیل اور دنیا میں امن وامان کے قیام کے بجائے مسلم حکمرانوں کی تمام تر توجہ اپنے ملک کے سماجی نظام کو امریکہ کی طرح بنانے ، لبرلزم کو فروغ دینے اور اسلامی نظام کے خلاف اقدامات کرنے پر مصروف ہے ۔ سعودی عرب کو دیکھ لیجئے۔ اسے مرکزیت کی اہمیت حاصل ہے ، شاہ سلمان کے بادشاہ بننے کے بعد 34 ممالک پر مشتمل فوج کی تشکیل ہونے سے ایک امید بھی جگی تھی۔ ولی عہد محمد بن سلمان کے ویزن 2030 کا مطلب بھی انتہائی مثبت اخذ کرتے ہوئے یہ کہا گیا تھا کہ اقتصادی سطح پر ترقی ہوگی لیکن عمل کچھ اور ہورہا ہے ۔ سماجی شعبہ میں محمد بن سلمان اسے امریکہ اور یورپ بنانے کیلئے یکے بعد دیگر اقدامات کرتے جارہے ہیں ۔ سماجی آزادی میں دنیا کی ہمسری کا دعوی کرنے کیلئے خواتین کو زیادہ مواقع اور بڑے کردار کے ساتھ معاشرے میں پیش کیا جارہا ہے۔ ان کو اب نجی اور پبلک سیکٹر میں اعلی عہدوں پر بطور زینت فائز کیا جا رہا ہے۔خواتین اب بغیر کسی سرپرست کے خود آزادی کے ساتھ سفر کر سکتی ہیں۔ان کو ڈرائیونگ کرنے کی اجازت بھی مل چکی ہے۔ ان کے لئے فٹبال اسٹیڈئم کھول دئے گئے ہیں ۔آوٹ ڈور کھیلوں میں شرکت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ آرٹ، موسیقی، سنیما پر شاہ سلمان کی سب سے زیادہ توجہ ہے۔ حال ہی میں سعودی فلم کونسل کو لانچ کیا گیا ہے۔ رمضان سے پہلے سنیما ہال کی شروعات بھی ہوجائے گی جہاں مردو زن ایک ساتھ بیٹھ کر فلم کا لطف لے سکیں گے ۔ آئندہ پانچ سالوں میں 40 سو سنمیا گھر کھولے جائیں گے اور یہ ذمہ داری ایک امریکی کمپنی کے سپرد کی گئی ہے ۔ سیاسی سطح پر شہزادہ محمد بن سلمان کی سرگرمیاں بھی انتہائی تشویشناک ہیں ۔ گذشتہ دن امریکی سفر کے دوران وال اسٹریٹ جرنل کو انہوں نے جو انٹرویو دیا ہے اس کی باتوں پر اگر وہ بادشادہ بننے کے بعد عمل کرتے ہیں تو امت مسلمہ کو خود اپنے گھر میں ایک نئے طوفان کا سامنا کرنا پڑے گا ۔اسرائیل سے بڑھتی قربت ۔خفیہ تعلقات کا قیام اور ایران کو نیچا دکھانے کیلئے مسجد اقصی کو قربان کرنے کی یہ پالیسی امت مسلمہ فلسطین سمیت پوری مسلم دینا کے پیٹ میں خنجر گھوپنے کی مترداف ہوگی۔
سعودی معاشرہ میں تبدیلی کا یہ فیصلہ کتنا درست ہے اور کتنا نہیں ، یہ اسلامی انتہاء پسندی کے خلاف جنگ ہے، روشن خیال اسلام کی نمائندگی ہے یا پھر ٹرمپ کے ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جارہا ہے جسے انہوں نے صدر بننے کے فوری بعد سعودی عرب پہونچ کر پیش کیا تھا جو کچھ بھی ہے اس کا فیصلہ اور تجزیہ خود وہاں کی عوام اور علماء بہتر انداز میں کرسکتے ہیں ۔تاہم دنیا بھر کے مسلمان ان اقدامات سے شدید مایوس ہیں۔ موجودہ صورت حال میں اس تبدیلی اور سماجی ہم آہنگی کے بجائے اس بات کے خواہش مند ہیں کہ سعودی قیادت عسکری میدان میں امریکہ سے ہمسری کرے ۔ثقافتی اور سماجی برابری کے بجائے طاقت اور قوت کے حصول میں ان کی برابری کرے ۔امریکی مظالم سے مسلمانوں کو نجات دلانے کیلئے ایک متبادل اور طاقتور ملک بن کر ابھرے ۔ اسلام کا مرکز اور مسلمانوں کی اولین ریاست ہونے کی حیثیت سے عالم اسلام کی قیادت کا فریضہ انجام دے ۔ مسجد اقصی کو یہودی چنگل سے آزاد کرائے ۔ شام ،عراق، افغانستان، میانمار سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کا قتل عام بند کرائے ۔ ترکی کو اپنے لئے آئیڈیل بنائے جس کے ایجنڈے میں فلسطین کی آزادی ۔ مسلمانوں کی سربلندی ۔ اسلام پسندوں کی معاونت ۔ مظلوموں کی حمایت اور ظالموں کی مخالفت سر فہرست ہے ۔ اکیسویں صدی میں اسلام پر ہونے والی یلغار کا مقابلہ کرنے کیلئے اس نے لبرلزم کو فروغ دینے اور روشن خیالی کو اپنانے کے بجائے معاشی ، عسکری اور تعلیمی میدان میں توجہ دی ہے ۔
دنیا کے 57 مسلم ممالک میں ترکی ۔سعودی عرب ۔پاکستان اور ایران کو نمایاں اہمیت حاصل ہے ۔دنیا بھر میں ہونے والے مظالم اور تشدد کے دوران مسلمانوں کو یہ امید ہوتی ہے کہ یہ حکمران مذہبی رشتہ ہونے کی بنیاد پر مسلمانوں کی مدد کیلئے آگے آئیں گے ۔ ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھائیں گے ۔ دہشت گردانہ اور جابرانہ نظام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرکے باغیرت حکمراں ہونے کا ثبوت پیش کریں گے۔ لیکن حقیقت میں یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوپارہا ہے ۔ سعودی عرب کی تمام تر توجہ سنیما، خواتین کی آزادی، لبرلزم کے فروغ اور یورپی معاشرہ کو اپنانے پر مبذول ہے ۔ پاکستان آپسی اختلاف میں اتنا الجھا ہوا ہے کہ کسی اور طرف اسے دیکھنے کی فرصت نہیں مل پارہی ہے ۔ ایران اب تک مذہبی عصبیت اور شیعت کے فروغ میں پیش پیش ہے ۔ترکی واحد ایسا ملک ہے جس کے بارے میں فحریہ طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسے عالم اسلام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی فکر لاحق ہے ، اسی خطوط پر وہ گامزن ہے ۔ طیب اردگان ترکی سمیت پور ی دنیا کے مسلمانوں کو احساس کمتری سے نکالنے کر، ان کی کھوئی شان و شوکت واپس دلانے اور مسلمانوں کو عظیم قوم بنانے کی پالیسی پر عمل پیر اہیں ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں