ریو اولمپک : ہندوستان کیلئے جشن کا نہیں غور و فکر کا موقع

ہندوستانی کھلاڑی ابھی تک چار چھ میڈلس سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔ اولمپک کھیلوں میں ہندوستان کی مایوس کن کاکردگی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کسی بھی اولمپک میں ہندوستان کے میڈلس کی تعداد دوعدد تک نہیں پہنچ سکی ہے۔انفرادی طور پر اولمپک میں سونے کا تمغہ ابھی تک صرف نشانہ بازی میں ابھینو بندرا ہی جیت سکے ہیں۔انھوں نے ۲۰۰۸ ء کے بیجنگ اولمپک میں یہ گولڈ میڈل جیتا تھا۔کل ملا کراولمپک میں سب سے بہتر کاکردگی ۲۰۱۲ ء کے لندن اولمپک میں رہی، جب ہندوستان نے ۲؍ چاندی کے تمغے اور ۴؍ کانسے کے تمغوں کے ساتھ کل ۶؍ میڈل جیتے تھے۔

Yameen ANsariصدائے دل:ڈاکٹر یامین انصاری
برازیل کے شہر ریو ڈی جینریومیں اولمپک کھیل کچھ کھٹی کچھ میٹھی یادوں کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئے۔ دنیاکے سب سے بڑے کھیل مقابلوں میں ہندوستان نے اب تک کے اپنے سب سے بڑے وفد کے ساتھ ان میں شرکت کی۔ہندوستانی وفد کی روانگی کے وقت پورے ملک کی توقعات اور امیدیں جوش مار رہی ہی تھیں، کھلاڑیوں کے حوصلوں اور ان کی تیاریوں کو دیکھتے ہوئے لگ رہا تھا کہ ریو اولمپک میں ہندوستانی کھلاڑی تاریخ رقم کریں گے۔انہی توقعات اور تمغوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے عزم کے ساتھ ہندوستان کا ۱۲۰؍ رکنی وفد ۳۱؍ ویں اور جنوبی امریکہ کے پہلے اولمپکس میں شرکت کرنے پہنچابرازیل کے ریو ڈی جینریو شہر پہنچا۔اگرچہ ڈوپنگ اسکینڈل نے ہندوستانی کھلاڑیوں کے حوصلوں کو کچھ حد تک نقصان پہنچایا، لیکن مقابلے شروع ہونے کے بعد ڈوپنگ اسکینڈل کا سایہ ختم ہو چکا تھا۔اس لئے ہندوستانی کھلاڑیوں نے اولمپک میں زیادہ میڈل جیتنے کی امیدیں برقرار رکھیں۔ ہندوستانی کھلاڑیوں کے وفد نے شوٹنگ، ٹینس، بیڈ منٹن، کشتی، مکہ بازی، جمناسٹک، ہاکی، ایتھلیٹکس، جوڈو، پیراکی، ٹیبل ٹینس اور ویٹ لفٹنگ وغیرہ مقابلوں میں حصہ لیا۔ لہذا ہندوستانی کھیل شائقین کو امید تھی کہ سب سے بڑے وفد کے ساتھ پہنچے ہندوستان کے میڈلس میں اضافہ ہوگا۔ کیوں کہ ہندوستان نے ۲۰۰۸ء کے بیجنگ اولمپک میں تین اور ۲۰۱۲ء کے لندن اولمپک میں کل ۶؍ تمغے حاصل کئے تھے۔اس وفد میں کئی نامی گرامی کھلاڑی بھی شامل تھے جن سے میڈل جیتنے کی بہت زیادہ توقعات تھیں۔ ان میں شوٹر جیتو رائے اور ابھینو بندرا، کشتی میں یوگیشور دت اور ساکشی ملک، باکسنگ میں شیو تھاپا اور وکاس کرشنن، ٹینس میں ثانیہ، پیس اور بوپنا، بیڈمنٹن میں سائنا اور سندھو، جمناسٹک میں پہلی بار اولمپک کوالفائی کرنے والی دیپا کرماکر، گولف میں انیربان لاہڑی اور ادیتی اشوک، کئی سال بعد ہاکی ٹیم سے بھی میڈل کی امید کی جا رہی تھی۔ لیکن پی وی سندھو، ساکشی ملک اور دیپا کرماکر کے علاوہ سبھی معروف اور غیر معروف کھلاڑیوں نے مایوس کیا۔