ملک میں جاری احتجاجی مظاہرے، حکومت کے لئے ایک واضح پیغام

معاذ مدثر قاسمی 

اس وقت جبکہ ملک کی معیشت تیزی کے ساتھ رو بزوال ہے اور جی ڈی پی 8.5 فیصد سے گھٹ 4.5 تک پہنچ چکی ہےاور بڑھتی ہوئی بیروزگاری نے ملک کو بری طرح جکڑرکھا ہے ،پھر بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے ان سب مسائل سے نمٹنے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کرنے کے بجائے اُن غیر ضروری مدعے پر اپنی توجہ مرکوز کررکھی ہے جس کی موجودہ وقت میں قطعا ضرورت نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی دوسری میعاد میں واضح اکثریت کی بنیاد پر چند ایسےفیصلے لیے ہیں جو کسی طرح بھی ملک کے مفاد میں نہیں ۔ دوسری میعاد شروع کرنے کے محض دوماہ بعد5/ اگست کو جمو و کشمیر سے ارٹیکل 370 ہٹادیا۔اور تقریبا پانچ ماہ گزجانے کے بعد بھی وہاں کی صورتحال جوں کی توں ہے۔

اسکے بعد پہلے سرمائی اجلاس میں تمام تر مخالف کے باوجود ستور مخالف “سی اےبل” کو قانونی شکل دے دی گئی ۔ اس قانون میں مذہب کی بنیاد پر واضح طور پرتفریق کی گئی ہے۔ مذہبی تعصب کو ہوا دیتے ہوئے اور دستور ہند کے آرٹیکل 14/15 کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس قانون سے قصدا لگ رکھا گیا۔ آرٹیکل 14 / 15 میں ہے کہ “مملکت کسی شخص کو بھارت کے علاقے میں قانون کی نظر میں مساوات یا قوانین کے مساویانہ تحفظ سے محروم نہیں کرے گی”۔ “مملکت محض مذہب، نسل ، ذات ، جنس، مقام پیدائش یا ان میں سے کسی کی بنا پر کسی شہری کے خلاف امتیاز نہیں برتے گی”۔ بھید بھاؤ پر مبنی اس س سیا ہ قانو ن کے پاس ہوتے ہی ملک کے شمالی علاقوں میں بڑے پیمانے پر احتجاج پھوٹ پڑا ۔ بڑی تعداد میں قلم کار ، دانشوران ، سیاسی اور سماجی کارکنان نےاس قانون کی کھلے الفاظ میں مذمت کی۔ کئی یونیورسیٹیوں کے اسٹوڈینٹس نے اس کے خلاف اپنی آوازیں بلند کیں ۔

علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے بعد جامعہ ملیہ کے طلباء وطالبات نے اس سیاہ قانون کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے پر امن مظاہرہ کیا ۔ جامعہ کے طلباء لگاتار اپنی آواز پر امن طریقہ سے بلند کررہے تھےمگر احتجاج کے تیسرے روز اس وقت خوفناک صورتحال پیدا ہوگئی، جب یونیورسیٹی کے طلبا ء وطالبات حکومت سے اس سیاہ قانون کو واپس لینے کے لیے اپنی آواز بلند کررہے تھے تبھی دہلی پولیس نے اس کامیاب احتجاج کو بزور طاقت کچلنا چاہا اور بری طرح انہیں زود و کوب کیا گیا ، لاٹھی اور ڈنڈے برسائے گئے، حتی کہ خبروں کے مطابق پولیس بلااجازت جامعہ کے احاطے کے اندر ہی نہیں، بلکہ لائبریری کے اندار داخل ہوکر مطالعہ میں مشغول نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو بری مارا ، پیٹا،آنسوں گیس چھوڑے۔ اسے کسی طرح بھی درست قرار نہیں دیاجاسکتا۔ مہاراشٹرا کے وزیرا علی ادھو ٹھاکرے اور جے این یو کے سابق اسٹوڈینس یونین صدر ڈاکٹر کنہیا کمار نے پولیس کی اس بر بریت کو جلیانہ والا باغ سے تشبیہ دیتے ہوئے اسکی سخت الفاظ میں مذمت کی۔

پولیس کی اس واردات کے بعد جامعہ کی دولڑکیا ں اپنی بہادری ، جاں بازی ، جرات اور شجاعت کی بنا پر ملک میں جاری احتجاج کے لیے ایک مثالی نمونہ بن گئیں۔ کیرالہ سے تعلق رکھنے والی بائیس سالہ عائشہ رینا اور لدیدہ فرزانہ کو سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھاجاسکتاہے کس طرح انہوں نے اپنے ساتھی شاہین عبداللہ کو پولیس کی سنگ دلی سے بچانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگادی ۔ عائشہ کا پولیس کے سامنے گھنگرج آواز کےساتھ ، جنگھاڑتی ہوئی شیرنی کی طرح پولیس کے سامنے کھڑے ہوجانے والے انداز نے پوری دنیا کو اپنی توجہ کا مرکز بنادیا۔ انکی جرات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مشہور مصنفہ نتاشاہ بدھور نے لکھا کہ “لنچنگ کے حادثے سے کیسے بچایا جائے ، اسکا مظاہرہ جامعہ کی طالبات نے کردکھلایا”۔

حادثے کے بعد میڈیا کے نمائندوں نے ان دونوں لڑکیوں کے پاس پہنچ کر حقیقت حال کو جاننے کی کوشش کی ۔ عائشہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ “اس وقت میرے ذہن میں صرف یہی تھا کہ اپنے ساتھی کو پولیس کے ظلم اورر شکنجے سے کسی طرح بچایا جائے”۔ ” ہمیں اس خطرناک صورتحال کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا، پھر بھی اس وقت پیچھے ہٹنے اور ڈرنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا”۔ مشہور صحافی بارکھا دت کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ” وہ کسی طرح بھی خوفزدہ نہیں ہیں ، وہ صرف اللہ سے ڈرتے ہیں” عائشہ نے مزید کہا کہ حکومت نے کشمیرکے ساتھ نارواسلوک کیا ، ہم خاموش رہے، عدلیہ نے میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ بابری مسجد کے حق میں نہیں دیا ، پھر بھی ہم خاموش رہے۔ ہمیں اب یقین ہے کہ حکومت اب پورے ملک کو اپنے نشانے پر لے گی”۔ عائشہ نے کھلے الفاظ میں یہ بھی کہا ” کہ اگر سماج میں آپ کسی طرح کی ناانصافی دیکھیں تو آپ ہرگز یہ نہ سوچیں کہ آپ ایک عورت ہیں ، آگے بڑھیے اور اپنی آواز بلند کیجیے ، مرد آپکو گھر میں بیٹھے رہنے پر مجبور کریں گے ، عورتوں سے ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ اپنی آواز دھیمی رکھیں۔ نہیں ! ہرگز نہیں ، آپ اپنی آواز اٹھائیے پھر دیکھے آپکو کوئی زیر نہیں کرسکتا۔

عائشہ اور لدیدہ کی اس بے جگری نے پوری دنیا کو اپنی توجہا ت کا مرکز بنادیا، اور ان لوگوں کو ایک حوصلہ اور نیا جذبہ دیا جو آج کی ظالم حکمراں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں ۔ جامعہ پر پولیس کی بربریت نے اس پر امن مظاہرے میں گھی میں تیل ڈالنے کا کام کیا، حکومت نے اپنی طاقت کے بل پر اسے دبانا چاہا، مگر ساری تدبیریں الٹی پڑگئیں، پولیس کی کاروائی کے بعد مختلف یونیورسیٹیوں کے طلباء جامعہ کی حمایت میں باہر آگئے ۔ اب تو اس سیاہ قانون کے احتجاج نے عالمی توجہات حاصل کرلی ہے ، گرچہ ہندوستان کا میڈیا اسے کھل کر نہ دکھلائے مگر عالمی میڈیا اسے کھل کردکھلارہاہے۔

  پورا ملک سراپا احتجاج بناہواہے ، اب حکومت کے بس میں نہیں ہے کہ اسے اپنی طاقت کے بل بوتے پر دبادے ، ملک کا ہر انصاف پسند اور رہر سماج اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے جو سی اے اے اور این آرسی کی سنگینی کو سمجھتے ہیں اس احتجاجی صدامیں اپنی بھی آواز ملارہے ہیں۔ حکومت اب مکمل طور پر دفاعی پوزیشن میں ہے، اور مختلف حربے سے اسے ناکام بنانے کی کوشش کررہی ہے، ان احتجاج کو مذہبی رنگ دینے کی بھی کوشش ہورہی ہے مگر اب تک مظاہرین نے پوری دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے حکومت کی منشاء کو ناکام بناہے۔

اس سیاہ قانون کو حکومت اسی طرح لاگوکررہی ہے جس طرح ہٹلر نے یہودیوں کے خلاف 1935 میں “نوریمبرگ” نامی قانون کو کیا تھا، اُس وقت ہٹلر یہی کہا کرتاتھا کہ یہ قانون یہودیوں کے خلاف نہیں ہے مگر دنیا نے دیکھا کہ اس قانون کے بعد اس نے یہودیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ بعینہ وزیر داخلہ کی طرف سے بارہا اس بات کو دہرا یا جارہا ہے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے ، مگر ایک سنجیدہ ذہنیت رکھنے والا شخص اس حقیقت کو جانتا ہےکہ اس قانون کی بنیاد ہی مذہبی تعصب ، مسلمانوں کےساتھ بھید بھاؤ پر مبنی ہے اورخاص کر یہ دستور کی روح کے سراسر مخالف ہے۔

جس طرح سے ملک میں مظاہرے ہورہے ہیں یہ یقینی طور پر وزیر اعظم مودی اور وزیرداخلہ امیت شاہ کو دوردور تک اسکا گمان نہیں تھا۔ جس انداز سے مظاہرے ہورہے ہیں، ایسا لگ نہیں رہاہے کہ یہ تھم جائے ، تاآنکہ حکومت اس قانون کو واپس لے لے۔ حکومت ان مظاہرے سے سبق لے کر ملک پر ” این آرسی ، این پی آر اور سی اے اے ” کا بوجھ ڈالنے کے بجائے ان ضروری مدعے پر اپنی توجہ مرکوز کرے جس کی ملک کو فوری ضرورت ہے۔ ملک اس پوزیشن میں نہی ہے کہ این پی آر اور این آرسی پر ہونے والے صرفے کا بوجھ برداشت کرسکے، ابھی ضرورت ہے تیزی سے گھٹی جی ڈی پی ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری ، اشیاء خورد و نوش کی آسمان چھوتی قیمت پر قابو پایا جائے۔ خاص کر ملک کے لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کو نوکری کے مواقع فراہم کیے جائیں۔یہی ملک کے لیےفوری ضرورت ہے، اور انہیں ضروری مدعے پر کام کرنا ملک سے اصل وفاداری ہے۔

muazmuddassir@gmail.com

8430874202