سیکولرازم کے لیے ایک عظیم بحران کا وقت

پرتاپ بھانو مہتا (دی انڈین ایکسپریس ۱۹ اکتوبر ۲۰۱۹)
(مترجم: احمد الحریری، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی)
ہندوستانی سیکولرازم کی آئینی تشکیل کے لئے اگلے چند مہینے بحران والے ہوسکتے ہیں،جلد ہی ایودھیا فیصلہ متوقع ہے،اس کے علاوہ حکومت دیگر تین سیکولرازم کی روح کہے جانے والے مسئلوں پر قدم اٹھانے جارہی ہے: شہریت ترمیم بل، خود این آر سی کی ممکنہ توسیع؛ ایک یکساں سول کوڈ بل کا تعارف،اور تبدیلی مذہب کی ترتیب وتنظیم کے لیے ممکنہ قومی آئین سازی ۔
یہ مسئلے گذشتہ ستر سالوں سے موضوع بحث بنتے رہے ہیں، اور اب غالباً ان مسئلوں کا حل کسی نہ کسی طرح دکھ رہا ہے، لیکن وقت کی عجیب ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ مسئلے اس بات کی ایک طرح سے یاد دہانی بھی کر رہے ہیں کہ کانگریس کی بنیادی غلطی بی جے پی کو نیشنلزم سے دور رکھے ہوئی تھی بلکہ یہ لبرل ازم کے ساتھ بی جے پی کو آگے بڑھنے دے رہی تھی۔
کانگریس آزادی کے بعد سے ان مسئلوں کو ملتوی کرکے یا ان کے ساتھ غیر منظم سمجھوتے کی پیوند کاری کرکے جوکہ اکثر غیر اصولی تھے عارضی تصفیہ جیسا برتاؤ کرتے آرہی تھی، دونوں ہی راجیو گاندھی اور نرسمہا راؤ نے ایودھیا مسئلہ پر متنازعہ مقام تک پہنچنے کی سہولت دے کر اور تباہی کے مجرمانہ عمل کے لیے موقع فراہم کرکے ایسا کیا تھا جس وجہ سے بابری مسجد کی شہادت واقع ہوئی تھی۔
حقیقت میں انہوں نے اس اصول کے جائز ہونے کو مان لیا تھا کہ کوئی غلطی جو شاید سولہویں صدی میں کی گئی تھی اسے اکیسویں صدی میں درست کئے جانے کی ضرورت ہے اور یہ کہ رام کی اہمیت کے پیش نظر عبادت اسی جگہ پر ہونی چاہئے ،اس تعلق سے رام بھکتی کو رام کے تعلق سے ایسی کوئی بھی کمی بیشی منظور نہیں ہے، لیفٹ نے بھی نادانستہ طور پر یہ واقعہ نگاری قائم کرکے کے جس میں اس حقیقت کا انکار کیا گیا ہے کہ مندر کو شاید ہی مسمار کیا گیا ہوگا بی جے پی کے ہاتھوں میں کھیلنے کا کام کیا ہے۔
دونوں ہی ایک اعتبار سے ایک ہی موضوع پر بحث کر رہے تھے کہ موجودہ حقوق کہیں نہ کہیں 1526 کے حقائق کی دریافت پر منحصر ہیں.
