پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
قسطنطنیہ دنیا کا تاریخی، اقتصادی ،قدیم اور مرکزی شہر ہے ۔تین عالمی سلطنت کی راجدھانی رہاہے ۔ بارہویں صدی تک یہ شہر رومی سلطنت کا مرکز رہا۔ اس کے بعد بازنطینی سلطنت اسے اپنا مرکزی مقام بنایا ۔ 1453 میں اسے عثمانیوں نے فتح کرکے عالم اسلام کا مرکز بنادیا اور 1923 تک یہ شہر خلافت عثمانیہ کی راجدھانی رہا۔ جمہوریہ ترکی کے قائم ہونے کے بعد راجدھانی یہاں سے انقرہ منتقل کردی گئی۔ اس شہر کا نام بھی تبدیل کرکے استنبول رکھ دیا گیا اوراس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ تاہم 1970 کی دہائی کے بعد دوبارہ اس کی رونق لوٹ آئی ۔ شہر کے مضافات میں قائم نئے کارخانوں میں ملازمت کی غرض سے ملک بھر سے عوام کی کثیر تعداد میں استنبول پہنچ گئے۔ شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ تعمیراتی شعبے میں بھی انقلاب آیا اور کئی مضافاتی دیہات توسیع پاتے ہوئے شہر میں شامل ہو گئے۔
استنبول اس وقت ترکی کا سب سے بڑا اقتصادی اور مرکزی شہر ہے ۔ ملک کی جی ڈی پی میں 30 فیصد اسی شہر کا دخل ہے ۔ ایک کڑور سے زائد یہاں کی آبادی ہے ۔ طیب اردگان نے 1994 میں اسی شہر سے میئر کا الیکشن جیت کر اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا تھا ۔ ان دنوں ایک مرتبہ پھر یہ شہر ترکی سمیت دنیا بھر میں موضو ع بحث ہے ۔ یورپ اور امریکہ کی میڈیا میں سب سے زیادہ استنبول کا چرچا ہورہا ہے اور اس کی وجہ استنبول بلدیہ کے انتخابات میں 25 سالوں بعد طیب ارد گان کی پارٹی کے امیدوار کی شکست ہے۔
اسی سال مارچ میں ترک بلدیہ کے انتخابات ہوئے تھے ۔ ترکی کے کل 1351 شہروں میں سے 737 شہروں میں طیب اردگان کی اے کے پارٹی کو کامیابی ملی ۔ 262 شہروں پر سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی سی ایچ پی نے جیت حاصل کی تاہم استنبول ، انقرہ اور ازمیر جیسے بڑے شہروں میں طیب اردگان کی پارٹی جسٹس اینڈ ڈیولپمینٹ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ استنبول انتخابات کے نتائج کو حکمراں جماعت نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اس کے خلاف احتجاج کیا گیا ۔ ترک الیکشن کمیشن نے وہاں دوبارہ انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ الیکشن کمیشن نے حکمراں پارٹی اور طیب اردگان کے دباؤ میں یہ فیصلہ کیا ۔ 23 جون کو استنبول میں میئر کا انتخاب دوسری مرتبہ ہوا جس میں اپوزیشن پارٹی کے امیدوار اکرم امام اولو نے دوبارہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ ووٹوں سے جیت حاصل کی جبکہ اے کے پارٹی کے امیدوار اور ترکی کے سابق وزیر اعظم علی بن یلدرم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ اے کے پارٹی کی یہ شکست عالمی سطح پر موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور اس کی ایک اہم وجہ طیب اردگان کا یہ جملہ بھی ہے جو انہوں نے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ ” جو استنبول جیت لے گا وہی پوار ترکی جیتے گا “۔
ترکی میں رجب طیب اردگان سترہ سالوں سے مسلسل اقتدار میں برقرار ہیں ۔ 2003 سے 2014 تک وہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں ۔ اس کے بعد صدر رہے ۔ 2017 میں ریفرنڈم کے ذریعہ انہوں نے ملک کا نظام پارلیمانی جمہوریت سے صدارتی جمہوریت میں تبدیل کردیا ۔ 2018 سے اب تک وہ وہاں کے بااختیار صدر ہیں ۔ وزیر اعظم کا عہدہ ترکی میں ختم ہوچکا ہے اوران کے پاس وسیع اختیارات ہیں ۔
طیب اردگان نے اقتدار میں آنے کے بعد ترکی میں روزگار ، معیشت ، تعمیرات ،تعلیم سمیت متعدد شعبوں میں بے نظیر کام کیااور 1923 کے بعد جو ترکی معیشت ، تعلیم ،مذہب اور ثقافت کے معاملے میں اپنے ٹریک سے دور جاچکا تھا، اسے انہوں نے واپس اس کا مقام دیا تاہم گزشتہ ایک سال سے ترکی کی معیشت ایک مرتبہ پھر بحران سے دوچار ہے ۔ روزگار کے مواقع میں کمی آئی ہے جس سے وہاں کے عوام میں کچھ ناراضگی کے آثار نظر آرہے ہیں ۔
