سنگین صورتحال، انصاف پسند اور سیکولر طبقہ کی ذمہ داریاں !

نقطۂ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم

ہندوستان ایک عظیم ترین جمہوری ملک ہے ،اس کا آئین جامع اور متعدد خوبیوں کا حامل ہے ۔تمام طبقات ،مذاہب اور گروپس کویکساں حقوق دیئے گئے ہیں ،ان کی سماجی ،تعلیمی اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے کی بات کی گئی ہے ۔لیکن گذشتہ ساڑھے چار سالوں میں جس طرح کے حالات پید اہوگئے ہیں ۔جس طرح قانون کی دھجیاں آڑائی جارہی ہیں ،آئین سے کھلواڑ کیا جانے لگاہے ۔ تاریخیں مسخ کی جارہی ہیں اورکمزور طبقات کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے اس کے بعد اس طرح کے سوالات ملک بھر میں اٹھنے لگے ہیں کہ کیا ملک کے دستور کو بچانے کی ذمہ داری صرف مسلمانوں کی ہے ؟کیا یہ ممکن ہے جن لوگوں نے ملک کی آزادی میں کوئی قربانی نہیں دی تھی وہ آئین کے تحفظ کا کوئی کام کریں گے ؟کیا یہ ممکن ہے کوئی گروہ محدود اغراض ومقاصد کیلئے سیاسی ہتکھنڈہ اپنائے اور وہ مجموعی طور پر قانون کی بھی حفاظت کا فریضہ انجام دے؟کیا یہ ممکن ہے کہ جوگروہ نفرت کی آگ کو شعلہ بنانے پر یقین رکھتاہو وہ ملک میں امن وامان پیداکر سکے گا ؟ کیا یہ ممکن ہے جس گروہ کا ملک کے آئین پر بھروسہ اور یقین نہیں ہے وہ دستور پر عمل کرے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ جو گروہ ملک کے آئین کے خلاف اپنا ایک متباد ل آئین پیش کرنے کا منصوبہ رکھتاہو وہ آئین ہند کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے گا ؟ کیا یہ ممکن ہے جن لوگوں نے انگریزوں کیلئے جاسوسی کی تھی وہ آج آزاد ہندوستان میں یہاں کے شہریوں کیلئے کوئی بہتر منصوبہ بناسکیں گے ؟
یہ ایسے سولات ہیں جو ملک ہر شہری کی زبان پر ہیں،ساڑھے چار سالوں کے دوران جو کچھ ہواہے اس کی بنیاد پر اس طرح کے سوالات کا اٹھنا یقینی اور فطری بن چکاہے ۔ہر کوئی انصاف پسند،سیکولر اور سچا ہندوستانی اسی سوچ و فکر میں ہے کہ کیا ہندوستان کا آئین خطرے میں پڑگیا ہے ۔ایسے حالات میں کچھ اس طرح کے سوالات بھی گردش کررہے ہیں کہ آخر ہندوستان کو آزادی کس نے دلائی؟ کیا ملک کے کسان انگریزوں کی لاٹھی اور گولی کے شکار نہیں ہوئے ؟ کیا عام مزدوروں اور غریبوں نے غلامی کا طوق گلے سے نکال کر آزادی کا صورنہیں پھونکا ؟ کیا نوجوانوں اور طلبہ نے ملک کی آزادی کیلئے عظیم الشان قربانیاں نہیں دی ؟ کیا ہندوستان کے مسلمانوں نے مولانا آزاد کے اس پیغام کو قبول نہیں کیا جس میں انہوں نے جامع مسجد سے اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کہاں جارہے ہو تم !؟ یہیں رک جاؤ ، یہ تمہارے آبا و اجداد کی سرزمین ہے ،اس سے تمہاری یادیں، تاریخیں اور تہذیب وابستہ ہیں۔ کیا دلتوں ، آدی واسیوں اور پسماندہ طبقات نے ملک کو آزاد کرانے کیلئے قربانیاں نہیں دی۔ 20 ہزار سے زائد علما کرام کو آزادی کی لڑائی کے پاداش میں انگریزوں نے تختہ دار پر لٹکا دیاتھا کیا یہ آزادی کیلئے قربانی اور جدوجہد نہیں مانے جائے گی ؟۔ سچائی یہی ہے کہ ہندوستان کی آزادی میں تمام گروپس ، طبقات اور مذاہب کا کردار ہے !ہاں اگر کسی گروہ نے ملک کی آزادی میں حصہ نہیں لیاتھا بلکہ اس نے انگریزوں کا ساتھ دیاتھا تو وہ آر ایس ایس اور سنگھ کا گروہ ہے جس نے اس وقت بھی آزادی کی جنگ میں حصہ نہیں لیا اور آج بھی وہ ملک کو آزاد رکھنے کے بجائے غلام بنانے کی کوششوں پر عمل پیرا ہے ۔