کسی قیامت کا انتظار ہے؟

قاسم سید

یہ سوال بظاہر بڑا عجیب و غریب ہے کہ ذاکر نائیک اور مایاوتی کے درمیان کیا فرق ہے اور ہمارے لئے ان میں کیا سبق ہے۔ ان کے حوالہ سے سیاسی ماحول میں گرمی کیا اشارہ کرتی ہے اور آخر مسلمان اور دلت کے خلاف محاذ کیوں کھول دیا گیا ہے۔ روہت ویمولا کی خودکشی کے اسباب، گجرات میں مردہ گائے کا چمڑہ اتارنے والے دلت نوجوانوں کی کار سے باندھ کر بے رحمانی پٹائی جیسے واقعات اور ملک کی سب سے طاقتور دلت لیڈر مایاوتی کے خلاف بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر کی ویشیا کہہ دینے کی جرأت کس سمت اشارہ کرتی ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی مہم، ان کی حب الوطنی پر شبہ، ان کی ملک سے وفاداری پر سوالیہ نشان لگانے کی ناپاک سازش، گائے کے نام پر اخلاق کا قتل، گئو رکشکوں کے ہاتھوں دو نوجوانوں کو گائے کا گوبر اور پیشاب پلانے جیسے واقعات اور ذاکر نائیک کو نشانے پر لینے میں کیا یکسانیت ہے، یہ محض اتفاق ہے یا سوچے سمجھے منصوبہ کا حصہ۔ مسلمانوں کے مسلکی اختلافات کو اچھالنے، ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے اور اسلام و مسلمانوں کو بدنام کرنے کے پیچھے کیا مقصد ہے؟ کیا یہ بی جے پی کے سینئر لیڈر سبرامنیم سوامی کے اس ببانگ دہل اعلان کی صدائے بازگشت ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کریں گے، ان کو آپس میں لڑائیں گے۔ فی الحال کچھ لوگ ہمارے حامی و ناصر ہیں۔ اگر ہاں تو ہمارے پاس اس کا کوئی حل ہے؟ یا گریبان چاک کرنے، کیچڑ اچھالنے اور مناظرہ بازیوں کو دیکھ کر کڑھتے رہیں اور اپنے خول میں سمٹے یااللہ کرتے رہیں۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ قابل غور ہے کہ مسلمانوں اور دلتوں کے ساتھ اختیار کیا جانے والا طرز عمل ورون ووستھا کی طرف واپسی ہے اور ہندوستانی سماج کو منواسمرتی کے مطابق چلانے کی برہمنی سامراجیت کی خواہش شدت سے ابھر آئی ہے۔

جیسا کہ پہلے بھی لکھا گیا ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں جو مختلف تہذیبی، لسانی، مذہبی اور سماجی اکائیوں کا مسکن ہے، اتھل پتھل پیدا کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ ان اکائیوں کو باہم دست و گریباں کردیا جائے، ان کے درمیان بداعتمادی اور نفرت کی خلیج کو اتنا بڑھا دیا جائے کہ وہ ختم نہ ہوسکے۔ ایک دوسرے کی بات کو ٹھنڈے دماغ و نیک نیتی سے سوچنے کی پوزیشن میں نہ رہیں۔ ہزاروں فسادات، بابری مسجد کا انہدام، گجرات فسادات 2002 اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کے درمیان نفرت و عداوت کی آگ بھڑکانے کا سب سے سہل راستہ یہ ہے کہ مسلکی تعصبات کو ہوا دی جائے، مباحث کا بازار گرم کیا جائے، لایعنی مناظروں کی سرپرستی کی جائے اور فروعی اختلافات کو جنگ و جدال کا موضوع بنادیا جائے۔ سوشل میڈیا پر نفرتوں کا لاوا بہتا ہوا دکھائی دے جائے گا۔ یہ کام کتنی محنت، لگن اور اخلاص کے ساتھ ہورہا ہے۔ دل و دماغ میں خوش گمانیوں کی تسبیح پڑھنے کے باوجود گردش و پیش پر نظر پڑتی ہے تو دھڑکنیں توازن کھو بیٹھتی ہیں۔ ہمارے تقدیر گروں اور فیصلہ سازوں نے اپنی ترجیحات کی بساط بچھائی ہے، انھیں شاید علم نہیں کہ چہارسو بارودی سرنگیں بچھ گئی ہیں، سیل فصیل تک آگیا ہے اور ہم مجرمانہ غفلت کی حد تک لاتعلق ہوگئے ہیں۔ کانٹوں کا ایک کھیت تلف کردیں تو ان کے بوئے ہوئے بیجوں سے خارزار اگتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ارباب حل و عقد کسی قیامت کے منتظر ہیں۔ ان کی زبان گنگ کیوں ہے؟ وہ ان سازشوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا سمجھنا نہیں چاہتے؟ یہ ڈوریں کہاں سے ہل رہی ہیں؟ کون ان کی سرپرستی کرتا ہے؟ اس کی تہہ تک پہنچنے کی فکر نہیں یا سب کچھ جانتے بوجھتے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلی ہیں؟