سندھو نے بیڈمنٹن میں چاندی کا تمغہ اور اکشی ملک نے کشتی میں کانسہ کا تمغہ جیت کر ہمیں خوشی منانے کا موقع تو فراہم کیا، لیکن اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ان دونوں خاتون کھلاڑیوں نے پورے وفد اور اگر یہ کہیں کہ پورے ملک کی عزت بچا لی تو بیجا نہ ہوگا۔ ایک اور خاتون کھلاڑی دیپا کرماکر نے جمناسٹک میں جس بہادری اور عزم و استقلال کا مظاہرہ کیا، اس نے میڈل تو نہیں جیتا لیکن کروڑوں ہندوستانیوں کے دل ضرور جیت لئے۔آخر کیا وجہ ہے کہ سوا سو کروڑ سے زیادہ کی آبادی والا ملک پورے اولمپک کے دوران ایک ایک تمغہ کے لئے ترس تارہا۔
ریو اولمپک ختم ہونے کے بعد جب میڈل جیتنے والے ملکوں کی حتمی فہرست پر نظر ڈالی تو اس میں ہندوستان کو تلاش کرتے کرتے امریکہ، برطانیہ، چین اور روس تو چھوڑئے … ایران، یونان، ازبکستان ،قزاقستان اور ویتنام بھی گزر گئے، لیکن ہندوستان کا نام کہیں نظر نہیں آیا۔ اس کے بعد اور نیچے کی طرف پہنچے تو فجی، کوسوو، الجیریا، لتھوانیہ اور بلغاریہ کے بعد جا کر فہرست میں کہیں وطن عزیز ہندوستان کا نام نظر آیا۔ اب آپ خود بتائیں کہ یہ ہمارے لئے جشن کا موقع ہے یا پھر غور و فکر کرنے کا۔فہرست میں ہندوستان سے اوپر آنے والے ملکوں میں نہ جانے کتنے ایسے ملک ہوں گے جہاں کھیلوں کے لئے علیحدہ سے کوئی وزارت نہیں ہوگی، کتنے ایسے ملک ہوں گے جہاں کھیلوں کے فروغ کے لئے کوئی مخصوص بجٹ نہیں ہوگا، کئی ملکوں میں لمبے چوڑے انتظام نہیں ہوں گے، کئی ایسے ملک بھی ہوں گے جہاں کھلاڑیوں کی رہنمائی کے لئے بہت زیادہ نامور کھلاڑی نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود ان چھوٹے چھوٹے اور غریب ملکوں کے کھلاڑی اپنے ملک کے لئے میڈلس جیتنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہندوستانی کھلاڑی ابھی تک چار چھ میڈلس سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔ اولمپک کھیلوں میں ہندوستان کی مایوس کن کاکردگی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کسی بھی اولمپک میں ہندوستان کے میڈلس کی تعداد دوعدد تک نہیں پہنچ سکی ہے۔انفرادی طور پر اولمپک میں سونے کا تمغہ ابھی تک صرف نشانہ بازی میں ابھینو بندرا ہی جیت سکے ہیں۔انھوں نے ۲۰۰۸ ء کے بیجنگ اولمپک میں یہ گولڈ میڈل جیتا تھا۔کل ملا کراولمپک میں سب سے بہتر کاکردگی ۲۰۱۲ ء کے لندن اولمپک میں رہی، جب ہندوستان نے ۲؍ چاندی کے تمغے اور ۴؍ کانسے کے تمغوں کے ساتھ کل ۶؍ میڈل جیتے تھے۔ویسے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان پچھلے کچھ اولمپک میں اپنی کارکردگی بہتر کرتا رہا ہے۔ ۲۰۰۸ء کے بیجنگ اولمپک سے پہلے اٹلانٹا، سڈنی اور ایتھینس میں ہوئے تین اولمپک کھیلوں میں ہندوستان کو صرف ایک ایک میڈل پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ لیکن اس کے بعد ۲۰۰۸ء کے بیجنگ اولمپک میں ہندوستان نے ۳؍ میڈل حاصل کئے۔اسی کے ساتھ ہندوستان کو ان کھیلوں میں پہلا انفرادی گولڈ میڈل بھی حاصل ہوا۔ اس کے بعد ۲۰۱۲ ء میں لندن میں ہوئے اولمپک میں ہندوستانی کھلاڑیوں نے مزید بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اولمپک میڈلس کی تعداد کو ۶؍ تک پہنچادیا۔اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہندوستانی کھلاڑیوں سے بہتر کارکردگی کی امید کی جا رہی تھی۔ ماہرین کو بھی لگتا تھا کہ ہندوستانی وفد اس مرتبہ کم از کم ۱۰؍ سے ۱۲؍ میڈل جیت سکتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات بھی تھیں۔ اس بار ہندوستان کی جانب سے ۶۶؍ مرد اور ۵۴؍ خاتون کھلاڑیوں پر مشتمل ۱۲۰؍ لوگوں کی ٹیم ریو اولمپک پہنچی تھی۔ جبکہ اس سے قبل لندن اولمپک میں ۸۳؍ کھلاڑیوں کی ٹیم ہی گئی تھی۔ اس کے علاوہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ ہندوستان میں ۲۰۱۲ء کے مقابلے میں کھیلوں کے انتظام و انصرام اور انفراسٹکچر میں کافی سدھار ہوا ہے اور اس دوران ہندوستانی کھلاڑیوں نے عالمی سطح کے دیگر مقابلوں میں کافی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ ایسے میں ہر ہندوستانی کو امید تھی کہ ان کے کھلاڑی بہتر مظاہرہ کریں گے۔ لیکن اس بار زیادہ مایوسی ہاتھ لگی۔ ہمارے لئے اس سے زیادہ افسوس اور شرمندگی کا مقام اور کیا ہوگا کہ ہندوستان نے ۱۹۰۰ء سے شروع ہونے والے اولمپک کھیلوں میں ایک ملک کی حیثیت سے ابھی تک کل ۲۸؍ میڈل جیتے ہیں، جبکہ امریکہ کے صرف ایک کھلاڑی مشہور پیراک فیلپس نے اپنے پانچ اولمپک میں ۲۸؍ میڈل اپنے نام کر لئے۔انھوں نے صرف ریو میں ہی پانچ گولڈ میڈ
ل کے ساتھ کل ملا کر ۲۳؍ اولمپک گولڈ میڈل اپنے نام کئے۔ اس کے علاوہ پانچ اولمپک میں حصہ لیتے ہوئے ۳؍ چاندی اور ۲؍ کانسہ کے تمغوں کے ساتھ کل ۲۸؍ میڈل جیت کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ ہندوستان کی اگر بات کریں تو اس نے ابھی تک ۳۳؍ اولمپک کھیلوں میں حصہ لیتے ہوئے کل ۲۸؍ میڈل جیتے ہیں۔ ان میں ۹؍ گولڈ میڈل ہیں، ان میں بھی ۸؍ گولڈ میڈل صرف ہاکی کی ٹیم نے دلائے ہیں۔ ہندوستانی ہاکی ٹیم نے ۱۹۲۸ء اور ۱۹۵۶ء کے درمیان ملک کو مسلسل ۶؍ گولڈ میڈل دلائے تھے۔ اس کے بعد ۲۰۰۸ء میں بیجنگ اولمپک میں نشانہ باز ابھینو بندرا نے ۱۰؍ میٹر ایئر رائفل میں ہندوستان کے لئے انفرادی مقابلے میں پہلا گولڈ میڈل جیتا تھا۔
یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہمیں سندھو اور ساکشی کی کامیابی پر رشک تو کرنا چاہئے، لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ ہندوستان جیسے عظیم ملک کے لئے یہ کارکردگی بہت زیادہ اطمینان بخش نہیں ہے۔ حکومت، کھیل فیڈریشنوں، اسپورٹس اکیڈمیوں اور خود کھلاڑیوں کوبھی چاہئے کہ وہ تمام تر گروہ بندی، علاقائیت، اختلافات اور معمولی جھگڑوں وغیرہ کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک کے عزت و وقار کا خیال رکھیں۔ زیادہ بہتر ہوگا کہ کھیلوں میں سیاسی مداخلت کو ختم کیا جائے اور سیاستدانوں کے بجائے سابق کھلاڑیوں کو نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت اور حوصلہ افزائی کے علاوہ کھیلوں کے فروغ کی ذمہ داری سونپ دی جائے۔ (ملت ٹائمز)
(مضمون نگار روزنامہ انقلاب میں ریزیڈینٹ ایڈیٹر ہیں)