تعجب اس بات پر ہے کہ ایسی طاقت ہندوستان میں اب برسر اقتدار ہوچکی ہے اور ملک پر حکومت کررہی ہے لیکن کیاآئندہ بھی عوام ایسی طاقت کو اقتدار سونپے گی؟ انہیں مرکز ی سیاست میں نمائندگی کا موقع دے گی ؟ ایسے سوالات پر سوچنا اور غورکرنا ملک کے تحفظ ، روشن مستقبل اور دستور کی حفاظت کیلئے ضروری ہوگیا ہے اور اسی لئے آج کل اس طرح کے سوالات پوچھے جانے لگے ہیں کہ کیا یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہندوستانی عوام کی یاد داشت بہت کمزور ہے ؟کیا یہ بات صحیح نہیں ہے کہ جب کبھی ملک اور دستور پر آنچ آیا یہاں کی عوام نے پوری قوت کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا ۔کیا یہ بات تاریخی سچائی نہیں ہے کہ جب کبھی ملک پر کسی نے مظالم کے پہاڑ توڑے ، ظالمانہ نظام تھوپا تو اس کے خلاف عوام سینہ سپر ہوگئے۔ کیا یہ مان لیا جائے کہ اتنی بڑی عظیم الشان قربانیاں وہ گروہ بھی بھول جائے گا ؟۔
دستور نے کچھ بنیادی حقوق دیئے ہیں ،خواہ وہ مسلمان ہوں یا ہندو ، دلت ہوں یا آدی واسی ،عیسائی ہوں یا بدھ مت ،اقلیت ہوں یا اکثریت کیا یہ ممکن ہے کہ ان سب کے سمجھدار طبقہ کے سامنے دستور کی پامالی کی جائے۔ دولت کو چندہاتھوں میں گروری رکھ دیا جائے ،غریبوں اور مزدروں کا استحصال کیا جائے ،روزگار کے مواقع بند کردیئے جائیں ، تعلیمی نظام کو تباہ وبرباد کردیاجائے ،ملک کی تہذیب اور ثقافت سے کھلواڑ کیا جائے ، تاریخیں مسخ کی جائے ،اور یہ سب کے سب اپنی آنکھیں بند رکھیں گے ؟ کیا یہ بھی ممکن ہے کہ تمام میڈیا ،عالمی ایجنساںاور انٹر نیشنل رپوٹ سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف پی ایم مودی کے تبصرہ کو عوام قبول کرلے گی جس میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک بتایا جاتا ہے ؟
کیا یہ بات سچ نہیں ہے کہ جمہوریت کے محافظ جہاں عام شہری ہوتے ہیں وہیں میڈیا کو غیر تحریری طور پر چوتھا ستون مانا جاتا ہے پھر کیا اس کے باوجود میڈیا اپنا کردار ادا نہیں کرے گا ؟ کیا میڈیا کے افراد نے بھی عہد کررکھاہے کہ اسے اپنا فریضہ ادا نہیں کرنا ہے ؟ کیا ملک کے صحافیوں نے بھی یہ طے کرلیاہے کہ ظلم کے خلاف وہ اپنی آواز اب بلند نہیں کریں گے ؟ کیا حقائق اور سچ بولنے والے صحافیوں نے بھی حکومت کے سامنے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے ؟ کیا صورت حال یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ جمہوریت کا چوتھا ستون میڈیا اب صرف عوام تعلقات (پی آر ) کا رول ادا کرے گا ؟ کیا میڈیا اب سوال کرنا بندکردے گا ؟ کیا الیکٹرانک میڈیا کی ذمہ داری صرف خبروں کو پیش کرناہے ؟ کیا الیکٹرانک میڈیا نے ارباب اقتدار سے سوال کرنے کا سلسلہ بند کردیا ہے ؟۔
موجودہ حالات میں میڈیا نے اپنا ٹرینڈ بدل دیاہے ۔سنسی خیز خبروں کو پیش کرنے کے علاوہ حکومت کی پالیسیوں پر سوال اٹھانا اور حکمرانوں سے سوال کرنا تقریباً بند ہوچکا ہے ، الیکشن کمیشن ،سی بی آئی ،آر بی آئی اور سپریم کورٹ جیسے آئینی اداروں میں واضح مداخلت ہورہی ہے ۔ملک کی موجودہ حکومت ان سبھی آئینی اداروں کی آزادی سلب کر کے اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتی ہے ، ان اداروں کی خود مختاری پر حملہ کرکے انہیں اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے استعمال کررہی ہے لیکن میڈیا میں سناٹا اور خاموشی ہے ۔
