مسلم خواتین کے ساتھ بدترین مذاق

معصوم مرادآبادی

اپوزیشن پارٹیوں کی تمام تر مخالفت کے باوجود حکومت نے طلاق ثلاثہ کو مجرمانہ فعل قرار دینے سے متعلق بل لوک سبھا سے منظور کرالیا ہے۔ پارلیمنٹ میں بحث کے دوران اپوزیشن نے وہ تمام خامیاں شمار کرائیں جو اس قانون میں موجود ہیں اور جن سے مسلمانوں کے انسانی اور دستوری حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ لیکن حکومت نے کسی کی نہیں سنی اور اس بل کو مسلم خواتین کو انصاف دلانے کے نام پر منظور کرالیا گیا۔ یہ دراصل سیاسی طاقت کے زعم میں اٹھایا گیا ایک اور قدم ہے جو مودی سرکار کی مطلق العنانیت کی گواہی دیتا ہے۔ حالانکہ اس بل کی منظوری کے وقت تمام اپوزیشن پارٹیوں نے لوک سبھا سے واک آؤٹ کرکے اپنا احتجاج درج کرایا لیکن حکومت نرم نہیں ہوئی اور اس نے وہی کیا جو اس کے دماغ میں سمایا ہوا تھا۔ اس بل پر لوک سبھا میں پانچ گھنٹوں تک چلی بحث کے دوران بیشتر اپوزیشن پارٹیوں نے ان بنیادی حقوق کا حوالہ دیا جو مسلم پرسنل لاء کے تحفظ سے متعلق دستور میں دیئے گئے ہیں۔ لیکن حکومت کے ذہن میں مسلم خواتین کو ’انصاف‘ دلانے کا جنون اس حد تک سوار تھا کہ وہ دستور کی پامالی کے الزام کو بھی خاطر میں نہیں لائی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سے قبل جب یہ بل لوک سبھا میں پیش کیاگیا تھا تو اپوزیشن کی طرف سے ایسی مزاحمت دیکھنے کو نہیں ملی تھی جو اس وقت نظر آئی ہے۔ اس وقت مجلس اتحادالمسلمین کے بیرسٹر اسدالدین اویسی نے تن تنہا حکومت کے حملوں کا مقابلہ کیا تھا اور ان کی حمایت میں اپوزیشن کا کوئی ممبر کھڑا تک نہیں ہوا تھا لیکن اس بار ایوان کا نظارہ بدلا ہوا تھا۔ بحث کے دوران جہاں ایک طرف حسب سابق بیرسٹر اویسی نے انتہائی مدلل انداز میں حکومت کو آئینہ دکھایا تو وہیں دوسری طرف کانگریس، این سی پی، ترنمول کانگریس ، سماجوادی پارٹی اور آرجے ڈی جیسی جماعتیں بھی اس بل کی مخالفت میں صف آراء نظر آئیں۔ ہم تو یہ نہیں کہیں گے کہ اپوزیشن جماعتوں کے موقف میں اس تبدیلی کا سبب عام انتخابات کی آمد آمد ہے اور سب کو مسلم ووٹوں کی ضرورت ہے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس معاملے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی خواتین شاخ سے وابستہ سرکردہ ممبران نے اپوزیشن لیڈروں سے ملاقاتیں کرکے ان کا موقف تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور انہیں قرآن اور اسلامی شریعت کے مطالعہ پر بھی مجبور کیا ہے۔ 

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ مودی سرکار نے طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کی مہم سیاسی مقاصد کے تحت شروع کی تھی۔ حکومت کا خیال ہے کہ طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون سازی سے مسلم خواتین کو ایک بہت بڑی مصیبت سے نجات مل جائے گی اور وہ اس خوشی میں بی جے پی کی جھولی اپنے ووٹوں سے بھردیں گی۔ وزیراعظم سمیت بی جے پی کے دیگر لیڈروں کو یہ خام خیالی کہاں سے پیدا ہوئی تھی ہمیں نہیں معلوم۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ طلاق ثلاثہ کو قابل سزا جرم قرار دینے کی حکمراں جماعت کی کوششوں نے اسے سب سے زیادہ مسلم خواتین میں ہی ناپسندیدہ بنا دیا ہے۔ لاکھوں مسلم خواتین نے سڑکوں پر اتر کر اس قانون کے خلاف ملک گیر سطح پر احتجاج کیا۔ انہوں نے اس قانون کو مسلم خواتین کی زندگیوں کو تباہ کرنے والا قانون قرار دیتے ہوئے اسے پوری طرح مسترد کردیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حکومت کے کارندے آج بھی وہی پرانا راگ الاپ رہے ہیں۔ اس بل پر بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیرقانون روی شنکر پرساد نے کہاکہ’’ اس قانون کو سیاست کی بجائے انصاف کی ترازو میں تولا جائے۔ یہ بل حکومت ووٹ بینک کے نظریے سے نہیں بلکہ مسلم خواتین کو بااختیار بنانے کے نظریے سے لے کر آئی ہے۔‘‘ وزیر قانون کے اس بیان کو اگر حقیقت کی ترازو میں تو لاجائے تو واضح ہوگا کہ حکومت نے یہ کام محض اپنے شدت پسند ووٹ بینک کو مطمئن کرنے کے لئے کیا ہے۔ چونکہ اس حکومت کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والا ہر کام اسی نظریے سے کرتی ہے۔ اس ملک میں فرقہ وارانہ سیاست کی کوکھ سے ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی ہر سرگرمی سے طمانیت محسوس کرتا ہے۔ فرقہ پرست طبقے کے درمیان مودی سرکار کی مقبولیت کا سب سے بڑا راز یہی ہے کہ وہ مسلمانوں کو ’ٹھیک‘ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ 