ترکی صدر طیب اردگان کو فوجی بغاوت کی ناکامی پر طویل خط لکھنے اور مبارکباد دینے والوں کو کروٹ بدلتے ہندوستان کے مکینوں کی بھی کوئی فکر ہے؟ معاف کیجئے کیا عیدملن جیسے پروگرام نفرت و عداوت کی آندھیاں تھامنے کے لئے کافی ہیں؟ کیا زمین پر کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں؟ راوی سچ مچ خیر و عافیت لکھتا ہے؟ کیا اخبارات کو پریس ریلیز جاری کرکے ذمہ داریوں سے مطمئن ہوجانا چاہئے؟ وزیراعظم مودی کو درازیٔ عمر کی دعا دینے والوں کے زرخیز دماغ میں کبھی پل بھر کے لئے یہ خیال آیا کہ وہ مظلوم طبقات کے ساتھ ناانصافیوں اور اقلیتوں کے حقوق کی پامالیوں کی طرف بھی توجہ دلانے کی زحمت کرکے ایک اور مکتوب لکھ ڈالیں؟ آخر خاموشی کا مطلب کیا لیا جائے؟ خوف ہے، کوئی مسئلہ ہے نہیں تو دبکے ہوئے کیوں ہیں؟ جس ملت کے نام پر سیاست کی جاتی ہے، اعتماد میں کیوں نہیں لیتے؟ اسے کس کے سہارے پر چھوڑ دیا ہے؟ خارجی محاذ پر بے حد سرگرمیاں دکھانے والے مہینہ کے آدھے عرصہ غیرممالک میں گزارنے والے داخلی محاذ پر برف کی طرح سرد کیوں پڑے ہیں؟ جب باڑھ خود کشت آرزو پر منھ مارتی ہو اور ہم حلقوں، گھروندوں، دائروں اور جماعت کی سیاست میں گرفتار ہوں بلکہ ان کے تعلق سے ایسے رویوں کا تعین کرتے وقت سب سے پہلے اس زاویہ پر نظر پڑتی ہو کہ اس سے ہمیں یا ہمارے حلقہ کو کیا فائدہ ہوگا، تو تشویش ہونا فطری ہے۔ ہمارا انتشار اور گروہی سیاست مزید اس کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ اپنے خول میں سمٹے رہیں، مسلکی بنکروں میں بیٹھ کر فقہی دلائل کے پتھر اچھالتے رہیں اور سرپھوڑکر گنتی کرتے رہیں۔

ذاکر نائیک کے حوالہ سے جو رویہ سامنے آیا اس نے سب کو ڈرادیا ہے۔ دیوار میں دراڑیں صاف دکھائی دینے لگی ہیں۔ میڈیا کا ایک بڑا سیکشن اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ مجروح کرنے میں مصروف ہے۔ بدقسمتی سے تھوڑا گولہ بارود ہم بھی فراہم کررہے ہیں۔ کچھ لوگ بندوقیں بھر بھرکر دیتے رہے، ہمارے کاندھوں کا بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا جانے لگا ہے تو ان کا کام اور آسان ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے لئے بھی نہیں سوچا کہ آپس میں کتنا لڑیں، گتھم گتھا ہوں مگر جب سوال اسلام اور مسلمان کی عفت و پاکیزگی کے تحفظ کا ہو تو قیصرروم کو خط کے جواب میں حضرت معاویہؓ کا وہ تاریخی خط یاد کرلیں۔ اس نے حضرت علیؓ کے مقابلہ حضرت معاویہؓ کو حمایت کی پیشکش کی تو انھوں نے یہ موقف اختیار کرنے میں ذرا سی دیر نہ لگائی کہ یہ ہمارا معاملہ ہے، آپس میں نمٹ لیں گے۔ اگر تم نے علیؓ کی طرف میلی آنکھ اٹھائی تو میں ان کے لشکر کا پہلا سپاہی ہوں گا۔