آج کے کالم میں یہ سارے سوالات ہم اس لئے اٹھارہے ہیں ،بہت کھل کر اس بات کو پیش کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 2019 کا عام انتخاب ہمارے سامنے ہے ۔اس الیکشن میں ان سولات کو اٹھانا اورعوام تک پہونچانا بہت ضروری ہے ۔ملک کی مین اسٹریم میڈیا سے ہمیں زیادہ کچھ امید نہیں ہے ، یقین مانئے کہ مین اسٹریم میڈیا اوربطور خاص ٹی وی چینلوں پر ہندومسلم کے درمیان نفرت پیداکرنے والی خبروں کو ترجیح دی جائے گی ، اشتعال انگیز لیڈروں کے بیانات دیکھائے جائیں گے ،بنیادی موضوعات پر کچھ بحث نہیں ہوگی ، اب وہاں ہاتھا پائی اور جنگ بھی شروع ہوگئی ہے۔ حکومت کی کامیابیوں کا پیر وپیگنڈہ کرنے کے علاوہ کچھ اورنہیں دیکھایاجائے گا ۔عالمی ایجنسیوں کی رپوٹ کو نظر انداز کرکے فرضی سروے اور رپوٹس نشر کئے جائیں گے ایسے حالات میں اقلیتوں ،مسلمانوں ،دلتوں ،آدی واسیوں،کسانوں ،نوجوانوں ،طلبہ، ملک کے پسماندہ طبقات اور تمام انصاف پسند سیکولر شہریوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام تک صحیح صورت حال پہونچائیں ۔متباد ل ذرائع کا استعمال کرکے انہیں حقائق سے آگاہ کرائیں ، سنگھ اور فرقہ پرست طاقتوں کی سازشوں سے انہیں آگاہ کریں ۔ان کے فرقہ وارانہ عزام اور ناپاک منصوبوں کے بارے میں گفتگو کریں ہمیں امیدہے کہ ہمارے شہری ان باتوں پر عمل کریں گے اور 2019 کے عام الیکشن کے تناظر میں ایسی کوئی پالیسی بنائیں گے ۔ ہر گھر تک صحیح پیغام پہونچائیں گے ۔
2019 کا عام الیکشن قریب ہے ۔پانچ ریاستوں کے انتخابات نے یہ حقیقت بتادی ہے کہ مودی طلسم ٹوٹ چکاہے ۔عوام جذباتی اور نفرت آمیز سیاست مسترد کرد گئی ہے ۔ رام مندر کی تعمیر ،ناموں کی تبدیلی، مسلمانوں کو بھگانے ،گؤ رکشا ، ہجومی تشدد جیسی پالیسی کو ملک کی عوام نے قبول نہیں کیاہے ،انہیں روز گار ،تعلیم ،سماجی ترقی ،امن سکون اور معاشرہ میں بھائی چارگی چاہیئے ۔ ان کی اولین ضرورت غربت سے نجات اور روزگار کے مواقع ہیں ۔سیکولر پارٹیوں کو انہیں ایجنڈوں کے ساتھ میدان میں آنا ہوگا ۔عوام کے دل کی دھڑکن سننی پڑے گی ۔حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج نے یہ بھی بتا دیا کہ ہندومسلم اور مذہب کی سیاست کامیابی کی دلیل نہیں ہے۔ اس لئے اب سیکولر پارٹیوں کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ ملک کا مزاج سمجھے۔ عوام کو توقعات پورا کرے۔ تعمیر و ترقی ، ملک بھلائی ،معیشت کی مضبوطی ، روزگار کی فراہمی اور بہترین نظام تعلیم مہیا کرانے پر خصوصی توجہ دے ۔ تمام کو ساتھ لیکر چلنے کی مثال قائم کرے ، سماج کے سبھی طبقات کے دلوں کی ڈھڑکن کو سن کر سیاست کرے ۔ کانگریس جیسی بڑی پارٹیوں پر یہ ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کہ وہ چھوٹی اور علاقائی پارٹیوں کو ساتھ لیکر چلے ، انہیں بھی موقع دے اور ایک مضبوط حکمت عملی اختیار کی جائے جس میں کسانوں ،اقلیتوں ،کمزورں ،دلتوں ،آدی واسیوں ، طلبہ ، خواتین اور ملک کے تمام شہریوں کو یکساں حق مل سکے ۔ آزادی ، مساوات اور انصاف سے کوئی محرو م نہ ر ہے ورنہ پھر سیکولر پارٹیوں کا بھی وہی حشر ہوگا جو بی جے پی کا ہوا ہے۔
(کالم نگار معرو ف اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)


All India Milli Council

Jogabai, Jamia Nagar New Delhi
Email: media.millicouncil@gmail.com
Contact No: +91-11-26984023