اس طریقہ پر انحصار کرکے جس طرح سے فیصلہ آگے کی طرف بڑھ رہا ہے وہ ایک ایسی نظیر قائم کردے گا کہ اب متھرا سے کاشی تک کے بے شمار مقامات کے موجودہ نام غیر واضح تاریخ نویسی پر منحصر ہونگے۔
جیساکہ آپ دھیرے دھیرے ملتی کامیابی سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ماضی کی یادگاروں پر مستقل مقابلہ کے لئے اور انہیں مستقل طور پر فرقہ وارانہ کشیدگی کی زد میں رکھنے کے لیے ملک کی ایک ترکیب اور چال ہے۔
کانگریس نے مستقبل کی راہ کو ہی مسدود کر دیا، اس نے قانون کی حکمرانی کو برقرار نہیں رکھا اور اس نے اس نظریہ کو جائز قرار دیا کہ رام بھکتی کو اس مقام پر ایک عظیم مندر کی ضرورت ہے۔
اسی طرح آزادی ہی کے موقع پر کانگریس نے یونیفارم سول کوڈ پر عارضی تصفیہ کا طریقہ وضع کرلیا تھا اور شاہ بانو کیس پر اس کی بے شرم دستبرداری نے ہی بی جے پی کو سیاسی آغاز کا موقع دیا تھا۔
سول کوڈ میں جو تبدیلی لوگوں کے مساوات اور آزادی کے ساتھ ایک ہم آہنگ انداز میں ممکن ہوسکتی ہے وہ ایک بہت ہی پیچیدہ فلسفیانہ مسئلہ ہے۔
لیکن ایک لبرل ڈیموکریٹک نظریہ کی رو سے ہر سول کوڈ کوتین امتحانات سے گزرنا پڑتا ہوگا :آزادی و مساوات کے اظہار،خصوصا جنس کے ساتھ آزادی و مساوات کے اظہار کے امتحان سے گزنا پڑتا ہوگا، اسے یہ اعتراف کرنا پڑتا ہوگا کہ تمام مذاہب کے قوانین پر پارلیمنٹ کو متناسب اختیار حاصل ہے؛ اور عام شہریت پر یہ مطالبہ ہوتا ہوگا کہ ہم تمام لوگ ہر ایک کے قوانین پر جنہیں اسٹیٹ کے ذریعہ ہمارے نام پر برقرار رکھا جاتا ہے پر بولنے کے قابل اور لائق ہو سکیں۔
اس وقت یہاں ایک ایسی غلط فرقہ وارانہ بحث چل رہی ہے جو اکثریت کے قوانین کو عمل کے قابل، منفرد اور ترقی پسند قوانین کا رنگ دے رہی ہے اور اقلیت کے قوانین کو رجعت پسند ہونے کا رنگ دے رہی ہے، یہاں ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ آخر کون یونیفارم سول کوڈ کے مواد اور ان اصولوں کو وضع کریگا جو اس کی رہنمائی کرتے ہیں اور تنوع کے احترام کے لئے کس طرح کی تبدیلی کی اجازت ہونی چاہیے۔
یہاں ایک حقیقی خدشہ یہ ہے کہ ان سوالات کے موجودہ جوابات نہ یہ کہ اکثریتی زاویہ والے ہونگے بکہ انہیں اقلیتوں کی تذلیل کے لیے ڈیزائن بھی کیا جائے گا۔
لیکن عوام کی نظروں سے وہ تمام چیزیں جو کانگریس نے کی ہیں غیر واضح تھیں۔
اسے بی جے پی کو باقاعدہ طور پر صنفی انصاف اور اور اس لبرل نظریہ کے ساتھ آگے بڑھنے دینا چاہیے تھا کہ جہاں تک ممکن ہو حقوق کسی خاص مذہبی کمیونٹی کے ممبرشپ پر منحصر نہیں ہونی چاہیے۔
تبدیلی مذہب پر دوبارہ کانگریس نے اڑیسہ اور مدھیہ پردیش سمیت ریاستوں میں ڈراما کیا، تبدیلی کے جو بھی مذہبی فائدے اور نقصانات ہوں، لیکن اسٹیٹ کے کسی جان کے تحفظ کے شغل کا نظریہ آزاد خیالوں کے لیے ایک قابل نفرت عمل ہوگا، ہاں حتی کہ اگر کوئی لالچ کی وجہ سے بھی مذہب تبدیل کرتا ہے تب بھی اسٹیٹ کو مداخلت کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، کیونکہ کچھ لوگ جو سہولت اور حاجت سے پرے اپنی جان بیچتے ہیں یہ ان کا پیشہ اور عمل ہے. اکثر قانون سازی کا عمل یکطرفہ ہوتا رہا ہے اور یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ہندو ازم کی طرف دوبارہ واپس آنا تبدیلی مذہب نہیں ہے بلکہ یہ تو پہلے ہی سے موجود ہے. تبدیلی مذہب کی پوری بحث ہندو ازم کے عدم تحفظ کے ارد گرد قائم ہے، ہم پورے طور پر مطمئن تھے کیونکہ ہم ہمیشہ سے یی سمجھتے آرہے تھے کہ کانگریس حکومت ان پر یہ قوانین نافذ نہیں کرے گی، لیکن مذھبی عقائد کی ترتیب و تنظیم میں اگر اسٹیٹ کے نظریہ کا کوئی رول ہوتا ہے تو وہ بہت ہی نفرت انگیز ہوگا، لیکن کانگریس نے اس مسئلہ پر اپنا ڈراما درج کرا دیا ہے۔
