مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
اسلام میں تعلیم کاحصول مردو عورت کے لیے فرض قرار دیا گیاہے ، اس معاملہ میں جنس کے اعتبار سے کوئی تفریق نہیں کی گئی، اسلام نے علم کو اللہ کی معرفت اور ترقی درجات کا سبب بتایاہے، خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں، قرآن کریم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض میںتعلیم کتاب و حکمت کو شامل کیاگیا، اور اعلان کیا گیا کہ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہوسکتے، قرآن کریم کے نزول کا آغاز بھی ” اقراء “ سے ہوا جس کے معنی پڑھنے کے آتے ہیں۔
ان احکام و ہدایات کی روشنی میں امارت شرعیہ نے اپنے قیام کے ابتدائی زمانہ سے تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوزرکھی اور امارت شرعیہ کے دستور میں امیر کے فرائض میں زبانی اور کتابی ہر قسم کی تعلیم کوشامل کیاگیا۔ امارت کی پرانی فائل دیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ تین سال کے قلیل عرصہ میں صرف پلاموں میں ۲۲ مکاتب قائم کیے گئے اوراگلے پانچ سال میں اس کی تعداد سوسے متجاوز ہوگئی، بعد کے دنوں میںان علاقوں میں جہاں غریبی کی وجہ سے تعلیم کا کوئی نظم ممکن نہیں ہورہاتھا، امارت شرعیہ کے بیت المال سے امدادی رقوم ماہ بہ ماہ معلمین کے وظیفہ کے لیے منظور کی گئیں ، اور پابندی سے اسے ارسال کیاجاتا رہا۔ یہ سلسلہ ۶۹۹۱ء تک کلی طور پر جاری رہا۔ اور اب بھی بیت المال سے مکاتب کے معلمین کو ماہانہ وظائف دیے جاتے ہیں۔ذیلی دفاتر میں جو مکاتب چلتے ہیں ان کی تنخواہ بھی بیت المال سے ادا کی جاتی ہے ۔
لیکن تجربہ سے یہ بات محسوس ہوئی کہ اس شکل میںتعلیم کے معیار پر قابو رکھنا ممکن نہیں، معلم کو پورا وظیفہ دینے کی صورت میں ان کا رابطہ گاﺅں کے لوگوں سے کٹ جاتا تھا۔ اور وہ اپنے کو سرکاری ملازم کی طرح سمجھنے لگتے تھے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ تعلیم کامعیار باقی نہیں رہتا، وقت کی پابندی نہیں ہوتی او رتعلیم کے دنوں میں غیر حاضری کاتناسب بھی بڑھ جاتا ، اس احساس کے نتیجہ میں مجلس شوریٰ منعقدہ ۲۲ دسمبر ۶۹۹۱ء نے مختلف علاقوں میں دینی مکاتب اپنی نگرانی میں کھولنے کافیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی دشواری معیاری اساتذہ کی فراہمی تھی، اچھے استاد کے بغیر اچھی تعلیم کا تصور دیوانے کے خواب کی طرح ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں ہوا کرتی۔ چنانچہ اچھے اساتذہ کی فراہمی کے لیے امارت شرعیہ نے معلمین کا تربیتی کیمپ لگانے کی تحریک شروع کی ،یہ تربیتی کیمپ کم سے کم پانچ دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن کے ہوا کرتے ہےں۔سال میں عموما دو تربیتی کیمپ لگا کرتے ہیں، اور الگ الگ حلقوں میں ان کا انعقاد کیا جاتا ہے، اب تک بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ میں ایک سو سے زائد تربیت کیمپ لگائے جاچکے ہیں، ہر کیمپ میں سوسے ڈیڑھ سو معلمین نے استفادہ کیا، اور اب وہ امارت شرعیہ کے ذریعہ چلائے جارہے مکاتب میں تعلیم وتربیت کے فرائض انجام دے رہے ہیں ان کی تعلیمی نگرانی کے لیے نگراں مقرر ہےں۔ جو بار ی باری سے مکاتب کا معائنہ کرتے رہتے ہیں، ان معلمین کا رشتہ بچوں کے گارجین سے بھی مضبوط رہے اور وقت کی پابندی کے ساتھ تعلیم جاری رہ سکے۔ اس کے لیے گاؤں کی سطح پر ایک تعلیمی کمیٹی ہوتی ہے، جس کی حیثیت ہمہ وقت نگراں کی ہوتی ہے،اس طرح تعلیم کے معیار کی برقراری کے ساتھ گاؤں والوں کی دلچسپی بھی اس تعلیمی ادارہ سے قائم رہتی ہے ، نگرانی کے ساتھ گاؤں والے اساتذہ کے وظیفہ میں بھی جزوی تعاون کرتے ہیں۔
ان مکاتب کے لیے طلبہ کی نفسیات اوران کی کم عمری کا خیال رکھتے ہوئے ہلکا نصاب تعلیم تیار کیاگیا ہے، تاکہ طلبہ کی دلچسپی برقرار رہے، اور ان پر کتابوں کا غیر معمولی بوجھ جیسا کہ پرائیویٹ اسکولوں اور کنوینٹ کی تعلیموں میں پڑا کرتاہے، نہ پڑے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ جدید طریقہ تعلیم کے اعتبار سے بچوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کرتعلیم کا نظم کیاجائے۔جو لڑکے اسکول سے جڑے ہوتے ہیں، ان کے لیے گرمیوں کی چھٹی میں دینی تعلیم کا ووکیشنل کورس چلایا جاتا ہے اور اس میں ائمہ مساجد نیز دوسرے علماءکی رضا کارانہ خدمات حاصل کی جاتی ہے ۔
امارت شرعیہ کے دینی مکاتب میں چار سے لے کر آٹھ سال تک کے بچے اوربچیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں بچیوں کے لیے الگ سے کوئی نظم نہیں ہوتا، اورعملاً ان کی تعلیم اس سطح تک مخلوط ہوتی ہے، اس سے آگے کی تعلیم کے لیے لڑکیوں کے مخصوص تعلیمی ادارے ہیں جن کی تعداد یقینا آبادی کے اعتبار سے بہت کم ہے، مگر ان میںوہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکتی ہےں، اس سلسلہ میں انگریزوں کے دور میں ابتدائی تعلیم کے لیے پردہ نشیں اسکول کا نظم تھا جواب ایک دو کی تعدادمیں ہی پورے بہار میں باقی ہے، اوربقیہ اسکول آزادی کے بعد جنرل اسکول قرار دیے گئے ۔ امارت شرعیہ کی سوچ یہ ہے کہ یہ ایک مفیدسلسلہ تھا، جس سے بچیوں کی تعلیم کامناسب نظم ہوپاتا تھا ہمہ گیر تعلیمی مہم کے تحت اگر یہ سلسلہ پھر سے جاری ہوجائے ،تو مسلم بچیوں کی تعلیم کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہوجائے گا۔
امارت شرعیہ کے معلمین سے کوئی غیر تعلیمی خدمت نہیں لی جاتی۔ اس طرح سبق کا تسلسل برقرار رہتاہے اور لڑکوں کی دلچسپی میں کمی نہیں آتی۔ جب کہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو مختلف موقعوں سے غیرتدریسی کاموں میں استعمال کیاجاتاہے،جس کی وجہ سے تعلیم کا نظام برقرار نہیں رہ پاتا۔ اور طویل چھٹیوں کی وجہ سے لڑکوں کی دلچسپی تعلیم سے کم ہوجاتی ہے، میری رائے ہے کہ ہمہ گیر تعلیمی مہم سے جڑے ہوئے سبھی اساتذہ کو غیر تدریسی کاموں سے الگ رکھاجائے، تاکہ وہ پوری دلجمعی کے ساتھ اپناسارا وقت تدریسی کاموں پر لگائیں۔
گذشتہ چند دہائیوں میں تعلیم کے میدان میں امارت شرعیہ کے کاموں میںبڑی وسعت ہوئی ہے ، مکاتب میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد جو بچے مدارس کا رخ کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لیے امارت شرعیہ نے شعبہ تحفیظ القرآن، دار العلوم الاسلامیہ، افتا وقضاءکی تعلیم کے لئے المعہد العالی، مدارس اسلامیہ کے نظام کو مستحکم ، مربوط اور نصاب تعلیم نیز نظام امتحان میں یکسانیت پیدا کرنے کے لئے وفاق المدارس اسلامیہ قائم کیا ہے ، اس طرح امارت شرعیہ کا تعلیمی نظام بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ اعلیٰ دینی تعلیم ، دورہ ¿ حدیث افتاءوقضا تک مشتمل ہے اور اس سے بڑی تعداد میں مختلف حلقوں اور علاقوں کے مسلم طلبہ فائدہ اٹھا رہے ہیں، جو طلبہ مکاتب کے بعد اسکول کا رخ کرنا چاہتے ہیں، ان کے لئے قاضی نور الحسن میموریل اسکول پھلواری شریف ، مولانا منت اللہ رحمانی اردو اسکول آسنسول ، امارت پبلک اسکول گریڈیہہ اور رانچی کام کر رہا ہے ،ا ن اداروں میںلڑکے لڑکیوں کا الگ الگ انتظام ہے، تاکہ مخلوط تعلیم کے اخلاقی فساد وبگاڑ پر قابو پایا جا سکے ، امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم کی فکر مند ی اسی سلسلے میں مثالی ہے اور ان اداروں کے کاموں کو مفید بنانے کے لئے ان کی ہدایات بہت سخت ہیں، جس سے کام کو صالح اور مثبت رخ دینے میںبڑی مدد مل رہی ہے ۔
مدارس واسکول کی رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد فکر معاش مسلمانوں کے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے ، اس کے لیے امارت شرعیہ نے سات سے زائد ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ اور پارا میڈیکل کے کورس کے لیے ادارے کھولے ہیں، ایک ادارہ خالص لڑکیوں کے لیے ہے ، امارت شرعیہ کی اس تعلیمی جد وجہد سے ملت کو بڑا فائدہ پہونچ رہا ہے ، اور ہر سطح پر رجال کار تیار ہو رہے ہیں، ٹیکنیکل اداروں سے تعلیم حاصل کر کے بہت سے طلبہ ہندوستان میں اور بہت سارے غیر ممالک میں اپنی معاش حاصل کر رہے ہیں، جس سے مسلمانوں کی اقتصادی پستی دور کرنے میں مدد ملی ہے اور امارت شرعیہ کے مخصوص تربیتی نظام کی وجہ سے ان کے اخلاق وکردار بھی دیگر تعلیمی اداروں کی بہ نسبت اچھے ہیں، جس کا اچھا اثر سماج پر پڑ رہا ہے۔
( مضمون نگار معروف عالم دین اور امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے نائب ناظم ہیں )