مولانا مناظر احسن گیلانی : عظیم مفکر ، عبقری شخصیت 

  پٹنہ میں دورزہ سمینار کا انعقاد قابل ستائش اقدام ۔ مولانا مناظر احسن گیلانی بیسوی صدی کے عظیم محقق، نامور عالم دین اور نایاب دانشور تھے 

شمس تبریز قاسمی 

مولانا مناظر احسن گیلانی ماضی قریب کے نامور ،جید اور بیشتر اوصاف کے پیکر عالم دین تھے ،بیسوی صدی کے عظیم دانشور ،محقق ،تاریخ داں ،مفکر اسلام اور ملت اسلامیہ کا سرمایہ تھے ۔وہ ایک فلسفی ، مصنف ، صوفی ، ماہرِ تعلیم ، ماہر معاشیات، متکلم اور مفسرتھے، قرآن و حدیث پر ان کی محققانہ نظر انہیں معاصر علما میں ایک ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔ تاریخ و سیر پر ان کی محکم گرفت انہیں ایک بالغ نظر مورخ کی حیثیت دیتی ہے۔ تعلیم و تربیت پر ان کی گہری نظر انہیں ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے ممتاز کرتی ہے۔انشا ءکی بے پناہ صلاحیت انہیں ایک ممتاز ادیب کی فہرست میں شامل کرتی ہے ۔ قلم اور زبان بیان پر نمایاں قدرت کی وجہ سے انہیں ایک عظیم صحافی بھی کہا جاسکتا ہے ۔ جرأت ، نمایاں انداز ، خدا داد صلاحیت ،متنوع اور منفرد خیالات کی بنیاد پر ہم انہیں ایک جامع علوم دانش ور کہہ سکتے ہیں۔

مولانا مناظر احسن گیلانی زبان و ادب، تفسیر ،حدیث ،تاریخ، عصری علوم کی افادیت اور دینی علوم کی واقفیت کے ساتھ ملت اسلامیہ کی نشاة ثانیہ کیلئے ہمیشہ بے چین اور بے تا ب تھے ، بیسویں صدی میں جن شخصیات نے امت مسلمہ کو ایک لائحہ عمل ، طریقہ کار، کامیاب معاشرہ کی تھیم اور سوچنے وغورکرنے کا زوایہ دیا ہے ان میں مولانا مناظر احسن گیلانی سر فہرست ہیں ۔ ان کے افکار و نظریات اور شخصیت کی اہمیت اس بنیاد پر بھی ہے کہ وہ دارالعلوم دیوبند کے نامور شاگرد اور باکمال استاذ ہونے کے ساتھ عصری علوم سے بھی واقف تھے ۔ عثمانیہ یونیورسیٹی میں بطور پروفیسر انہوں نے اپنی خدمات انجام دی تھی ۔ ملت کے ہر طبقہ نے ان کی آراء کا احترام کیا ، انہیں دور رس عالم ،محقق اور دانشور تسلیم کیا ۔

مولانا مناظر احسن گیلانی اظہار رائے میں بیباک اور جرأت مند تھے ، ان کی کتابوں سے پتہ چلتاہے کہ اپنی بات بغیرکسی تکلّف کہتے تھے۔ وہ اپنوں کے بارے میں بھی اتنے ہی حق بین و حق گو ہیں جتنے اغیار کے بارے میں بے باک ہیں۔ مسلمانوں کے سیاسی زوال کو لیکر وہ بہت افسردہ اور پریشان رہتے تھے ۔ اپنی تحریروں میں جا بجا اس کا حل بھی انہوں نے پیش کیا ہے۔ ان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ حالات کا تجزیہ وہ تاریخی تناظر میں عموماً کرتے ہیں ۔قرآن و حدیث کے علاوہ عصری علوم میں بھی انہیں خصوصی مہارت حاصل تھی ، وہ تحقیق اور ریسرچ کے عادی تھے ۔ شخصیتوں پر بغیر کسی تعصب اور عقیدت کے تبصرہ کرنا ان کی نمایاں شناخت ہے ۔ انہیں اداروں ، تحریکوں اور شخصیتوں کی نسبت قرآن و سنت سے مستنبط رہ نما خطوط اور روشنی کا زیادہ لحاظ ہوتا ہے۔ مدارس کے موجودہ نصاب تعلیم کے برعکس وہ ایک ایسے نصاب کے قائل تھے جس کی آج شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی ہے اور بعض خطوں میں مدارس اسی نصا ب کو اپنا رہے ہیں ۔ان کا مفکرانہ ذہن قرآنی بصیرت کی روشنی میں معاملات پر غور و فکر کرتا ہے۔ وہ بے نیاز طبیعت کے حامل تھے ، مالی اور مادی مفاد کی بنیاد پر کبھی کسی کے قریب تک نہیں گئے ۔اپنے معاصرین کے ساتھ ان کے تعلق و ربط کا یہ عالم تھا کہ ریاست حیدرآباد کے علم پرور وزیر اعظم مہاراجہ کشن پرشاد شاد کو بھی ان سے نیاز مندانہ تعلق خاطر تھا۔اپنے زمانے کے ممتاز عالم دین حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ان کی خدمات کو سراہتے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ دیوبند نے مولانا مناظر احسن گیلانی جیسا کوئی اور صاحب قلم پیدا نہیں کیا ہے اور ندوہ نے علامہ سید سلیمان ندوی جیسا ۔