این آر سی کا عمل جس طرح سے سامنے آرہا ہے وہ بہت ہی قابل نفرت، ہر طرف عدم تحفظ پیدا کرنے والا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک نسخہ اور ترکیب ہے، بلاشبہ رسمی طور پر ہر اسٹیٹ قانونی اور غیر قانونی ترک وطن کے درمیان فرق کرنے کے قانونی حق کا دعویٰ کرسکتا ہے لیکن آسام میں یہ مذہبی اور تہذیبی کمیونٹی کے درمیان طاقت کی تقسیم کا ایک سیاسی مسئلہ ہے،شہریت ترمیم ایکٹ اسی دلدل کا ایک امتیازی ردعمل ہے، لیکن عملی حقائق، غیر امتیازی آئینی نظریات اور انسانی قدروں کے مطابق تخلیقی اور مثبت حل کے بجائے تمام پارٹیاں ابھی تک اضطراب اور پریشانی کو بڑھانے میں لگی ہوئی ہیں، جس کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ اسٹیٹ کو معمولی شہریوں کو،خاص طور سے اقلیتوں کو ہراساں کرنے میں اور طاقت ملے گی، ہم لاکھوں لوگوں کو اس اس ادارہ (کیمپ) کے حوالہ کر کے جو بیسویں صدی کے ظلم کی بہت ہی منحوس علامت ہے ایک خطرہ مول لے رہے ہیں، این آر سی سیکولرازم کی سیاستوں میں ایک دوسرے پہلو کا اضافہ بھی کر دے گی۔
تقسیم ہند کے نتیجہ میں، ایک عارضی تصفیہ کے وجود نے جو ان مسائل کو سست کردیا تھا وہ قابل فہم تھا لیکن نہ یہ کہ کانگریس نے ان مسائل پر قدم اٹھانے اور نۓ سرے سے غور کرنے سے انکار کیا بلکہ وہ کبھی بھی مناسب طریقہ سے اپنے دھوکوں اور غلطیوں سے آگے نہیں بڑھی۔
کانگریس اپنے اس موقف کی کبھی تشہیر نہ کرسکی جو موقف ترقی پسند بھی تھا اور اکثریتی مخالف بھی، بلکہ اس کے بجائے اس نے صورت حال کی مناسبت اور نرم اکثریت کے فلسفہ کا خیال رکھا۔
ان میں سے بہت سے مسائل خصوصا یونیفارم سول کوڈ پر تو بہت ہی ناقص خیال رہا ہے،کل امت شاہ کھڑے ہو کر یہ اعلان کرینگے کہ بی جے پی ان سب خوابوں کو پورا کر رہی ہے جن خوابوں کو پورا کرنے کی کانگریس میں ہمت نہیں تھی اور کانگریس پھر ڈر سے اس بارے میں نہ سوچے گی اور نہ ہی قدم اٹھائے گی، کانگریس کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟ یہ بھی ایک غلط نتیجہ پیش کیا جاتا ہے کہ کانگریس نے اپنا اعتماد اس لیے کھو دیا ہے کیونکہ وہ نیشنلزم پر نرم تھی لیکن ایسا سچ نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس نے اپنا اعتماد اس لیے کھو دیا کیونکہ اس نے لبرل ازم کے ساتھ دھوکہ کیا ہے، ہندوستانی سیکولرازم کے اس بحران کے وقت میں جو حزب مخالف کانگریس کے لیے ایک ایسا فیصلہ کن امتحان ہوگا جس کا بوجھ ہم سب کو برداشت کرنا ہوگا، بی جے پی کے خلاف سیکولرازم کے لیے یہ مقابلہ بہت مشکل ہے اور کانگریس کی وراثت کے ساتھ چل کر اس کا مقابلہ اور بھی مشکل اور مایوس کن ہو جاتا ہے۔
(پرتاپ بھانو مہتا انڈین ایکسپریس میں مستقل لکھتے رہتے ہیں، وہ اشوکا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور ہندوستان کے سب سے ٹاپ تھنک ٹینک سینٹر پالیسی ریسرچ ، نئی دہلی کے سابق صدر ہیں۔ وہ اس سے پہلے ہارورڈ یونیورسٹی میں پولیٹیکل تھیوری بھی پڑھا چکے ہیں)
(بشکریہ: دی ٹرتھ )

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں