سعودی اور ترکی میں ٹکراؤ کے آثار !

پس آئینہ : شمس تبریز قاسمی 

سعودی عرب کے صحافی جمال خشوگی کی پراسرار موت سے سعودی عرب نے تقریبا پردہ اٹھاتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کرلیاہے کہ 2 اکتوبر 2018کو انقرہ میں واقع سعودی قونصل میں تفتیش کے دوران ان کی موت ہوگئی تھی ۔سعوی عرب نے قتل میں ملوث 18 ملزمان کے خلاف کاروئی کا بھی آغاز کردیاہے تاہم اب تک سعودی عرب نے یہ واضح نہیں کیاہے کہ تفتیش کے دوران کیسے موت ہوگئی ؟ ۔کس کے اشارے پر قتل کیا گیا؟کون ہے اس میں ملوث ؟ اورجمال خشوگی کی لاش کہاں ہے ؟ دیگر ذرائع سے آنے والی خبروں میں دعوی کیا جارہاہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر دفاع محمد بن سلمان اس قتل میں براہ راست ملوث ہیں،انہیں کے اشارے پر یہ سب کچھ ہوا،ان کا میڈیا ایڈوائزاسکائپ کے ذریعہ براہ راست پورے واقعہ کی نگرانی کررہاتھا اور آخری جملہ اس نے یہ کہاتھاکہ ”اس کتے کا سر میرے پاس لیکر آنا“ ۔آزاد ذرائع سے یہ بھی دعوی کیا جارہاہے کہ لاش کے ٹکر ے ٹکرے کرکے ایک جنگل میں دفنا دیاگیاتھاکہ تاکہ نام ونشان نہ مل سکے ۔

خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے سعودی صحافی جمال خشوگی ترکی کی راجدھانی انقرہ میں واقع سعودی قونصل میں 2 اکتوبر 2018 کو طلاق کے کاغذات لانے گئے تھے ، ترک شہری خدیجہ چنگیز سے نکاح کرکے امریکہ میں مستقل رہائش اختیار کرنے کا ان کا منصوبہ تھاتاہم قونصل میں داخل ہونے کے بعد وہ باہر نہیں آسکے اور ان کی منگیتر کو شدید انتظار کے بعد تنہا لوٹنا پڑا ۔ترکی پولیس عالمی قانون کے سبب سعودی قونصل میں داخل نہیں ہوسکی تاہم عالمی دباﺅاور ترکی کے اصرار پر سعودی عرب کو جمال خشوگی کے قتل کا اعتراف کرنا پڑا ۔

مذکورہ واقعہ کی بنیاد پر سعودی عرب تنہا پڑگیاہے ،ترکی اور کئی یورپین ممالک کھل کر سعودی عر ب کے کردار کی تنقید کررہے ہیں،گذشتہ دنوں ریاض میں ہونے والی اقتصادی سمٹ کا بھی برطانیہ اور فرانس سمیت کئی اہم ممالک نے بائیکاٹ کیا تھا۔امریکہ کا موقف واضح نہیں ہے جبکہ ہمنوا ممالک خاموش ہیں ۔ترکی اس سلسلے میں مسلسل سعودی عر ب پر دباﺅ بنارہاہے او ریوں کہا جاسکتاہے ایک طرح سے ترکی نے مضبوط سفارت کاری کرتے ہوئے سعودی عرب کو حقیقت سے پردہ اٹھانے پر مجبور کردیاہے ۔ترکی کا مطالبہ ہے کہ یہ قتل ترکی میں ہواہے اس لئے تمام 18 ملزمان کو ترکی کے سپرد کیا جائے اور یہیں کی عدالت میں یہ مقدمہ پیش کیا جائے ۔

