شام اور یمن میں کون، کس کے ساتھ ہے؟

جمال خاشقجی
جب کبھی بحران پیدا ہوتے ہیں،چیزیں زیادہ پیچیدہ ہوجاتی ہیں۔موقف اور اتحاد تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔شکوک وشبہات گہرے اور ارادے زیادہ پراسرار ہوجاتے ہیں۔یمن اور شام میں یہی کچھ ہورہا ہے۔
ترکی شمالی شام میں فوجی آپریشن کررہا ہے اور دولت اسلامی عراق وشام( داعش ) کے مقابلے میں شامی جیش الحر کی حمایت کررہا ہے۔اس پر سب سے زیادہ کردوں کو اعتراض ہے اور وہ ترکی کو ڈرا دھمکا رہے ہیں۔انھیں ترکی کی پارلیمان میں موجود کرد ارکان کی پشت پناہی حاصل ہے۔عراقی کرد خاموش ہیں اور ان کے لیڈر نے اسی ہفتے انقرہ کا دورہ کیا ہے۔عراقی کردوں میں ترک کردوں اور ان کی کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے) کے بارے میں کوئی زیادہ جوش وخروش نہیں پایا جاتا ہے۔پی کے کے کو ترکی،امریکا اور یورپی یونین نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔
کم وبیش تمام تجزیہ کاروں کی یہ سوچ ہے کہ امریکا کی حمایت سے شامی کردوں کی فوجی فتوحات کا مقصد شام کو تقسیم کرنا یا پھرعراق ،ایران ،ترکی اور شام کے علاقوں پر پھیلے ہوئے عظیم تر(گریٹر) کردستان کے لیے ایک مرکز قائم کرنا ہے لیکن عراقی کرد شامی کردوں کے اس منصوبے کے بارے میں کوئی زیادہ پُرجوش دکھائی نہیں دیتے ہیں۔موخرالذکر عراقی کردوں کے خلاف ہیں اور ایران سے بھی خوف زدہ ہیں۔اس لیے وہ کسی بھی طرح ایرانی کردوں کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔
15 اگست کو ترکی نے امریکا کے ساتھ ایک ڈیل طے پانے کا اعلان کیا تھا کہ شامی کرد دریائے فرات کے مغربی کنارے سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔تاہم امریکا نے اس اعلان کو بالکل نظر انداز کردیا کیونکہ اس وقت کرد فرات کے مغرب ہی میں واقع منبج شہر میں داعش کے خلاف جنگ میں فتح یاب ہورہے تھے۔شامی حکومت نے اپنے دوسرے مخالفین کے برعکس کردوں کا استحصال نہیں کیا تھا مگر اس کے باوجود انھوں نے اچانک ایک دوسرے کے خلاف لڑنا شروع کردیا اور شامی طیاروں نے کردوں کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کردی تھی۔
یہ بظاہر علوی اور کرد اقلیتوں کے درمیان اتحاد لگتا تھا۔ان دونوں کے درمیان کسی انتظام کے بغیر کردوں نے بھی داعش کی طرح پھیلنا شروع کردیا اور یہ سب کچھ باغیوں کی قیمت پر ہوتا رہا ہے۔کرد شاید یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کا وقت آگیا ہے۔انھوں نے شامی حکومت کے ساتھ ڈیل کو نظرانداز کرتے ہوئے الحسکہ شہر میں اس کے خلاف فتح کا اعلان کردیا۔روس نے ان دونوں فریقوں کو شام کے ساحلی علاقے میں اپنے ایک فضائی اڈے پر بلا بھیجا اور پھر جنگ بندی کی شرائط کے نفاذ کا اعلان کردیا۔یہ شرائط شامی رجیم کے لیے توہین آمیز تھیں۔
امریکیوں نے اسد رجیم کو خبردار کیا کہ وہ الحسکہ شہر یا کردوں پر دوبارہ حملے سے باز رہے۔چنانچہ اس نے کردوں ،ان کے اتحادی عرب قبائل اور تنازعے میں پھنس کر رہ جانے والے شہریوں کے لیے ایک قسم کے نوفلائی زون کا نفاذ کردیا ہے۔
یہی امریکی ماضی میں شام کے بڑے شہروں میں شہریوں کے تحفظ کی غرض سے نوفلائی زون کے قیام کی تجویز مسترد کرچکے تھے حالانکہ ان شہروں پر شامی فوج جنگ کے قوانین کی ننگی خلاف ورزی کرتے ہوئے بیرل بموں ،نیپام بموں اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرچکی ہے جن کے نتیجے میں ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں۔انھوں نے تب کہا تھا کہ نوفلائی زون ایک پیچیدہ ایشو ہے اور یہ عالمی اتفاق رائے کے بغیر ناممکن ہے۔اسی وجہ سے روس بھی ان حملوں میں حصے دار بن گیا تھا جبکہ امریکا ایسے ہی کھڑا سب کچھ دیکھتا رہ گیا۔
تاہم جب اس کے کرد اتحادیوں کو ہدف بنایا جانے لگا تو اس نے پانچ منٹ ہی میں الحسکہ کو ایک محفوظ علاقہ قرار دے دیا۔اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ وہاں کردوں کے ساتھ امریکی فورسز ہیں لیکن اس ممانعت سے معصوم بچوں سمیت ہر کسی کو فائدہ پہنچا مگر عمران دقنیش کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوا۔اس شامی بچے کی حلب میں ایک ایمبولینس میں غبارآلود اور خون آلود چہرے والی تصویر سے دنیا کا ضمیر اور میڈیا جاگا ضرور لیکن صرف دو یا تین روز کے لیے اور پھر بڑی تیزی سے اس کو بھلا دیا گیا۔
ترکی نے گذشتہ بدھ کو فرات کی ڈھال کے نام سے آپریشن کا آغاز کیا تھا اور یہ امریکی تھے جنھوں نے سب سے پہلے اپنا موقف تبدیل کیا۔ترکی کے دورے پر آئے امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے انقرہ میں ایک نیوز کانفرنس میں کردوں پر زوردیا کہ وہ فرات کے مغربی کنارے کا علاقہ خالی کردیں،اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر وہ امریکا کی حمایت سے محروم جائیں گے۔
درایں اثناء روس نے شہریوں کی زندگیوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا لیکن اس کا یہ موقف اس سے کچھ لگا نہیں کھاتا تھا جو کچھ وہ ادلب اور حلب میں کررہا تھا۔اس معاملے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ماسکو اس فوجی کارروائی کا مخالف نہیں ہے۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس سے چندے قبل ہی ترکی اور روس میں ایک سمجھوتا طے پایا تھا۔
اب ترک فوج کی یہ کارروائی دریائے فرات کے مغربی کنارے کے تمام علاقے اور حلب کے شمال میں کردوں کے زیر قبضہ عفرین تک پھیل سکتی ہے۔اس کے تحت ایک بفر زون بنے گا جس پر کنٹرول تو شامیوں کا ہوگا لیکن اس کو تحفظ ترکی دے گا۔اس کو شام میں فعال تمام فریق تسلیم کریں گے۔روسیوں اور امریکیوں نے اس ملک کو ایک ایسی دلدل بنا دیا ہے جس میں اب وہ ترکی کو بھی کھینچ لائے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ترکی بہت چوکنا ہو کر اقدامات کررہا ہے کیونکہ ان تمام فریقوں میں کوئی باہمی اعتماد نہیں پایا جاتا ہے۔
یمن
یمن میں بھی شام ایسا ہی معاملہ ہے۔صدر عبد ربہ منصور ہادی ایسے لوگوں کو وزراء اور گورنر نامزد کررہے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے ہیں۔ سعودی عرب یمن میں مذہبی علماء کے ایسے جلسوں کی حمایت کرتا رہا ہے جو ایسے کسی سمجھوتے پر متفق ہوسکیں جو انھیں ملک کے مستقبل کے حوالے سے متحد کرسکے۔یمن کی قانونی حکومت نے ان اجلاسوں کی منظوری دی تھی اور الریاض میں منعقدہ ایک بڑی تقریب میں سمجھوتے کا اعلان کیا گیا تھا۔
پھر یمن کے وزیر مملکت ہانی بن بریک الریاض اجلاس پر حملہ آور ہوگئے۔یہ صاحب عدن میں اپنی ملیشیا کی وجہ سے سب سے طاقتور لیڈر ہیں۔انھوں نے سمجھوتے پر دستخط کرنے والے تمام لوگوں پر دہشت گردی کی وکالت کا الزام عاید کیا اور سخت لب ولہجے میں کہا کہ اجلاس کے بیشتر شرکاء یمنی عالم نہیں ہیں بلکہ ایک ایسی جماعت کے ارکان ہیں جس کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ( یو اے ای) نے دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔
ان کی ٹویٹس پر کسی نے انھیں بالکل اسی طرح قابل احتساب نہیں ٹھہرایا جس طرح عدن میں ان کی جانب سے امن عامہ کو توڑنے کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا تھا۔عدن سے شائع ہونے والے ایک اخبار میں ان کے بیانات پر بھی ان سے کوئی بازپُرس نہیں کی گئی ہے۔یہ بیانات ایک ایسے وزیر کی جانب سے جاری کیے گئے تھے جس کی یہ خواہش ہے کہ جنگ کو شمال کی جانب دھکیل دیا جائے تاکہ وہ جنوب میں اپنا بندوبست کرسکیں۔ایک آن لائن اخبار کا کہنا تھا کہ یہ تمام بیانات من گھڑت ہیں لیکن کسی نے اس اخبار کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کی ہے۔
توہین ،الزامات اور شبہات نے مزاحمت میں ہر کسی کو متاثر کیا ہے۔جب کبھی کسی کو کسی عہدے پر مقرر کیا جاتا ہے تو یہ بیانات اور افواہیں سننے کو ملتی ہیں کہ اس مقرر شدہ شخص کا کس خاص ملک نے خیرمقدم نہیں کیا ہے یا اس کی کسی اور ملک نے زبردست حمایت کردی ہے۔ یمن میں وزراء ،گورنروں اور سفراء کا بڑی تعداد میں تقرر معاملات کو پیچیدہ بنا رہا ہے۔بظاہر ایسے لگ رہا ہے کہ وہ ایک ایسے انداز میں حصے بانٹ رہے ہیں جس سے تمام فریق اور ممالک خوش ہوجائیں۔

مجھے ایک مرتبہ ایک سینیر یمنی عہدے دار اور مآرب کے نامزد گورنر شیخ سفیان الرضا سے دوپہر کے کھانے پر ملاقات کا موقع ملا۔ان صاحب نے کہا:”اگر یہ اللہ کے لیے نہ ہوتا اور یہ شخص نہ ہوتا تو یمن کی دو تہائی گورنریاں مزاحمت کے بھی قابل نہیں ہوتیں”۔انھوں نے بتایا کہ انھوں نے کیسے ان 23 ارب یمنی ریال کا تحفظ کیا جو مآرب میں مرکزی بنک کی شاخ میں پڑے ہوئے تھے مگر وہ حوثیوں کے ہاتھ نہیں لگنے دیے۔
پھر انھوں نے کہا کہ ”اگر یمنی اجتماع برائے اصلاحات نہ ہوتا تو پھر تعز ،ایب ،ضامر ،البیضاء اور الحدیدہ میں مزاحمت کا کوئی وجود بھی نہ ہوتا”۔پھر میں نے ان سے کہا کہ آپ یہ سب کچھ میڈیا کو کیوں نہیں بتاتے تاکہ آپ کی صفوں میں موجود اختلافات کا خاتمہ ہوجاتا۔وہ مسکرائے اور یوں گویا ہوئے :”جن لوگوں کو یہ سچ جاننا چاہیے،وہ اس سے پہلے ہی آگاہ ہیں”۔
الریاض نے یمن کو ”آپریشن فیصلہ کن طوفان” کے ذریعے بچا لیا ہے۔یہ آپریشن مارچ 2015ء میں شروع کیا گیا تھا۔اب شاید اسی طرح کے ایک اور آپریشن کا وقت آگیا ہے۔اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا اور یہ سود مند ثابت ہوگا۔
امریکی وزیرخارجہ جان کیری گذشتہ جمعرات کو الریاض میں سعودی عہدے داروں سے ملاقات کے بعد لوٹے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق انھوں نے یمن میں ”مستقل اور منصفانہ امن” کے لیے اپنا منصوبہ پیش کیا ہے تاہم اس میں موجودہ انتظامیہ کو برقرار رکھنے کی شق شامل نہیں تھی۔
کویت میں منعقدہ امن مذاکرات ،سعودی عرب نے جن کی حمایت تھی اور جنھیں حوثیوں اور سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح نے ناکام بنا دیا تھا، کے بعد ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مختلف فریقوں کی حمایت اور پاسداری کے بغیر کوئی مذاکرات یا امن منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا۔
(یہ مضمون العربیہ سے لیا گیا ہے ،ملت ٹائمز کا کالم نگار سے متفق ہونا ضرور نہیں ہے )