اختلاف کو مخالفت اور دشمنی بنالینا خودکشی کا راستہ ہے، نائیک کی ہر بات سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا، مگر انھیں دہشت گردی کا ماسٹر مائنڈ کہنے والوں کے ساتھ جاکر کھڑا ہوجانا بنیاد میں پانی بھرنے کی وارننگ دیتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ کاظمی پر دہشت گردی کے الزامات لگے تو سب کھڑے ہوگئے۔ اس وقت کسی کا مسلک آڑے نہیں آیا۔ شیخ یٰسین اختر مصباحی کو پوچھ گچھ کے لئے لے جایا گیا تو پورا ملک سراپا احتجاج ہوگیا۔ معاملہ عالم دین کی عزت و عظمت اور مسلمانوں کے وقار کا تھا۔ یہی حساسیت ذاکر نائیک کے معاملہ میں کیوں دم توڑ گئی، اس پر سرجوڑکر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، لگتا ہے کہ وہ خدانخواستہ کسی زلزلہ اور قیامت کے منتظر ہیں۔ مذکورہ واقعات انھیں بیدار کرنے یا کروٹ بدلنے کے لئے کافی نہیں۔ دلتوں نے جھوٹی محبتوں کے سمندر میں چھپی سازش کی لہروں کو محسوس کرلیا ہے۔ گجرات سے لکھنؤ تک وہ سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ روہت ویمولا کی خودکشی اس کا نقطۂ آغاز تھی، جے این یو ایپی سوڈ نے مردہ پڑے کمیونسٹوں میں کرنٹ دوڑادیا، مایاوتی کو ویشیا کہہ کر شاید دلت سماج کا پارہ دیکھا گیا ہے اور اس نے بتادیا کہ وہ اپنی لیڈر کی توہین و بے عزتی برداشت نہیں کرسکتے۔ ان کے تیور دیکھ کر بی جے پی ہی نہیں دیگر سیاسی پارٹیاں بھی سہم گئی ہیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ملک خطرناک راستہ کی طرف جاتا نظر آرہا ہے، جہاں دلت سماج کی سب سے طاقتور اور بااختیار شخصیت بھی محفوظ نہیں ہے، جو چار مرتبہ اترپردیش کی وزیر اعلیٰ رہ چکی ہے۔ منووادی ذہنیت نشانے پر لے سکتی ہے، جو ہندو سماج کا حصہ ہے، دلتوں کو ان کے پرانے مقام پر لوٹانا چاہتی ہے تو مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ باعث حیرت نہیں ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ووٹوں کی مجبوری ہے، انھیں کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا۔ ایک زمانہ میں مسلمان بھی یہی مجبوری تھے، ہر کوئی ٹھوڑی میں ہاتھ ڈالے پھرتا تھا کہ ناراض نہ ہوجائیں، کہیں بادشاہ گر کہا گیا مگر اب کوئی سیدھے منھ بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ خیریت چاہتے ہو تو ووٹ دو وہ بھی بغیر بتائے ورنہ گھر بیٹھو۔ خوش فہمی میں مت رہیے، یہ سلسلہ یہیں نہیں تھمے گا۔ جو خیر منارہے ہیں یا بغلیں بجارہے ہیں، ان کا نمبر بھی آئے گا۔

وقت آگیا ہے کہ دینی و سیاسی مسلم جماعتیں ایک ساتھ آئیں، سر جوڑکر بیٹھیں، مسلمانوں کو حوصلہ دلائیں، فرقہ بازوں کو بے نقاب کریں، ان کو اپنی صفوں سے نکال باہر کریں، تمام سرکردہ علماء ایک اسٹیج پر آکر پورے ملک کا دورہ کریں، سرکار اور میڈیا سے ڈائیلاگ کریں، اجتماعی موقف سامنے رکھیں اور خدا کے لئے مسجد اور مدرسہ کے ساتھ میڈیا کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کرلیں، ہمارے آدھے مسائل حل ہوجائیں گے۔

qasimsyed2008@gmail.com