ترکی کے معروف صحافی اور ٹی آر ٹی اردو سروس کے ایڈیٹر ڈاکٹر فرقان حمید نے اس واقعہ کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جمال خشوگی کے آباﺅ اجداد ترکی کے تھی ،یہاں سے ان کا گہر اتعلق رہاہے یہ قتل بھی ترکی کا میں ہواہے اس لئے ترک صدر رجب طیب ایردوان چاہتے ہیں کہ اس معاملے میں مکمل طور پر انصاف سے کام لیا جائے ،خشوگی کے قاتلوں کو سزا دی جائے اور اس چہر ہ کو بے نقاب کیا جائے جو اس قتل میں ملوث ہیں ۔ترکی کے پاس سعودی عرب کو جھکانے اور اپنی شرطوں کے مطابق ڈیل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے اور کہیں نہ کہیں ترکی نے سعودی عرب کو مجبو کردیاہے۔اسی طرح اشارہ شاہ سلمان کا یہ بیان بھی کررہاہے جس میں انہوں نے کہاتھاکہ ہم ترکی کے ساتھ بہترین رشتہ رکھنا چاہتے ہیں۔

اس تصویر کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ کسی صحافی کا یہ کوئی پہلا قتل نہیں ہے ،نہ ہی دنیاکا کوئی بھی ملک اس سے محفوظ ہے ،دنیا بھر میں صحافیوں پر حملہ کیا جارہاہے ،انہیں قتل کیا جارہاہے،حقیقت پر مبنی صحافت کو نشانہ بنایاجارہاہے ۔ امریکہ کو صحافیوں کیلئے خطرناک ملک ماناجاتاہے ۔خود ترک صدر رجب طیب ایردوان پر متعدد میڈیا ہاﺅسز اور اخبارات کو بند کرنے اور صحافیوں کو جیل میں ڈالنے کا الزام ہے ۔ایسے میں سعودی عرب پر عالمی طاقتوں کی تنقید اور دنیا بھر کے ممالک کا دباﺅ سمجھ سے بالاتر ہے ۔ترکی کا دباﺅ کسی حدتک سمجھ میں آتاہے کیوں کہ وہاں قتل کا واقعہ پیش آیاہے لیکن دیگر ممالک کا دباﺅ اور سعودی عرب کے اندونی معاملے میں مداخلت اس کی حق مختاری کو چیلنج ہے ۔دنیا کے کچھ ممالک اسی بہانے سعودی عرب کو مزید کمزور کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں ۔جبکہ سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے جہاں قتل ،زنا اور کرائم کے دیگر واقعات سب سے کم بلکہ نہ کے برابر پائے جاتے ہیں ۔2016 میں ایک سعودی شہزاد سے قتل کے جرم میں قصاص لیا گیاتھا ۔ لاءاینڈ آڈر کے معاملے میں سعودی عرب ایک مثالی ملک ہے تاہم ان حقائق کی بنیاد پر کسی صحافی کے قتل کو درست نہیں ٹھہرایاجاسکتاہے اور نہ ہی ارباب اقتدار کو یہ حق پہونچتاہے کہ وہ بادشاہت اور آمریت کا بیجا استعمال کرتے ہوئے تنقید کرنے والے صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتار دے ۔

جمال خشوگی کے قتل سے سعودی عرب کی شاندار شبیہ پر کہیں نہ کہیں ایک سیاہ دھبہ لگ گیاہے اوراس کیلئے محمد بن سلمان کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہاہے ، اس سے قبل کرپشن کے الزام میں متعدد شہزادوں کو گرفتار کرنے اور دیگر تبدیلیاں لانے کی بنیاد پر بھی وہ تنقید کی زد میں ہیں اور انہیں سعودی عر ب کے مستقبل کیلئے اچھا نہیں سمجھا جارہاہے ۔

مسلم ممالک کا ایک سچ یہ بھی ہے کہ وہاں صحافت آزاد نہیں ہے ،میڈیا ہاﺅسز حکومت کی پالیسی کے خلاف کسی طرح کی خبر نہیں شائع کر پاتے ہیں او راگر کبھی کرتے ہیں تو ان کا انجام خطرناک ہوتاہے ،یہی وجہ ہے کہ الجزیرہ کے علاوہ مسلم ممالک کے کسی بھی میڈیا ہاﺅس اور اخبارات کو کوئی عالمی مقام حاصل نہیں ہے اور نہ ہی وہاں کے اخبارات ترقی کرپاتے ہیں ۔

(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )

stqasmi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں