حق رائے دہی سلب کرنے منصوبہ ؟

پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی

آر ایس ایس کی مستقل پالیسی کا یہ حصہ ہے کہ مسلمان کہیں بھی اکثریت میں نہ ہوں۔ نہ ان کی آبادی کسی اسٹیٹ یا ضلع میں اتنی بڑھ جائے جس کی بنیاد پر وہ الیکشن پر اثر انداز ہوجائیں اور ان کا ووٹ فیصلہ کن حیثیت اختیار کرلے۔ اسی لئے بعض دانشوران کا ماننا ہے کہ آر ایس ایس کی تشکیل کے فوراً بعد قیام پاکستان منصوبہ سامنے آیا تھا جس کا مقصد مسلمانوں کو تقسیم کرکے ان کی طاقت کو کمزور کرنا تھا ۔ آر ایس ایس ہمیشہ اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگاتی ہے لیکن حقیقت میں وہ اس کیلئے کبھی بھی رضامند نہیں ہوسکتی ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر تعداد کے اعتبارسے مسلمانوں کی اکثریت ہوجائے گی اور یہ آر ایس ایس کا سب سے بڑا زوال ہوگا۔ آسام کے چالیس لاکھوں لوگوں کی شہریت منسوخ کرنا یا پھر کشمیر سے دفعہ 35 اے کے خاتمہ کی جدوجہد کرنا بھی آ رایس ایس کی اسی پلاننگ کا حصہ ہے تاکہ مسلمان سیاسی طور پر بے اثر ہوجائیں ۔
آسام ہندوستان کی دوسری ریاست ہے جہاں سب سے زیادہ مسلم آبادی ہے۔ 2011 کے اعداد وشمار کے مطابق وہاں تقریباً 35 فیصد مسلمان ہیں ۔ برٹش دور حکومت میں بھی وہاں مسلمانوں کی قابل ذکر تعداد تھی ۔اس تعداد کو کم کرنے اور مسلمانوں کے ووٹ کی حیثت کو کم کرنے کیلئے آر ایس ایس نے اپنا ایک طویل مدتی منصوبہ تیا رکیا ۔جس کے مطابق آر ایس ایس کی اسٹوڈینٹ یونین آل آسام اسٹوڈینٹ یونین All Assam Student Union (AASU) اور آل اسام سنگرام گن پریشد All Assam Gan Sangram Parishad نے 1979 میں یہ تحریک چھیڑ دی کہ لاکھوں کی تعداد میں بنگلہ دیشی آسام میں آکر پناہ لے چکے ہیں، ان کی وجہ سے آسام کی آبادی خطرے میں ہے، انتخابات موثر ہورہے ہیں انہیں برطرف کیا جائے۔ آسو اور اے اے جی ایس پی کی یہ تحریک پور ے صوبے میں پھیل گئی ، ان لوگوں نے الزام عائد کیاکہ 1971 میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان جوجنگ ہوئی تھی اس کے بعد لاکھوں کی تعداد میں بنگلہ دیشی آسام میں آکر پناہ لے چکے ہیں اور دوبارہ وہ یہاں سے نہیں گئے ہیں۔ ان کی وجہ سے آسام کا جغرافیہ تبدیل ہوجائے گا، آدی واسیوں کی وجہ سے پہلے سے ہی آسامیوںکو پریشانیوں کا سامنا ہے بنگلہ دیشی مسلمانوں کی وجہ سے مزید مسائل بڑھ جائیں گے۔ یہ احتجاج مسلسل بڑھتا رہا ہے، ملک بھر سے سنگھ ،وشو ہندو پریشد اور دیگر انتہاء پسند تنظیموں کے لیڈر اور نمائند ے وہاں کی پرتشدد تحریک میں حصہ ۔ اسی دوران آسام گن پریشد پارٹی کا وجود عمل میں آگیا۔
بالآخر مرکزی حکومت مظاہرین کے سامنے گھٹنہ ٹیکنے پر مجبور ہوگئی۔ چھ سالوں کے بعد 1985 میں مرکزی حکومت۔ آسو اور اے اے جی ایس پی کے درمیان ایک معاہدہ عمل میں آیاجسے آسام اکورڈ Assam Accordکہا جاتا ہے۔ اس معاہدہ میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ 1951 میں جن لوگو ں کا اندراج ہوا تھا، اس کے علاوہ 1951 سے 1961 اور 1961 24 مارچ 1971 تک جو لوگ آسام میں تھے سبھی کو آسام اور متحدہ ہندوستان کا شہری تسلیم کیا جائے گا۔ معاہدہ میں یہ بھی طے پاتا تھاکہ قومی رجسٹر برائے شہریت کا کام دوبار ہ شروع کیا جائے گا اور25 مارچ 1971 کے بعد ہندوستان آنے والوں کا شہری تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ 24 مارچ کی تاریخ ڈیڈ لائن بنائی گئی تھی کیوں کہ 25 مارچ کو ہندوستان نے مشرقی پاکستان کے ساتھ ملکر جنگ کا اعلان کیا تھا۔
اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی جنگ کے دوران بنگلہ دیشی ہندوستان ہجرت کرکے آئے تھے لیکن آنے والوں کی تعداد دو تین لاکھ سے زیادہ نہیں ہوتی ہے، نیز یہ سب کے سب حکومت ہند کی مرضی سے آئے تھے ۔ مہاجرین میں بیشتر ہندو تھے اورآسام اکارڈ کے مطابق25 مارچ 1971 سے قبل آنے والے بھی قانونی طور پر ہندوستانی شہری تسلیم کئے جاچکے ہیں ۔ اس معاہدہ کے بعد بنگلہ دیش اور ہندوستان کی سرحد بند کردی گئی ،بی ایس ایف اور فوج کی ٹکریاں وہاں تعنیات ہیں جس کی وجہ سے بنگلہ دیشیوں کے آنے کا کوئی امکان نہیں رہ جاتاہے اور اگر یہ بات سچ مان لی جائے کہ بنگلہ دیشی آسام آئے ہیں تو پھر سوال فوج کی چوکسی اور کارکردگی پر اٹھتا ہے کہ کیا فوج وہاں سوتی رہتی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ آسام اکارڈ کے بعد کسی بنگلہ دیشی کے آنے کا کوئی معاملہ ہی نہیں ہے ۔ یہ نقطہ بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کی وجہ معاشی تنگدستی ہوتی ہے اور یہ وجہ یہاں موجود نہیں ہے کیوں بنگلہ دیش اور ہندوستان کی معیشت تقریباً برابر ہے بلکہ بنگلہ دیش معاشی اعتبار سے ہم سے زیادہ تیزی سے ترقی کررہاہے ۔نیز معاشی تنگ دستی کی وجہ سے کوئی بھی شخص کسی ایسے شہر کا رخ کرتا ہے جہاں کی معیشت مضبوط ہے جیسے دہلی ،ممبئی وغیر ہ نہ کہ کوئی آسام جیسی ریاست میں جائے گا جہاں بے پناہ غربت اور پسماندگی ہے اس وجہ بھی یہ بات ناقابل قبول ہے کہ بنگلہ دیشی آسام آتے ہیں۔ ہندوستان کی موجودہ حکومت کے بنگلہ دیس بہتر رشتے اور تعلقات ہیں ۔17 سے زیا دہ اعلی سطحی میٹنگ دونوں ممالک کے درمیان ہوچکی ہے ۔ا یک مرتبہ بھی اس معاملے پر ہندوستان نے بنگلہ دیش سے کوئی بات نہیں کی ہے ۔ عالمی قانون کے مطابق کوئی بھی ملک اپنے ملک کی عوام کو کسی دوسرے ملک کا شہری ثابت کئے بغیر شہریت منسوخ کرنے کا فیصلہ نہیں کرسکتی ہے اور نہ ہی ملک کا قانون اس بات کی اجازت دیتاہے کہ کسی شہری کی شہریت منسوخ کردی جائے ۔ اس کے باوجود آسام این آر سی میں چالیس لاکھ شہریوں کا نام غائب کردیا گیا ۔کسی کا نام مکمل ثبوت ہونے کے باوجود نہیں آسکا۔ تو کسی کانام محض اسپلینگ کی غلطی کی وجہ سے درج نہیں ہوا ہے۔
سپریم کورٹ کے مطابق اس میں ترمیم ہوگی ، جن لوگوں کا نام نہیں ہے انہیں ابھی بیرونی اور غیر قانونی نہیں کہا جاسکتا ہے ، شہریت ثابت کرنے کا دوسرا موقع دیا جائے گا ۔لیکن کب دوبارہ شامل کیا جائے گا ،کتنے لوگوں کو شامل کیا جائے گا ، جن لوگوں کا نام نہیں آسکے گا ان کے ساتھ کیا معاملہ اپنایا جائے گا یہ معمہ حل نہیں ہوسکا ہے۔ یقینی طور پر انہیں بنگلہ دیش نہیں بھیجا سکتا ہے ،نہ ہی انہیں جیل میں ڈالا جاسکتا ہے ۔کوشش ہوگی کہ انہیں” ڈی ووٹر“ قرار دیکر ووٹ دینے کا حق سلب کرلیا جائے اور یہی آر ایس ایس کا منصوبہ ہے جس میں وہ بظاہر کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے ۔

(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں