پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی اور عمران خان کی جیت کے بعد سرحد کے دونوں پار یہ چرچا ہے کہ اب ہندوپاک کے رشتے بہتر ہوسکتے ہیں ۔پاکستان کے متوقع وزیر اعظم عمران خان اور ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی تلخیاں ختم کرکے امن، محبت اور سلامتی کو فروغ دینے کے خواہش مند ہیں ، یہ دونوں جنگ کے خلاف ہیں ، سرحد پر فائرنگ انہیں منظور نہیں ہے جبکہ ان دونوں لیڈروں کی جیت اور وزرات عظمی تک کے سفر میں اشتعال انگیز اور ایک دوسرے کے ملک کے خلاف کی گئی زہر آلود تقریر کا ہی دخل ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014 کی انتخابی مہم میں کہا تھاکہ ہم پاکستا ن کو اس کی زبان میں جواب دیں گے ۔ کشمیر میں ایک فوجی کے بدلے پاکستان کے دس فوجیوں کا سرقلم کریں گے ۔ پاک مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرائیں گے ۔ عمران خان نے بھی انتخابی مہم کے دوران اسی طرح کی تقریر کی تھی ، ہندوستان کے خلاف زہر اگلنے اور نریندر مودی کو گالیاں دینے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، کشمیر کو ہندوستان سے آزاد کرانے کا وعدہ کیا تھا ، جس طرح مودی نے کانگریس پر پاکستان کیلئے کام کرنے اور ملک سے غداری کا الزام عائد کیا تھا ایسا ہی الزام عمران خان نے بھی سابق وزیر اعظم نواز شریف پر لگایا ۔ یہ سچ ہے کہ انتخابات کے دوران اس طرح کی باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتاہے ،عوام کو لبھانے کیلئے اشتعال انگیز تقریر کی جاتی ہے، اقتدار ملنے کے بعد طے شدہ پالیسی کو عملی جامہ پہنانا ضروری ہوتا ہے اور اسی لئے عمران خان نے جیتنے کے بعد اپنے پہلے خطا ب میں ہی ہندوستان سے بہتر تعلقات بنانے کی خواہش کا اظہار کیا ، انہوں نے کہا کہ ہندوستان ایک قدم بڑھائے گا تو ہم دو قدم بڑھائیں گے ۔ ہندوستان نے بھی خیر مقدم کیا وزیر اعظم نریندر مودی نے فون کرکے مبارکباد پیش کی اور اب یہ خبر بھی گردش کررہی ہے کہ عمران خان اپنی حلف برداری تقریب میں نریندر مودی کے ساتھ سارک ممالک کے تمام سربراہوں کو مدعو کررہے ہیں ۔ پی ایم مودی دعوت ملنے کے بعد پاکستان جائیں گے یا نہیں یہ فیصلہ آئندہ چند دنوں میں ہوجائے گا لیکن ابھی تک دعوت ملنا بھی یقینی نہیں ہے لیکن کیا دونوں ملکوں کے درمیان رشتے بہتر ہوجائیں گے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب میں ایشاء کے کئی سینئر تجزیہ نگار ”ہاں“ کہنے سے گریز کررہے ہیں ۔ کیوں کہ خارجہ پالیسی چہرے بدل جانے سے نہیں بدلتی ہے ، بطور خاص عمران خان کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے یہ ناممکن ہے کیوں کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی ،کرپشن کا کیس اور ملک پہونچتے ہوئی گرفتاری کا پس منظر ہندوستان سے بہتر رشتہ بنانے اور فوج کو اپنے ماتحت کرنے کی کوشش ہے ۔ نواز شریف فوجی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے ہندوستان سے بہتر رشتہ بنارہے تھے ، ملک میں جمہوریت کی جڑوں کو مضبوط کررہے تھے ، فوجی مداخلت کو کم کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے جو فوج کیلئے ناقابل برداشت ہوگیا تھا اور پھر پناما کیس کے نام پر وزیر اعظم کی کرسی چھین کر انہیں جیل کی سلاخوں میں بندکردیا گیا۔ بر صغیر کے سینئر صحافی کلدیپ نیر نے بھی اپنے حالیہ کالم میں لکھاہے کہ عمران خان کے رہتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان بہتر رشتہ کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی ہے کیوں کہ وہ فوج کے تعاون سے وزیر اعظم بننے جارہے ہیں اور اس کے خلاف کوئی بھی قدم نہیں اٹھاسکتے ہیں خاص طور پر اپنی پہلی تقریر میں ہی کشمیر کی بات کرکے انہوں نے تمام امکانات پر پانی پھیر دیاہے ۔