ترکی کے بڑوں شہروں میں اے کے پارٹی کی شکست طیب اردگان کیلئے بہتر شگون نہیں ہے ۔ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے طیب اردگان گذشتہ سترہ سالوں سے مسلسل اقتدار میں ہیں جس سے عوام میں کچھ اکتاہٹ آئی ہے اوروہ کچھ تبدیلی چاہتے ہیں ۔ معاشی بحران اور روگاز کے مواقع میں کمی کی وجہ سے بھی عوام کا موڈ کچھ تبدیل ہورہا ہے ۔ دوسری طرف ترکی کی سب بے بڑی اپوزیشن Republican People’s Party (سی ایچ پی ) نے اپنی پالیسی بہت زیادہ تبدیل کردی ہے ۔ لبرلزم اور سیکولرزم کی انتہاء پر پہونچی ہوئی یہ پارٹی اب اعتدال کے راستے پر گامزن ہوچکی ہے۔ طیب اردگان کے انداز سیاست کو ب اس پارٹی کے رہنما بھی اپنارہے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ مذہب مخالف اقدامات سے گریز کریں گے۔ اسلام اور مذہب کے خلاف کسی طرح کی پالیسی نہیں اپنائیں گے۔ طیب اردگان کی مقبولیت کی سب سے بڑ ی وجہ ان کی اسلام پسندی اور امت مسلمہ کے مجموعی مسائل پر نظر ہے اور یہی خوبی اب اپوزیشن پارٹی بھی اپنارہی ہے جس کی بنیاد پر وہاں کے عوام کایہ نظریہ بن رہاہے کہ اے کے پارٹی طویل عرصے سے اقتدار میں ہے اس لئے اب دوسروں کو بھی موقع ملنا چاہیئے۔ لیکن یہ رجحان بہت محدود ہے ۔
زیرنظر کالم لکھنے سے قبل ترکی میں موجود اپنے چند صحافی دوستوں سے ہم بات چیت کی تو انہوں نے مذکورہ سطور کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ طیب اردگان اور ان کی پارٹی کی مضبوط حیثیت ابھی بھی برقرار ہے تاہم اب انہیں اپنی پالیسی میں کچھ تبدیلی کرنی پڑے گی ،انہیں مزید کام کرنا ہوگااور معیشت کو بہتر بنانا ہوگا ورنہ ممکن ہے کہ اس کا اثر 2023 میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر بھی پڑے کیوں کہ ترکی میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے ملکی انتخابات متاثر ہوتے ہیں۔ بڑے شہروں میں صرف قونیہ ان کے پاس رہ گیا ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ممکن ہے دو سال بعد قبل از وقت یہاں انتخابات کرادیئے جائیں ۔
ترکی کیلئے 2023 بہت اہم ہے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کو سو سال پورے ہورہے ہیں۔ معاہدہ لوزان کی مدت مکمل ہورہی ہے ۔ اس لئے طیب اردگان ان دنوں تک وہاں کے صدر بنے رہنا چاہتے ہیں دوسری طرف یورپ اور امریکہ اس کے شدید خلاف ہے۔ اس کی پوری کوشش ہے کہ کم از کم معاہدہ لوزان کے مکمل ہونے کے وقت اردگان اقتدار میں برقرار نہ رہیں ۔ معاہدہ لوزان ترکی کی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ 24 جولائی 1923 کو سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں جنگ عظیم اول کے اتحادیوں اور ترکی کے درمیان ایک معاہد طے پایا تھا جسے معاہدہ لوزان کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ 143 دفعات پر مشتمل ہے جس میں یونان، بلغاریہ اور ترکی کی سرحدیں متعین کی گئیں اور قبرص، عراق اور شام پر ترکی کا دعویٰ ختم کرکے آخر الذکر دونوں ممالک کی سرحدوں کا تعین کیا گیا۔ ابنائے باسفور س پر ترکی کی ملکیت ختم کردی گئی ۔ عثمانی خاندان کو جلاوطن کردیا گیا۔ 2023 میں یہ معاہدہ مکمل ہوجائے گا ۔ ترکی اس کا پابند نہیں رہے گا اور پھر اپنی عظمت رفتہ حاصل کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ ابناء باسفور س سے گزرنے والے جہازوں سے ٹیکس لینے کا اختیار حاصل کرلے گا لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ترکی میں ایک ایماندار ، قابل ،بیباک اور غیرت مند حکمران رہے گا اور ان اوصاف کے حامل طیب اردگان ہیں۔ اسی لئے ترکی سمیت دنیا بھر کے مسلمان معاہدہ لوزان کی تکمیل تک طیب اردگان کو بطور صدر اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ یورپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکیں ۔ امت مسلمہ کے حق میں تابناک اور عظیم فیصلہ کرسکیں۔ استنبول میئر کے انتخابات کو عالمی سطح پراتنی اہمیت ملنے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ یورپ میں کئی ملکوں کے صدر اور وزیر اعظم تبدیل ہوجاتے ہیں لیکن عالمی میڈیا میں اس خبر کا کوئی چرچا نہیں ہوتا ہے لیکن ترکی میں بلدیاتی انتخابات پر گھنٹوں ڈبیٹ ہورہی ہے ۔ یورپ کی پوری کوشش طیب اردگان کو کمزور کرنے پر مرکوز ہے لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔ طیب اردگان ایک ہوشیا ر، غیرت مند ، ذی شعور اور باکمال سیاست داں ہیں ۔ ترکی کے شاندار مستقبل اور امت مسلمہ کی بھلائی کے پیش نظر ان کا اقتدار میں باقی رہنا ضروری ہے ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز ایڈیٹر اور تجزیہ نگار ہیں )
stqasmi@gmail.com