جے این یو میں فرقہ پرستوں کی ذلت آمیز شکست

 بائیں محاذ اتحاد کی کامیابی دراصل ملک کے موجودہ سیاسی رجحان کی عکاسی ہے۔

فیصل فاروق

دائیں بازو کی آنکھوں میں کھٹکنے والی عالمی شہرت یافتہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں طلبہ یونین کے الیکشن میں ایک بار پھر سرخ پرچم لہرایا ہے۔ الیکشن میں سینٹرل پینل کی چاروں سیٹوں پر بائیں بازو کی جیت ہوئی ہے۔ زور آزمائی کے باوجود آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے چار کلیدی عہدوں میں سے کسی ایک پر بھی قبضہ نہیں کر سکی۔ چاروں سیٹیں بائیں محاذ نے جیت لیں اور اے بی وی پی کے سبھی امیدوار ذلت آمیز شکست سے دو چار ہوئے۔ بائیں محاذ کے آل اِنڈیا اسٹوڈنٹس اسوسی ایشن (آئسیا) سے تعلق رکھنے والے این سائی بالاجی صدر منتخب ہوئے جنہوں نے دو ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر کے اے بی وی پی کے امیدوار للِت پانڈے کو ایک ہزار ١۷٩/ووٹوں سے زبردست شکست دی۔ اِسی طرح نائب صدر، سیکریٹری اور جنرل سیکریٹری کے عہدے کیلئے بھی بائیں محاذ کے مشترکہ امیدواروں نے بھاری اکثریت سے شاندار فتح حاصل کی۔

لیکن یہ بات قابلِ غور ہے کہ اے بی وی پی اکیلے اپنے دم پر لڑنے کے باوجود، ووٹ شماری کے دوران توڑ پھوڑ اور الیکشن آفیسر سے مار پیٹ کرنے کے باوجود اچھے خاصے ووٹ بٹورنے میں کامیاب رہی۔ بائیں محاذ کے طالبِ علم لیڈروں کا کہنا ہے کہ جے این یو کے طلبہ ملک کے رہنماؤں کے مقابلہ میں بہتر سیاسی فہم رکھتے ہیں۔ حالات کو زیادہ گہرائی سے سمجھتے ہیں اور اِس کی سب سے بڑی مثال یہ الیکشن تھا۔ اے بی وی پی کہیں بھی کمزور نہیں تھی، پھر بھی سمجھداری سے کام نہیں لیا تو وہ باہر ہو گئی۔ نیلے رنگ اور زعفران بریگیڈ کے اُبھرنے کے باوجود تین سال سے اتحاد کی وجہ سے بائیں محاذ اپنا قلعہ بچائے ہوئے ہے۔ پہلے دو، پھر تین اور اِس مرتبہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے بائیں بازو کی چار تنظیموں نے مِل کر مقابلہ کیا۔

جے این یو طلبہ یونین الیکشن میں بائیں محاذ نے پہلے ہی یہ محسوس کیا تھا کہ یہاں پر زعفرانی پرچم یعنی اے بی وی پی کمزور نہیں ہے۔ لہٰذا، چار بائیں محاذ کی تنظیموں نے تمام اختلافات کو بھلا کر عظیم اتحاد کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا، ورنہ یہاں تصویر کچھ اور ہوتی۔ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار بائیں محاذ کی چاروں تنظیموں آل انڈیا اسٹوڈنٹس اسوسی ایشن (اے آئی ایس اے)، اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی)، آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن (اے آئی ایس ایف) اور ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) نے ایک ساتھ طلبہ یونین کا الیکشن لڑا اور فرقہ پرستوں کو باہر کا راستہ دکھایا۔ ساتھ ہی جمہوریت پسند سیاستدانوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کرنے والوں کے خلاف متحد ہونا اور جامع حکمت عملی تیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ 

اے بی وی پی نے اس بار کسی بھی سیٹ پر جیت درج نہیں کی ہے لیکن وہ ہر سیٹ پر دوسرے نمبر پر رہی۔ اِس کا مطلب ہے کہ کمیونسٹ تنظیموں کے مقابلہ میں وہی سب سے آگے تھی۔ ہزار کوششوں اور رکاوٹوں کے باوجود اے بی وی پی جے این یو طلبہ یونین الیکشن کے نتائج کو بدل نہیں سکی۔ یہ نتائج اِس حقیقت کے ثبوت کے طور پر کھڑے ہیں کہ اب ہندوستان کی مشہور و معروف یونیورسٹیوں میں خوف اور نفرت کی زعفرانہ سیاست کی تشہیر کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ یہ نتائج بتاتے ہیں کہ اُن لوگوں کیلئے یہ فتح کسی میل سے کم نہیں ہے جو ہندوستان کے یونیورسٹی کیمپس کو نظریاتی ہم آہنگی اور انتظامی بالادستی سے آزاد رکھنے کا خیال رکھتے ہیں۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں بائیں محاذ کے امیدواروں نے زبردست کامیابی حاصل کر کے یہ بات واضح کر دی ہے کہ حکومت اور آر ایس ایس کی تمام کوششوں کے باوجود مثالی اتحاد کی بنیاد پر شاندار کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ جیت اِن معنوں میں بھی خاص ہے کہ چند روز قبل ہی دہلی یونیورسٹی طلبہ یونین الیکشن (ڈی یو ایس یو) میں سیکریٹری کے عہدے پر کانگریس طلبہ ونگ نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا (این ایس یو آئی) کو کامیابی مِلی تھی جبکہ تینوں سیٹوں پر اے بی وی پی کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ دہلی یونیورسٹی کے الیکشن میں جو نتائج آئے تھے اُس کے سبب نہ صرف اے بی وی پی کے حوصلے بلند تھے بلکہ جے این یو کے طلبہ بھی تشویش میں تھے۔ نتائج کے بعد این ایس یو آئی نے الزام لگایا ہے کہ اے بی وی پی نے تمام جمہوری اقدار کو روندتے ہوئے، طلبہ کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ، انتخابی عملہ اور ای وی ایم کے ذریعہ فتح حاصل کی ہے۔

اِسی دوران ایک خبر آئی کہ جے این یو میں بائیں محاذ کی فتح سے وزیر دفاع بھی “فکرمند” ہیں۔ جے این یو کی سابق طالبہ، ملک کی وزیر دفاع اور بی جے پی لیڈر نرملا سیتارمن نے کہا ہے کہ جے این یو میں موجودہ کچھ طاقتیں ملک کے خلاف جنگ چھیڑ رہی ہیں۔ اُنہوں نے طلبہ یونین کے نو منتخب صدر پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ “یہ وہی طاقتیں ہیں جو طلبہ یونین کے نو منتخب صدر کے ساتھ نظر آ رہی ہیں اور اِس کی وجہ سے مجھے فکرمندی ہوتی ہے۔” وزیر موصوفہ کے اِس بیان پر سوال اٹھنے لگے ہیں کہ کیا اُنہیں جے این یو کے طلبہ کی حب الوطنی پر بھروسہ نہیں ہے؟

اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خاص طور پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی آر ایس ایس کی جانب سے جو کوشش ہوتی رہی ہے، اُس سلسلہ کو روکنا بہت ضروری ہے۔ ایسے میں یقیناً یہ شکست آر ایس ایس کیلئے انتہائی مایوس کن ہے۔ یہ جیت نہ صرف جے این یو کے طلبہ یونین کی ذہانت کی فتح ہے بلکہ یہ تقسیم کرنے والی اور فرقہ پرست سیاست کے خلاف نوجوانوں کا واضح مینڈیٹ بھی ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں پالیٹیکل سائنس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سُبودھ کمار کہتے ہیں کہ جے این یو انتخابات سے قومی سیاست نظریہ لے سکتی ہے۔ نظریہ یہ ہے کہ جب کوئی طاقت اُبھر رہی ہو تو اپنے مفاد کو اہمیت نہ دیتے ہوئے ایک ہو جانا چاہئے۔ جے این یو طلبہ یونین الیکشن کی اہمیت اِسی بات سے سمجھی جا سکتی ہے کہ انتخابی تشہیر میں قومی پارٹیوں کے مشہور لیڈر بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ طلبہ یونین الیکشن میں بائیں محاذ اتحاد کی کامیابی دراصل ملک کے موجودہ سیاسی رجحان کی عکاسی ہے۔