قاسم سید
خشک سالی کی بے رنگ رتوں میں ہمیشہ اقتدار کی پُرمیوہ شاخوں پر نظر رکھنے والے پرندوں کے لئے یہ سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ جب موسم کروٹ لیتا ہے تو وہ درخت بھی اوندھے منھ گر جاتے ہیں جن پر گھونسلے بنے ہوتے ہیں۔ ان کی نظر صرف اقتدار کی بارگاہوں اور ہری بھری چراگاہوں پر ہوتی ہے۔ ان کی امیدوں کی چونچوں میں پانی بھر آتا ہے اور پروں میں کھجلی ہونے لگتی ہے، وہ شکاری کے دام ہم رنگ زمین کو بھول کر صرف وقتی فائدوں کے دانے چگنے کے لئے زمین پر اتر آتے ہیں، پھر کیا حشر ہوتا ہے بتانے کی ضرورت نہیں۔
ہمیں یقیناً اس کا احساس ہوتا کہ ملک میں فکری خانہ جنگی پورے لائولشکر کے ساتھ لڑی جارہی ہے۔ سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں نے پہلے ہی ہتھیار ڈال دیے ہیں، وہ ہانپ رہی ہیں، جبکہ سول سوسائٹی چوطرفہ دبائو اور یلغار کا پامردی سے مقابلہ کررہی ہے اور زمین پر پائوں جمائے ہوئے ہے۔ جے این یو کے پلیٹ فارم سے راشٹرواد کا نیا محاذ کھولا گیا تھا، جو مختلف چوراہوں سے گزرتا ہوا کشمیر پہنچ چکا ہے۔ گئوبھکتوں کا غول ان کا ہراول دستہ ہے، جنھیں خود وزیراعظم نقلی گئوبھکت کہہ چکے ہیں۔ مختلف طبقات کے درمیان سوچی سمجھی حکمت کے تحت کھائی کو اور چوڑا کیا جارہا ہے۔ نفرت و تعصب کے بپھرے دریا کو طوفان بلاخیز بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ جارحانہ فرقہ پرستی اور نسلی برتری کی آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں اور سیاست کار آگ کو بجھانے کی بجائے اس پر تیل چھڑک کر ہاتھ سینک رہے ہیں۔ آگ کی لپٹیں کم ہونے لگتی ہیں تو اسے دہکانے کے لئے دوچار کندے اور ڈال دیے جاتے ہیں۔ احساس برتری سے چور ہزار سالہ ’غلامی‘ کا انتقام لینے کے لئے بے چین گروہ صرف سب سے بڑی اقلیت پر ہلہ بول کر اسے نرغہ میں لینے کے لئے بے چین نہیں ہے بلکہ جگہ جگہ اونا پیدا کرکے یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ ذات پات کی بنیاد پر بانٹے گئے کام اور منواسمرتی کے مطابق انسانی درجات کو دل سے مانتا اور اسے قانونی درجہ دینا چاہتا ہے، مگر کچھ انسانوں کو جانور کا درجہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ جانور تقدس و احترام میں اس سے کہیں زیادہ حیثیت رکھتا ہے اور وہ اس کی ’بے حرمتی‘ کرنے پر جان لے بھی سکتا ہے۔ جب وہ انھیں مذہبی اعتبار سے ہندو مانتے ہوئے مساوی درجہ دینے اور اپنے برابر میں کھڑا کرنے کے لئے تیار نہیں (گرچہ منواسمرتی پر مبنی سماجی نظام اور امبیڈکر کے بنائے آئین کے درمیان توازن قائم کرنا اس کے لئے چیلنج رہا ہے)۔ تو یہ بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ دیگر مذہبی اکائیوں کے لئے فراخ دلی کا مظاہرہ کیسے کرسکتا ہے، اس لئے جب بھی سماجی نظام میں پائے جانے والی عدم مساوات کے خلاف آواز کو بزور قوت د بایا جاتا ہے تو پھر مذہبی تشخص پر اصرار اور آئینی حقوق کا مطالبہ کرنے والی اکائیوں کو کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے اور بخشا جاسکتا ہے۔ ہمارے لئے تشویش اور ہندوتو طاقتوں کے لئے اطمینان کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں پر اس دبائو کا اثر نظر آنے لگا ہے۔ مذہبی تشخص پر اصرار کی جو شدت درجہ کمال پر تھی اس میں جگہ جگہ سے دراڑیں پڑنی شروع ہوگئی ہیں۔ مصلحت جب حد سے بڑھ جائے تو مداہنت کے چور دروازے کھول لیتی ہے جبکہ وفا تخت و تاج ٹھکراکر آگے بڑھ جاتی ہے۔ راشٹرواد کے خمار اور راشٹروادی ہونے کا ثبوت دینے کے لئے جس جذبہ، جوش و خروش، وارفتگی و بے خودی کے مظاہر سامنے آرہے ہیں، حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لئے اپنوں کی گردنیں مروڑنے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا ہے۔ میری قمیص تجھ سے زیادہ اُجلی ہے یا موجودہ سیاسی اصطلاح میں تجھ سے زیادہ محب وطن میں ہوں، کے اظہار میں مسابقت کا جذبہ قابل دید ہے، جس کی رگ و پے میں حب الوطنی خون بن کر دوڑ رہی ہو اسے ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ گائے بھکتی کے نام پر اخلاق کو ماردینے، گوبر کھلانے اور بے رحمانہ پٹائی کو جواز فراہم کیا جارہا ہے تو راشٹر بھکتی کے نام پر کسی کو بھی گولی مار دینے کی دھمکی دینے والوں کو تحفظ اور کنہیا کمار کو عدالت کے احاطہ میں گھیرکر زدوکوب کرنے والوں کو سرپرستی ملنے لگے تو سمجھا جاسکتا ہے کہ انھیں کس قسم کا راشٹرواد مطلوب ہے اور انھیں مطمئن کرنے کے لئے کس حد تک جانا پڑسکتا ہے۔
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے انھیں خارجی و داخلی دوطرفہ چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایک ان طاقتوں کی طرف سے جن کا نعرہ ہے کہ جو ہمارے ساتھ نہیں اس کا راشٹرواد مشتبہ ہے، ہم جو کہتے ہیں وہی راشٹرواد ہے اور جو اس کی تائید کرنے سے گریز کرتا ہے وہ ملک کے دشمنوں سے ملا ہوا ہے۔ وہ دہشت گرد اور غدار ہے اور غداروں کی جگہ جیل ہے، انھیں پھانسی پر چڑھا دینا چاہئے، ورنہ پبلک کو فیصلہ کرنے دیا جائے۔ کنہیا کمار ہو یا خالد، روہت ویمولا ہو یا کوئی کارٹونسٹ، ہمارے مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے والا قابل گردن زدنی ہے۔ گائے، گیتا اور گنگا کو سب کے لئے راشٹرواد کی علامت بنوانا چاہتے ہیں۔
دوسرا سنگین چیلنج روز بروز بڑھتی مسلکی کشیدگی و منافرت اندر ہی اندر جڑوں کو کھوکھلا کررہی ہے۔ جو کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہیں وہ گوشۂ عافیت میں بیٹھے، اپنی بادشاہت اور حلقۂ ارادت کے تحفظ کی خاطر خاموش رہتے ہیں۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر تہذیبی زوال کی پستیوں میں لڑھک رہے ہیں۔ مسلکی بالادستی کے جنون میں ہمارے رویوں میں اس قدر تلخی، سختی، اشتعال، بے ڈھنگاپن اور انتہاپسندی نظر آتی ہے کہ کلیجہ منھ کو آنے لگتا ہے۔ شائستگی کے قرینوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ لہجے ایسے کھردرے ہوگئے ہیں کہ اس کی کھرونچوں سے دل و روح زخمی ہوجائیں۔ تعلیم سے محروم ، اجڈ، جاہل لوگوں کو چھوڑدیں کہ ان کی سوچ علم کے نکھار سے عاری ہوتی ہے، ان کے لہجے گفتگو کے سلیقہ سے ناآشنا ہوتے ہیں، مگر جب تعلیم یافتہ اور مذہبی دانشوری سے سرفراز حلقے بھی کلام کا ہنر بھول جائیں، مکالمات کا اسلوب نظرانداز کردیں، لفظوں کے قحط کا شکار ہوجائیں، انتہاپسندی کی رو میں بہتے ہوئے بے مہار رویے اپنانے لگیں تو معاشرہ کا وہی حشر ہوگا جو سامنے ہے۔ نگہ بلند کے ساتھ سخن دل نوازی اور جاں پرسوزی کی حدت مشتعل جذبوں کو موم بناتی ہے۔ باہمی جنگ و جدال کے جیالوں کو خون آشام آندھیوں کا کوئی اندازہ نہیں، ترجیحات کی بساط میں انجام سے ناآشنا ہیں، وہ چہارسو اپنی ہی زمین پر نفرتوں و عداوتوں کی بارودی سرنگیں بچھارہے ہیں۔ یہ چلتے پھرتے خودکش بمبار ہیں۔ کیا دوسروں کو تباہ کرنے کی سوچ رکھنے والا خود کو مامون و محفوظ رکھ پائے گا۔ اقتدار کی فصیلوں پر کمندیں ڈالنے والے یہ نہیں جانتے کہ ان کی گھات میں بھی کوئی بیٹھا ہوگا۔ یہ بہی خواہان و معصومان ملت بھلے ہی اپنے ارادروں، کوششوں اور سرگرمیوں کے تئیں مخلص و نیک نیت ہوں مگر مکھی اڑانے کے لئے خود کی ناک کاٹنے والوں کی کبھی تائید نہیں کی جاسکتی۔ المیہ یہ ہے کہ آئی ایس کے خطرے کو بھی مسلکی چشمک سے دیکھا جارہا ہے۔ ذاکر نائیک کا قضیہ اس کی تازہ مثال ہے۔ دہشت گردی کے معاملہ کو بڑی مہارت سے مسلکی جامہ پہنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، کہیں نہ کہیں سے ان کی پشت پناہی ہورہی ہے۔ یہ کھلا راز ہے تو کیا ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے کوئی تیاری ہے۔
یہ بات تو دو اور دو چار کی طرح صاف ہے کہ مسلم عوام موجودہ حالات میں اتحاد کی خواہش رکھتے ہیں، اتحاد نہ سہی باہمی مفاہمت کی کوئی شکل دیکھنا چاہتے ہیں، مگر معاف کیجئے گا مذہبی و سیاسی قیادت اس کے لئے تیار نہیں، کہیں مسلکی برتری کی لڑائی ایک پلیٹ فارم پر نہیں آنے دیتی تو کہیں کسی سیاسی پارٹی سے غیرمشروط وفاداریاں راستے کا روڑہ بن جاتی ہیں۔ ادھر کوئی قابل ذکر سیاسی پارٹی بھی نہیں چاہتی کہ مسلمان ایک پلیٹ فارم پر آئیں، کیونکہ اتحاد میں ان کی موت ہے۔ ظاہر ہے جب تک ان اڑچنوں کو دور نہیں کیا جاتا اتحاد و مفاہمت کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ حیرت ہے کہ ہر اسٹیج سے اتحاد کی آواز بلند ہوتی ہے، کروڑوں مسلمانوں کو متحد ہونے کی ترغیب دی جاتی ہے مگر چند قائدین عظام و کرام آگے بڑھ کر اس کا نمونہ پیش نہیں کرپاتے، جب وہ ایک جگہ نظر آئیں گے عوام خودبخود پرچم تھام لیں گے۔ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ اگر سبھی اتحاد کے خواہاں ہیں تو رکاوٹ کہاں ہے، انگلیاں مٹھی کیوں نہیں بنیں۔ کیا گروہی و جماعتی مفادات راستہ روکتے ہیں؟ کیا مسلکی اختلافات پائوں کی زنجیر بنتے ہیں؟ کیا قیادت کا ٹکرائو واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً و لاتفرقوا کی الٰہی آواز نہیں سنتا۔ اور یہ سب حائل نہیں تو ان اسباب سے آگاہ کیا جائے۔ آبروئے ملت علمائے کرام آگے بڑھ کر اس فریضہ کو کیوں نہیں انجام دیتے۔ عوام کی باگ ان کے ہاتھ میں ہے۔ مذہبی قیادت یقیناً ان سازشوں سے آگاہ ہوگی جو خارجی و داخلی محاذ پر ہورہی ہیں۔ وہ ان لیڈروں پر دبائو کیوں نہیں بناتی جو کالی گھٹا کی طرح اٹھتے ہیں۔ خاکستر کرنے والی بجلی کی طرح کڑکتے ہیں، جل تھل کرنے والے ساون کی طرح برستے ہیں اور سمندری جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ نئی نسل حکمت عملی کی تبدیلی چاہتی ہے۔ سوشل میڈیا کی گود میں پلی یہ نسل باعزت زندگی کی طلب رکھتی ہے۔ اس کا علاج پرانے نسخوں سے نہیں ہوسکتا۔ اس کے اٹھ کھڑے ہونے کا انتظار مت کیجئے۔ تبدیلی کی خواہش بہت کچھ بہا لے جاتی ہے۔ کیا نئی نسل کی نئی رفعتوں کی خواہش کے ساحل پر کوئی کولمبس اترے گا!(ملت ٹائمز)
qasimsyed2008@gmail.com