اگر آپ طلاق ثلاثہ کے خلاف لوک سبھا سے منظور کرائے گئے قانون پر سرسری نگاہ بھی ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ یہ ایک طرف جہاں طلاق شدہ مسلم خواتین کو بے یار و مددگار کردینے والا قانون ہے تو وہیں دوسری طرف اس قانون کی کوکھ میں مسلم مَردوں سے انتقام لینے کا جذبہ بھی کارفرما ہے۔ اس خطرے کی طرف واضح اشارہ کانگریس کی ایم پی سشمتا دیو نے بھی کیا ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ ’’ حکومت کی منشاء مسلم خواتین کو انصاف دلانے کی نہیں بلکہ مسلم مَردوں کو سزا دینے کی ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ’’ سپریم کورٹ نے بھی یہ کہیں نہیں کہاہے کہ تین طلاق کو جرم کے درجے میں رکھا جائے۔ ‘‘ سپریم کورٹ کی رولنگ کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاق کہہ کر جدا کرتا ہے تو وہ قانونی طورپر جائز نہیں ہوگا اور طلاق واقع نہیں ہوگی۔ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ کو واضح طورپر غیر قانونی قرار دے دیا ہے تو حکومت اسے قابل سزا جرم قرار دینے کا قانون بنانے پر کیوں تلی ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ سے منظور کرائے گئے بل کے مطابق تین طلاق دینے والے شخص کو تین سال کی سزا ہوجائے گی۔ یعنی اسے ایک ایسے جرم کی سزا ملے گی جو قانونی طور پر سرزد ہی نہیں مانا جائے گا۔ جب وہ تین سال کی سزا کاٹ کر واپس آئے گا تو اسے قانونی طورپر اپنی اس بیوی کے پاس ہی جانا ہوگا جس کی شکایت پر اسے سزا دی گئی تھی۔ ایسے میں میاں بیوی کے درمیان خوشگوار تعلقات کیسے ممکن ہیں اور وہ باقی ماندہ زندگی کس طرح گزاریں گے۔ ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ اس تین سال کے عرصے میں اس کے بیوی اور بچوں کی کفالت کی ذمہ داری کون اٹھائے گا۔ ظاہر ہے شوہر کے جیل چلے جانے کے بعد بیوی اور بچے حالات کے رحم و کرم پر زندہ رہیں گے اور سماج ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھائے گا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قانون مسلم معاشرے میں انتشار پھیلانے کے لئے وجود میں لایاگیا ہے۔ 

پارلیمانی نظام کے مطابق لوک سبھا سے منظور ہونے کے بعد اب اس بل کو راجیہ سبھا میں بھیجا جائے گا اور وہاں منطور ہونے کے بعد اسے باقاعدہ قانونی شکل حاصل ہوجائے گی۔ اس سے قبل لوک سبھا نے طلاق ثلاثہ کے خلاف جو بل پاس کیا تھا،وہ ابھی تک راجیہ سبھا میں تعطل کا شکار ہے کیونکہ وہاں حکمراں جماعت کی اکثریت نہیں ہے۔ اس ترمیم شدہ بل کی بھی راجیہ سبھا میں وہی حالت ہونے کی امید ہے ۔ لوک سبھا سے پاس ہونے کے 42 دن کے اندر اسے راجیہ سبھا سے پاس کرانا ضروری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلی بار AIADMK کے جو ممبران راجیہ سبھا میں حکومت کے ساتھ تھے، انہوں نے اب اپنا موقف تبدیل کرلیا ہے اور وہ لوک سبھا میں اپوزیشن کے ساتھ اس بل کے خلاف واک آؤٹ میں شامل ہوئے ہیں۔ خود اس پارٹی کے لوک سبھا ممبر انور رضا نے پارلیمنٹ میں کہاہے کہ’’ یہ بل غیر آئینی ہے اور اس کے نشانے پر ایک مخصوص فرقہ ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ’’یہ قانون اسلامی شریعت میں براہ راست مداخلت ہے۔ جب شادی سِول معاہدہ ہے تو طلاق جرم کیسے ہوسکتا ہے۔ ‘‘ یہ حقیقت ہے کہ لوک سبھا میں اپنی اکثریت کے بل پر حکومت نے جو بل منظور کرایا ہے، وہ اسلامی شریعت اور مسلم پرسنل لاء میں صریح مداخلت ہے اور اس کا کوئی قانونی ، دستوری یا اخلاقی جواز موجود نہیں ہے۔ اس بل کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ مسلم خواتین کو طلاق ثلاثہ سے آزادی مل جائے گی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون سے مسلمان شوہر اور بیوی کے درمیان طلاق کا اختیار ہی ختم ہوجائے گا۔ اسلام کا ایک نمایاں امتیاز یہ ہے کہ اگر شوہر اور بیوی کے درمیان رشتے خوشگوار نہیں رہ پاتے ہیں تو طلاق یا خلع کے ذریعے دونوں اپنی راہیں جدا کرسکتے ہیں۔ دیگر مذاہب میں بھی اس طریقے کو اختیار کیاگیا ہے لیکن اس قانون سے مسلم مرد اور عورت سے یہ اختیار چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ بل دراصل مسلمانوں کی مذہبی آزادی میں مداخلت ہے اور سب سے بڑا ظلم مسلم خواتین پر ہے جنہیں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل نہیں رہ پائے گی۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں