کیا مسجد اقصی پر یہودیوں کے قبضہ کی سازش کامیاب ہو جائے گی؟ 

فلسطینیوں کو خدشہ ہے کہ ٹرسٹ کی کسی غلطی کے سبب اسرائیل کو ان مقدس مقامات پر قبضہ کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔

مسلح اسرائیلی پولیس کے ساتھ مذہبی یہودیوں کی ایک جماعت مسلمانوں کے مقدس مقامات کی سیر پر ہے۔ انہیں یہاں سیر و تفریح کی اجازت تو ضرور ہے، تاہم یہاں کسی طرح کی عبادت نہیں کر سکتے۔

حالیہ برسوں میں کچھ یہودی مذہبی جماعتوں اور اسرائیلی سیاستدانوں نے یہودیوں کو ان مقدس مقامات پر عبادت کی اجازت دینے کی درخواستیں تیز کر دی ہیں۔

بعض افراد کا ماننا ہے کہ موجودہ ووٹنگ کے نتیجے میں تشکیل دی جانے والی اسرائیلی حکومت اس سلسلے میں اثر انداز ہو سکتی ہے۔

سابق فلسطینی مفتی عکرمہ صبری کا کہنا ہے کہ اسرائیلی انتخاب میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس میں مسجد اقصی پر کافی زور دیا گیا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسجد اقصی پر قبضہ اور اسرائیلی گلی کو حاصل کرنا ان کے لیے وننگ کارڈ ہے۔

خیال رہے کہ پہاڑی پر واقع اسلامی مقامات کے انتظامات کی ذمہ داری اردن کے اسلامی ٹرسٹ ‘اسٹیٹس کو’کے ذمے ہے۔ اس سلسلے میں اسرائیل کے ساتھ غیر رسمی مفاہمت کے ذریعہ یومیہ معاملات طے کیے جاتے ہیں۔

فلسطینیوں کو خدشہ ہے کہ ٹرسٹ کی کسی غلطی کے سبب اسرائیل کو ان مقدس مقامات پر قبضہ کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔

مفتی عکرمہ صبری کا مزید کہنا ہے کہ مسجد اقصی کو کسی بھی قیمت پر محفوظ رکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ مسجد اقصی کے تقدس کو پامالی سے روکنے کے لیے متحد ہونا ہو گا۔ یہ دنیا کے تمام مسلمانوں کا فرض ہے اور یہی اس کا صحیح حل ہے۔

فلسطین میں مقدس مقامات کے تحفظ کی فکر کرنے والا اسلامی ادارہ ‘ یروشلم اسلامک وقف’ مسجد اقصی اور حرم الشریف کے احاطے میں یہودیوں کو عبادت کرنے سے منع کرتا ہے۔

چند روز قبل موجودہ اسرائیلی حکومت کے وزیر زازی ہینگبی نے ایک ویڈیو اپلوڈ کر کے ٹیمپل ماونٹ یعنی مسجد اقصی اور حرم الشریف پر قبضے کی بات کہی تھی۔

زازی نے ویڈیو میں کہا کہ ٹیمپل ماونٹ یہودیوں کے لیے دنیا کا سب سے مقدس مقام ہے۔ جب تک وہ داخلی سلامتی وزیر منتخب نہیں ہوے تھے، یہاں محض مسلم ہی داخل ہو سکتے تھے۔ تاہم انہوں نے پولیس کو یہودیوں کے داخلے کے لیے ٹیمپل ماونٹ کھولنے کی ہدایت دے دی۔ تب سے سیکڑوں، ہزاروں یہودی داخل ہوچکے ہیں اور لاکھوں لوگ داخل ہوں گے۔

حالانکہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کی جانب سے متعدد بار کہا گیا ہے کہ ان کا اسلامی ٹرسٹ ‘اسٹیٹس کو’ میں تبدیلی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

اسرائیل میں سماجی کارکن ڈینئیل سائڈ مین کا کہنا ہے کہ یہ وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے سیاسی بقا کا انتخاب ہے۔ باقی دیگر چیزیں فروعیات میں سے ہیں۔ حالیہ دنوں میں حرم الشریف کے گرد و نواح میں بنیاد پرستی کے رجحانات دیکھے جا رہے ہیں۔ فی الحال سیاست دانوں میں یہ علاقہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔

غور طلب ہے کہ فلسطین کے شہر یروشلم کو دنیا کے تین بڑے مذاہب، اسلام، یہودیت اور نصرانیت کے مقدس مقامات کے لیے جانا جاتا ہے۔

یہاں یہودیوں کے لیے ‘ہیکل سلیمانی’ کی آخری نشانی دیوار گریہ، نصرانیوں کا سے سب سے مقدس چرچ ‘ہولی سَپَلکر’ اور مسلمانوں کے حرمین شریفین کے بعد سب سے مقدس مقام مسجد اقصی اور حرم الشریف کی موجودگی ہے۔ ان مقدس مقامات کی وجہ سے یہ علاقہ پوری دنیا کے لیے توجہ کا مرکز ہے۔

خیال رہے کہ ٹیمپل ماونٹ مشرقی یروشلم میں واقع ہے، اور سنہ 1967 کی جنگ کے دوران اسرئیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا۔

سنہ 2018 میں اسرائیل نے اس مقبوضہ علاقے کو تل ابیب کے بعد اپنا دارالحکومت قرار دیا ہے۔ تاہم بین الاقوامی سطح پر اسے مقبولیت نہیں دی گئی ہے۔

موجودہ انتخاب اسرائیل کا 22 واں پارلیمانی انتخاب ہے۔ فی الحال اسرائیل میں 63 لاکھ افراد حق رائے دہی کا استعمال کر سکتے ہیں۔