مولانا مناظر احسن گیلانی کا وطنی تعلق بہار سے تھا ، پٹنہ سے 100 کیلو میٹر دورضلع نالندہ کے گاؤں گیلانی میں یکم اکتوبر 1892ء مطابق 9؍ربیع الاول 1310 میں ان کی ولادت ہوئی ۔ ان کی نشو و نما کا بڑا حصّہ دادھیال ” گیلانی “ میں گزرا، آپ کا خاندان خالص دینی و مذہبی تھا۔ آپ نے قرآن، اردو، فارسی نحو و صرف ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں گیلانی میں مکمل کی۔ 1324ھ بمطابق 1906سے 1331ھ بمطابق 1913 تک مدرسہ خلیلیہ ٹونک (راجستھان) میں مختلف علوم و فنون منطق، فقہ، ادب اور ہیئت و ریاضی کی کتابیں پڑھیں۔ 1331ھ میں ایشیا کی عظیم اسلامی درسگاہ دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور ماہرین علوم و فنون سے بھر پور استفادہ کیا، جن میں سرِ فہرست شیخ الہند مولانا محمود الحسن، علامہ انور شاہ کشمیری، علامہ شبیر احمد عثمانی، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی وغیرہ شامل ہیں۔

دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد یہیں 1334 ہجری میں بطور استاذ آپ کی بحالی ہوگئی ۔ دار العلوم سے شائع ہونے والے دو ماہنامے ” القاسم “ اور ” الرشید “ کی ادارت آپ کے ذمہ سپرد کی گئی۔ آپ نے کئی معرکۃ الاراء کتابیں تصنیف کی جن میں سب سے اہم تین جلدوں میں سوانح قاسمی ہے۔ دارالعلوم ، علماء دیوبند اور مولانا قاسم ناناتوی کی تاریخ پر یہ واحد مستند کتاب ہے جسے ماخذ کا درجہ حاصل ہے ۔ دارالعلوم کی تاریخ اور مولانا محمد قاسم ناتوی کی شخصیت کے سلسلے میں یہ سب سے معتبر اور اولین کتاب ہے ۔ اس کے علاوہ بھی آپ کی کئی اہم ترین تصنیفات ہیں جن کی حیثیت متن اور ماخذ کی ہے ۔جیسے اسلامی معاشیات، ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت (2 جلدیں) اما م ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی، تدوین حدیث، تدوین قرآن، النبی الخاتم، دربار نبوت کی حاضری، مسلمانوں کی فرقہ بندیوں کا افسانہ، عبقات، مقالات احسانی، الدین القیم، تدوین فقہ، ہزار سال پہلے، احاطہ دار العلوم میں بیتے ہوئے دن، تذکرہ شاہ ولی اللہ وغیرہ ۔

یہ سب مولانا گیلانی کی عالمی شہرت یافتہ ،مستند اور معرکۃ الاراء کتابیں ہیں بلامبالغہ وہ تصنیف و تالیف کے لحاظ سے عظیم مصنف ، باکمال رائٹر اور نایا ب قلم کار تھے ۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں جو مواد جمع کیا ہے، وہ بیسیوں آدمیوں کو مصنف اور محقق بناسکتا ہے۔ اس ایک آدمی نے تن تنہا وہ کام کیا ہے جو یورپ میں پورے پورے ادارے اور منظّم جماعتیں کرتیں ہیں۔ یہی ان کا سب سے نمایاں وصف اور قابل رشک امتیاز ہے ۔

بہرحال 1338ھ کو عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد میں شعبۂ دینیات کے استاد مقرر ہوئے اور 1949 میں اس شعبے کے صدر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ملازمت سے سبک دوشی کے بعد 25؍ شوال 1375ھ بمطابق 5؍ جون 1956 کو انتقال ہوگیا۔

خلاصہ کلام یہ کہ مولانا گیلانی میں تمام دینی خصوصیات و کمالات بہ درجہ اتم موجود تھیں، انہوں نے اکابر کی طرح قرآن و حدیث، فقہ و اصولِ فقہ، تزکیہ و تصوف، خطابت و سیاست کے میدانوں کی شہ سواری کی لیکن ساتھ ہی ادبی میدان میں بھی مولانا گیلانی نے اپنے قلم سے بے شمار درِ نایاب بکھیرے ہیں۔ کہیں نئی نئی اصطلاحات، تو کہیں انوکھے و البیلے طرز و انداز، کبھی خطابت کی گرمی میں ڈوبی صحافت، تو کبھی تصوّف کی مستی و وارفتگی لٹاتی تحریریں۔ اردو ادب کی کئی صنفوں کو مولانا گیلانی نے نئے اور عمدہ تجربات سے روشناش کرایا اور اردو ادب کے دامن کو مزید حسن و وسعت عطا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ نے مولانا گیلانیؒ کو خاص طرزِ انشا کا مالک و موجد قرار دیا۔

مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ کی شخصیت ،ان کی خدمات ، تالیفات و تصنیفات اور افکار و نظریات کے کئی اہم پہلو ہیں ، ہر ایک قابل تقلید اور نئی نسل کیلئے مشعل راہے۔ خاص طور پر نصاب تعلیم، اسلامی معاشیات اور مسلم معاشرہ کے بارے میں انہوں نے جو نظریہ پیش کیا ہے آج کے دور میں اس کی اہمیت مزید دوبالا ہوگئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آج ہی کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے مولانا اپنی کتابوں میں ان باتوں کا تذکرہ کیا ہے ۔مولانا گیلانی کی شخصیت کے انہیں پہلوؤں کو سامنے لانے کے مقصد سے ہندوستان کے معروف تھنک ٹینک ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز کے زیر اہتمام یکم اور دو دسمبر 2018 کو عظیم آباد پٹنہ کی سرزمین پر دو روزہ قومی سمینار کا انعقاد ہورہا ہے جس میں ملک کے نامور دانشورا ن، محقیق علماء اور ریسرچ اسکالرز اپنا مقالہ پیش کریں گے ۔ مختلف پہلوؤں کو سامنے لائیں گے ۔

 یہ سیمناروقت کی اہم ضرورت ہے ۔ پٹنہ میں اس کے انعقاد سے سمنیار کی اہمیت مزید دوبالا ہوگئی ہے کیوں کہ مولانا کا وطنی تعلق اسی سرزمین سے تھا ۔ نئی نسل کو ، اسکالرس کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا ۔ تحقیق اور ریسرچ کی نئی سمت ملے گی ۔ آئی او ایس نئی دہلی اور اس کی پٹنہ شاخ قابل مبارکباد ہے جس نے اس عظیم شخصیت اور نامور عالم دین پر دو روزہ سمینار کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے ۔ انسٹی ٹیوف آف آبجیکسٹو اسٹڈیز ہندوستان کا واحد نمایاں ادارہ ہے، جسے مسلمانوں کے تھنک ٹینک ہونے کا مقام حاصل ہے ۔ تیس سال کے سفر میں اس ادارنے بے شمار تاریخی اور لائق ستائش کارنامے انجا م دیئے ہیں ، مسلمانوں کی سیاسی ،سماجی، اقتصادی اور تعلیمی پسماندگی دور کرنے ،صحیح صورت حال کو دنیا کے سامنے پیش کرنے اور انہیں ترقی یافتہ بنانے کی جدوجہد میں آئی او ایس کی خدمات ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھی جائے گی ۔ اس کی نمایاں اور قابل فخر خدمات کا ایک حصہ مولانا مناظر احسن گیلانی کی حیات و خدمات پر دو روزہ سمینار کا انعقاد بھی ہے۔

stqasmi@gmail.com