ان سب کے باوجود ہندوستان کیلئے بھی اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سری لنکا ، میانمار جیسے ممالک میں بھی فوجی مداخلت ہے ،منتخب حکومت سے زیادہ فوج کے پاس وہاں اختیارات ہیں اس کے باوجود ان ممالک کے ساتھ ہندوستان کے سفارتی تعلقات بہتر ہیں تو پھر پاکستان سے کیوں نہیں؟
گذشتہ 22 سالوں سے سیاست میں سرگرم رہنے کے باوجود عمران خان کا پاکستان کی سیاست میں کوئی نام و نشان نہیں تھا ۔ نواز شریف کو کنارے لگانے کے بعد پاک فوج ان کے بھائی شبہاز شریف کو اقتدار میں لانا چاہ رہی تھی لیکن الیکشن سے چند دن قبل سب کچھ بدل گیا ، اچانک عمران خان کا نام سب سے آگے کردیا گیا، اوپینن پول اور سبھی طرح کے سروے بدل دیئے گئے اور یوں عمران خان کی پارٹی کو سب سے زیادہ سیٹ ملی جبکہ شروع میں شہباز شریف کا نام سب سے آگے تھا اور یہی کہا جارہا تھاکہ ملک کے اگلے وزیر اعظم شہباز شریف ہوں گے ، صوبہ پنجاب میں انہوں نے مثالی کارنامہ انجام دیا ہے ۔
عمران خان کی جیت کے بعد پاکستان کا لبرل اور مذہب بیزار طبقہ سب سے زیادہ خوش ہے انہیں لگتا ہے کہ پاکستان میں جو مذہبی اقدار اور اسلامی تہذیب و ثقافت برقرار ہے عمران خان اسے ختم کرنے کے سلسلے میں توجہ دیں گے ۔ مذہبی غلبہ کم ہوجائے گا ، مدارس اور مکاتب کے بڑھتے سلسلے وہ کم کریں گے ۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر وہاں کی چند خواتین اور مذہب بیزا طبقہ کی جانب سے اس بات کو بھی لیکر بے پناہ خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اس مرتبہ پاکستان کی دو بڑی مذہبی جماعت کے سربراہ یعنی مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق اپنی سیٹ پر بھی جیتنے میں ناکام رہے ہیں ، مذہبی سیاسی جماعتوں کے وفاق متحدہ مجلس عمل کی کارکردگی بھی ناقص اور غیر مؤثر رہی ہے ۔
عمران خان کی جیت کے بعد پاکستان کے ایک طبقہ کا یہ احساس ہے کہ ملک میں عریانیت اور فحاشیت کو فروغ ملے گا، یورپین معاشرہ یہاں تیزی کے ساتھ پنپ جائے گا ، ان کی انتخابی ریلیوں کو دیکھنے کے بعد اس طرح کے خدشات کو تقویت بھی ملتی ہے ، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عمران خان قادیانیوں کو مسلمان کی فہرست میں شامل کریں گے یہ اندیشہ ظاہر کرنے والے عمران کی ایک ویڈیو کلپ شیئر کررہے ہیں جس میں ان کا کہناہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہ ماننے والے کو بھی میں مسلمان مانتا ہوں ۔ اسی طرح یہ بھی کہا جارہا ہے ختم نبوت کے منکرین کیلئے آئین پاکستان میں جو سزا تجویز کی گئی ہے اسے وہ ختم کردیں گے ۔ عمران خان اب پاکستان کے وزیر اعظم بننے جارہے ہیں،22 سالوں بعد ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہورہا ہے۔ ان کے سامنے پاکستان کے سابق وزراء اعظم کے ساتھ پیش آئے واقعات بھی ہیں۔ ذو الفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ،بے نظیر بھٹو پر حملہ کرکے قتل کردیا گیا اور نواز شریف کو جیل کی سلاخوں میں بند کردیا گیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان فوج کا استعمال کرکے وزیر اعظم کی پانچ سالہ مدت پوری کرکے پاکستان کی تاریخ میں ایک نئی مثال قائم کرتے ہیں یا پھر ہمیشہ کی طرح انہیں استعمال کرنے میں بھی فوج کامیاب ہوجائے گی ؟۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com