دو ٹوک :قاسم سید
کیا وہ دور آگیا ہے کہ رقاصہ کی پازیب کے گھنگرو اور کارپوریٹ زدہ مفادات کی روشنائی بھرے قلم کے کردار میں فرق کرنا مشکل ہے جو داد وہش کی امید پر حرکت میں آتے ہیں۔ کیا دہشت گردی واقعی منافع بخش انڈسٹری میں تبدیل ہوگئی ہے کہ اس بہتی گنگا میں ہر کوئی ہاتھ دھونے کا موقع گنوانا نہیں چاہتا اور کیا کارپوریٹ اردو میڈیا کے بارے میں بعض حلقے جن اندیشوں اور وسوسوں کا اظہار کرتے رہے ہیں وہ حقیقت بن کر سامنے آرہے ہیں جو اب تک اشاروں کنایوں میں اپنا ایجنڈہ تھوپ رہا تھا تمام تکلفات و احتیاط بالائے طاق رکھ کر ملت کی جڑوں پر کلہاڑے مارنے لگا ہے۔ در اصل ڈاکٹر ذاکرنائک کے حالیہ قضیے نے کئی اسرار و رموز سے پردہ اٹھا دیاہے وہ چہرے کھل کر سامنے آگئے ہیں جو پردہ نشینوں میں شامل تھے۔ وہ بگلا بھگت بھی دکھائی دینے لگے جو تالاب کنارے معصومیت کے ساتھ اپنے شکار کی غفلت کا انتظار کرتا ہے۔ وہ کالی بھیڑیں بھی نمایاں ہوگئیں جو صفوں میں چھپی بیٹھی تھیں۔ ذاکر نائک کے تنازع نے وہ آئینہ تھما دیا جس نے سب کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ گندم نما جو فروش یا رائے صبر کھو بیٹھے، کہیں دلوں میں برسوں کی چھپی کدورتیں، عداوتیں، بغض و کینہ اور نفرتیں، مسلکی تعصبات ابل کر باہر آگئے۔ بغض معاویہ میں (حب علی میں نہیں) حساب کتاب برابر کیاجانے لگا۔ ٹی وی چینلوں پر کبھی نظر نہ آنے والے چہرے ردائے شرافت اتارتے، تہذیب کادامن چھوڑتے اور قلم زہر اگلنے لگے۔ رسوائی کو شہرت سمجھنے والوں کی بے قراریاں قابل حیرت ہیں تو دل یہ ماننے سے قاصر ہے کہ کتنے مار آستیں خاموشی کے ساتھ اتحاد و اتفاق کی دہائی کی آڑ میں مسلمان مسلمان کھیل رہے ہیں، سرکاری وظیفہ خواروں کی فوج جس طرح متحرک ہوئی اس نے کم از کم ایک لکیر ضرور کھینچ دی اور مستقبل میں ہونے والے بڑے نقصان سے بچنے کا راستہ دکھادیا۔ بہر حال نائک معاملہ میں جہاں عبرت کے کئی پہلو ہیں وہیں امید و رجائیت کی نئی کھڑکیاں بھی کھلیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائک اسلام کے مبلغ ہیں یا دہشت گردی کے پرچارک، وہ امن کے داعی ہیں یا فسادی، سماجی مصلح ہیں یا انتشار پسند، وہ ہندوستان کے لئے خطرہ ہیں یا خطرے سے آگہی دینے والے، نام و نمود کے لئے الگ کائنات بنائی یا خدا کا بھولا پیغام بتانے میں قوت لگا رہے ہیں،اس کافیصلہ تو عدالت میں ہوگا۔ حکومت کی تفتیش ابتدائی مراحل میں ہے۔ مہاراشٹر سرکار کی ایس آئی ڈی کلین چٹ دے چکی ہے اور ابھی تک ان کے خلاف ایک ایف آئی آر تک نہیں ہوئی ہے لیکن ان کامقدمہ میڈیا ٹرائل کے سبب گھر گھر پہنچ گیا۔ اسلام اور مسلمان مین اسٹریم میڈیا کے ٹاپ ایجنڈے پر آگئے۔ دن رات اس کی تشہیر کی گئی۔ ذاکر کو خطرناک دہشت گرد ثابت کرنے، ان کے ڈانڈے دنیاکے تمام معروف دہشت گردوں سے ملانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ یرقان زدہ میڈیا کا بڑا سیکشن اس مہم میں لگ گیا جو کام ذاکر نائک اور پیس ٹی وی برسوں میں نہ کرسکے وہ میڈیا ٹرائل نے چند دنوں میں کردکھایا۔ انہیں گھر گھر کا حصہ بنا دیا۔ عام آدمی جو ان کے نام اور کام سے واقف نہ تھا اب اچھی طرح جان گیا۔ پرائم ٹائم پر گھٹیا سطحی مباحث کے ساتھ عالمانہ سنجیدہ بحثیں دیکھنے کو ملیں۔ ان لوگوں میں اسلام کے بارے میں جاننے کا اشتیاق ہوا جو کسی پروپیگنڈہ سے متاثر نہیں ہوتے۔ میڈیا ٹرائل میں وہی عجلت، وہی دیوانگی، جنون، پاگل پن اور ہیجان نظر آیا جو مسلم مخالف ذہنیت کی ہر ایسے موقع پر عکاسی کرتا ہے۔ اس کا بس چلے تو فوراً ہی کورٹ مارشل کردے اور پھانسی پر چڑھادے، جس کوہر مسلمان میں اجمل قصاب، یعقوب میمن اور افضل گرو نظر آتا ہے، مگر حافظ سعید سے وید پرتاپ ویدک کی ملاقات کو عام خبر کی طرح لیتا ہے، مگر اطمینان کی بات یہ ہے کہ ملک میں ابھی آئین و قانون موجود ہے۔ عدالتیں اس کے تحت فیصلے دیتی ہیں۔ میڈیا ٹرائل دباؤ ضرور بناتا ہے لیکن عدالتیں اس سے متاثر نہیں ہوتیں۔ میڈیا کا ایک طبقہ وہ بھی ہے جو کبھی ذہنی توازن نہیں کھوتا اور اعتدال کی راہ پر رہتا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ہنگامہ پسندی اور ٹی آر پی کی لڑائی میں یہ طبقہ پیچھے چھوٹتا جارہا ہے اور نقلی راشٹر بھکتوں کے نشانے پر ہے جب کہ مسلمان آج بھی اپنی کم مائیگی، بے بضاعتی پر صرف رونے کا حق رکھتا ہے۔ میڈیاکے معاملے میں مجرمانہ غفلت نے احساس محرومی کو اور شدید کردیا۔ مسجدوں، مدرسوں اور بے مقصد کانفرنسوں پر فیاضی کے ساتھ خود کو لٹانے والوں کے ایجنڈے میں نہ پہلے کبھی میڈیا تھا اور نہ آج ہے۔ ذاکر نائک کے تنازع نے اس پہلو کو بھی زندہ کردیا۔
جہاں تک کارپوریٹ اردو میڈیا کا سوال ہے کم از کم ہمیں یہ غلط فہمی کبھی نہیں رہی کہ وہ اسلام کی تبلیغ، مسلمانوں کے موقف کی ترجمانی اور اردو کی محبت کے لئے میدان میں آیا ہے۔ اس لئے پس پشت وسائل کی بے پناہ طاقت کو علمائے کرام کی دعاؤں اور قارئین کے بھر پور تعاون نے مزید طاقتور بنادیا، اسے کھاد فراہم کی، تندرست و توانائی دی، مگر زیرک نگاہ رکھنے والے یہ جانتے تھے کہ ان بتوں کی آستینوں میں آزر چھپے ہیں جو عیاری کے ساتھ اپنا ہنر آزما رہے ہیں، ملی اتحاد کی جڑوں میں تیزاب ڈال رہے ہیں، مہارت کے ساتھ مسلکی تعصبات ابھارے جارہے ہیں۔ عقل عیار ہے، سو بھیس بدل لیتی ہے عشق بے چارہ نہ ملا ہے نہ حکیم، کارپوریٹ میڈیا وہی کام کر رہا ہے جو اس کامقصد تخلیق ہے۔ آنکھیں تو اب کھلی ہیں وہ تو آغاز سے ہی اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں سرگرم ہے، اس میں حیرت اور صدمے کی بات کیاہے اگر ہم سے پس پردہ ایجنڈے کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے تو یہ اس کا قصور نہیں ہے۔ وہ اپنے کاز میں مخلص ہے اور آگے بھی رہے گا۔ کیاموجودہ غصہ جھاگ ثابت ہوگا؟ کیونکہ ہم جذباتی ہیں، دیر پاحکمت عملی تیار کرنا اور اس پر عمل کرنا ہمارے خمیر میں کہاں، اچھی بات یہ ہے کہ کارپوریٹ اردو میڈیا نے ان کپڑوں کو اتار دیا اور اصل روح کے ساتھ سامنے آگیا۔ اس کا دو نکاتی ایجنڈہ ہے جذباتیت کو بھڑکانے کے ساتھ مسلکی تعصبات کو ہوا دینا اور فحاشی و عریانیت کو غیور مسلم گھرانوں میں داخل کرنا، اس میں شائع ناقابل بیان اشتہارات اس کا مظہر ہیں، جن پر عام آدمی تو دور علمانے بھی احتجاج نہیں کیا۔
ذاکر نائک پر بحث نے ایک اور خطرے کی گھنٹی بجادی ہے جس کی طرف بارہا توجہ دلائی گئی، اس موقع پر ہونے والے مباحث اور تحریروں نے یہ واضح کردیا کہ مسلکی منافرت مسلم معاشرہ کی تلخ حقیقت ہے جو بھیانک شکل اختیار کر گئی ہے۔ قوت برداشت کامادہ ختم ہوتا جارہا ہے، تحمل و بردباری، اعتدال، افہام و تفہیم کی گنجائشیں کم ہورہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آرام پسند اس میں بھی یہودو نصاریٰ اور حکومت کا ہاتھ تلاش کرلیں، لیکن یہ ایٹم بم کی طرح تباہ کن ثابت ہوگا۔ ہم بدقسمتی سے دوسروں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ یرقان زدہ سیاست نے وقفہ وقفہ سے مفروضہ 72 فرقوں کا تذکرہ کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم کتنے خانوں میں بنٹے ہیں۔ بس ماچس جلانے کی دیر ہے۔ اگر ہم نے اس کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا تو اللہ نہ کرے وہ دن دور نہیں جب مساجد خانہ جنگی کی تصویر بن جائیں اور ہندوستان مسلمانوں کے لئے پاکستان کی طرح ہو جائے۔ فتاویٰ کی فیکٹریاں حرکت میں آگئی ہیں۔ مسلمانوں کو کافر بنانے کا عمل تیزہو سکتا ہے۔ نائک کا سرکاٹنے والوں کو انعام دینے والوں کی فہرست بڑھ سکتی ہے، اس میں سادھوی پراچی کے ساتھ اور کون کون کھڑا نظر آئے گا یہ دیکھنا باقی ہے۔ یقیناًوہ قوتیں جو اسلام پر مسلک کو ترجیح دیتی ہیں اور اسلام کو اس کاتابع بناتی ہیں وہ اسلام اور مسلمانوں کی کھلی ہوئی دشمن ہیں جو اس کو ہوا دیتے ہیں۔ ان کاجرم بھی ناقابل معافی ہے۔ وہ قیادت تو دور مسجد کی امامت کے بھی لائق نہیں۔ مسالک کا اختلاف اندھی دشمنی کی سرنگ میں داخل ہو کر راستہ بھٹک جاتا ہے۔ اس سیلاب تند خوپر باندھ نہیں بنایا تو یہ عقل و خرد کی بستیاں ویران کردے گا۔ ذاکر نائک کے نظریہ و خیالات اور طریقہ کار سے اختلاف کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسلام مخالف طاقتوں کے آلہ کار بن جائیں۔ فروعی تنازعات کے سبب ملی مفادات کا گھلا گھونٹ دیں۔ تضحیک و تمسخر کاموضوع بن جائیں۔ اگر وہ غلط ہیں تو عدالت و قانون کو انہیں غلط ثابت کرنے کاموقع تو دیاجانا چاہئے۔
ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ قومی یکجہتی اور دہشت گردی مخالف کانفرنسوں جیسے پروگراموں کا حاصل کیا رہا۔ حکومتوں کے رویہ میں تبدیلی آئی؟ سماج کا ذہن بدلا؟ حالات بگڑتے کیوں گئے۔ سائیکل پنجر جوڑنے والے مسلمان سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے بعد اب علماو مبلغین پر ہاتھ آزمایا جارہا ہے، تو کیاہماری توانائی غلط سمت میں صرف ہو رہی ہے؟ کیا مسلکی یکجہتی کانفرنسوں کے ذریعہ اتحاد کی ہلتی دیواروں کو سنبھالنے کی ضرورت نہیں ۔ بین مسالک غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ ہم غیر مسلموں کو اسٹیج پر بٹھا سکتے ہیں تو دینی بھائیوں کو کیوں نہیں۔ جنہیں اسلام سے چڑ ہے وہ اسلام اور مسلمانوں کے علاوہ کچھ نہیں سوچتے، انہیں نہ صوفی اسلام سے پیار ہے نہ سیکولر جمہوری اسلام سے، نہ خانقاہوں سے محبت ہے نہ درگاہوں اور امام باڑوں سے۔ وہ مدرسوں کو اچھی نظر سے دیکھتے ہیں نہ مسجدوں کو، خواہ کسی کے ہوں، یہ لڑائی آئیڈیالوجی کی ہے ہندوستان جنگ آزادی کے بعد نئی جنگ سے نبرد آزما ہے۔ سیکولر فورسز منافقانہ روش کے سبب بیک فٹ پر ہیں۔ لیفٹسٹ بھی تھکے ہارے نظرآرہے ہیں، اسلام میں ہی مزاحمت کی قوت ہے،ہندتو آئیڈیا لوجی مسلکی تعصب کو ڈھال بناکر اسلام پر حملہ آور ہے۔ یہ فرد واحد ذاکر نائک کا مسئلہ نہیں ہے، پوری کمیونٹی اور اسلامی آئیڈیا لوجی کی بقا اور آئینی حقوق کے تحفظ کامسئلہ ہے۔ اگر ذاکر نائک نہیں بچا تو پھر ہندوستان کا کوئی بھی عالم خواہ کتنا بڑا کیوں نہ ہو، کوئی ادارہ خواہ کتنا معزز و محترم ہو اور کسی بھی دینی جماعت کا سربراہ خواہ کتنا طاقتور کیوں نہ ہو، محفوظ نہیں رہے گا۔ ذاکر نائک ملت اسلامیہ ہند کا ایسڈ ٹسٹ ہے۔ اجتماعی یکجہتی و اتحاد ہی بقا کی ضمانت ہے، سیکولر پارٹیوں نے ایک بار پھر آزمائش کے وقت تنہا چھوڑ دیا۔ یہ جنگ اپنے بازؤوں کے سہارے لڑنی ہے۔ مورخ منتظر ہے کہ ہم ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کے کردار کے ساتھ جینا چاہتے ہیں یا میر جعفر و میر صادق کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں، فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار روزنامہ سینئر صحافی اور روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ہیں)
qasimsyed2008@gmail.com