مسلم اداروں کے وجود کی جنگ: اکابرین اصاغرین کو ساتھ لے کر عوامی تحریک کی زمین تیار کریں

خاص مضمون :قاسم سیّد
ملت ٹائمز
مسلمانوں کی قائم کردہ دو یونیورسٹیوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اقلیتی کردار ختم کرنے کی سمت حکومت کی فاتحانہ پیش قدمی نے ہر اس شخص کو مضطرب کردیاہے جس کے سینہ میں دل ہے اور اس میں ملی مسائل پر رہ رہ کر درد اٹھتا ہے۔ وہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کی نئی سیریز پر بھی پریشان ہو اٹھتا ہے۔ مسلم جماعتوں نے حسب دستور ان مسائل پر سخت اور تیز و تند بیانات دے کر اور قرار دادیں منظور کرکے فرض کفایہ ادا کردیا۔ سوشل میڈیا پر دو طرفہ بحث و مباحثہ جاری ہے۔ سیاسی پارٹیاں دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماضی کی طرح تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ اور ایک خاص حد سے آگے نہیں جانا چاہیں گی۔ مسلم ممبران پارلیمنٹ کی اکثریت اپنے مسائل میں گم ہے، وہ خود کو مسلم نمائندے کی بجائے پارٹی وہپ سے وفاداری پر زیادہ یقین رکھتے ہیں اور اتنا ہی بولتے ہیں جتنا پارٹی اجازت دیتی ہے، ورنہ وہ چاہیں تو کسی بھی مسئلہ پر پارلیمنٹ کی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک دو کو چھوڑ کر سب خانہ پری کرتے ہیں اور عام شخص ان کے منھ سے بول سننے کو ترستا رہتا ہے۔ شاید وہ ان ممبران پارلیمنٹ کی فہرست میں نام لکھانا پسند کرتے ہیں جو سب سے کم بولتے ہیں۔ دو علمائے کرام اپنی پارٹیوں کے نمائندے کے طور پر موجود ہیں مگر ان کی حق گوئی و بے باکی کے مظاہر خواب بن کر رہ گئے ہیں۔ امید تھی کہ عالم دین ان تقاضوں کی پاسداری کریں گے، لیکن انہوں نے بھی مایوس کیا۔ ایک دلت کی خود کشی پر دوڑ کر حیدرآباد چلے جانے والے یوراج نے ابھی تک اقلیتی کردار پر خطرے کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا۔ کانگریس کے لئے مسلمان نے اپنی جان ، مال سب قربان کردیا، اس کے دئے زخموں کو مرہم بھی نصیب نہیں ہو رہا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نام میں کپل سبل کا رول سب کو پتہ ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے قتل کی چارج شیٹ سے سب واقف ہیں۔ حکومت تک پہنچنے کے تمام دروازے مسلم قیادت نے بند کردیئے ہیں اور اجتماعی جدو جہد اور مشترکہ تحریک کا ابھی تک کوئی خاکہ سامنے نہیں آیا ہے۔ اسی دوران مدارس پر بھی نگاہ کرم ہو رہی ہے۔ انہیں 26 جنوری اور 15 اگست پر قومی پرچم لہرانے کے ساتھ حب الوطنی کے اسباق پڑھانے اور مجاہدین آزادی کے کارناموں سے واقف کرانے کی تاکید کردی گئی ہے جیسے کہ وہ جانتے نہیں یا اس جدو جہد میں شریک نہیں تھے یا وہاں یہ سب پڑھایا نہیں جاتا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹھنڈے پیٹوں سب کچھ برداشت کیاجائے گا، کیا لڑائی صرف عدالتوں میں لڑی جائے گی، اس معاملہ میں ہمارا ٹریک ریکارڈ بہت اچھا نہیں ہے۔ شاہ بانو کا تعلق ہو یا بابری مسجد کا ہمارے مقدر میں ہار آئی ہے یا تو اچھے وکیل نہیں تھے یا انہوں نے چابکدستی سے مقدمہ نہیں لڑا۔ کہنے کو بہت کچھ ہے مگر یہ موقع نہیں ہے۔ ظاہر ہے معاملہ سپریم کورٹ میں ہے تو جواب بھی وہیں دینا ہے۔ وکلا کو اپنی مہارت دکھانی ہے، علی گڑھ نے تیاری کرلی ہے، جامعہ کو فیصلہ کی کاپی کا انتظار ہے۔ یہ ایسے حالات میں ہوا ہے جب دونوں وائس چانسلر صاحبان وزیر اعظم کو اپنے ادارے میں بلانا چاہتے ہیں۔ حکومت نے دو ٹوک کہہ دیا ہے کہ اقلیتی کردار کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ بات معمولی عقل رکھنے والا بھی سمجھتا ہے کہ غالب اکثریت کے قبضہ میں یرغمال جمہوریت کا مزاج ڈکٹیٹرانہ ہوجاتا ہے۔
ملت اسلامیہ ہند کو صبر و تحمل کے ساتھ پرامن جمہوری عوامی تحریک چلانے کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنا پڑے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اپنی مکین گاہوں، عافیت کدوں، خانقاہوں، حجروں اور ڈرائنگ روم سے نکل کر تمام جماعتی و مسلکی تعصبات و ترجیحات سے اوپر اٹھ کر جسد واحد بن کر مسلم اداروں کو بچائیں۔ ابھی یونیورسٹیوں پر ہاتھ ڈالا ہے، مدارس پر بھی دست شفقت دراز ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ جو اشارے مل رہے ہیں وہ تشویش بھرے ہیں۔ ہمارے اکابرین اپنے اصاغرین کو ساتھ لے کر عوامی تحریک کی زمین تیار کریں، افہام و تفہیم کا ماحول بنائیں۔ ضرورت پڑے تو تعلیمی اداروں کے تحفظ کے لئے سرکار سے بات کرنے کا متبادل بھی کھلا رکھیں۔ گستاخ رسولﷺ کملیش تیواری کے خلاف احتجاج کے دوران مالدہ اور پورنیہ میں جو کچھ ہوا اس سے سبق لیا جائے۔ ملت مولانا رابع حسنی ندوی، مولانا ارشد مدنی، مولانا سالم قاسمی، امام احمد بخاری، مولانا جلال الدین عمری، مولانا محمود مدنی، مولانا ولی رحمانی، مولانا ابوالقاسم نعمانی وغیرہم جیسے اکابرین، مسلم مجلس مشاورت، مسلم پرسنل لا بورڈ جیسے نمائندہ اداروں کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ یہ لڑائی عدالت کے ساتھ ہر محاذ پر چھیڑنی ہوگی۔ وقت بہت کم ہے، پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن سر پر ہے۔ اس دوران ممبران پارلیمنٹ سے ملاقات کرکے موقف سمجھانا اور ملک میں ماحول کو سازگار کرنا ہوگا۔ خود کو سیکولر کہنے والی پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کا بھی امتحان ہے۔ برادران وطن کے سامنے بھی بات رکھنی ہوگی تاکہ مضبوط رائے عامہ تیار کرکے حکومت کو بنیادی آئینی حقوق پر ہاتھ ڈالنے سے روکا جاسکے۔
(مضمون نگار روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ہیں )

SHARE