کس کی جان زیادہ پیاری لیڈر کی یا جنتا کی ؟

 حامداکمل

(ایڈیٹر روزنامہ ایقان ایکسپریس) 

کورونا وائرس کی عالم گیر دہشت کے دوران اس کے انسداد کی کوششیں، احتیاطی تدابیر اور انسانیت کی بقاء کی فکر ، سیاست دانوں کی جھوٹی ہمدردی اور اپنی زندگی کی حفاظت کے لئے عوامی مفاد کو قربان کرنے کے واقعات نے ہندوستانی سیاست اور سیاست دانوں کے دوغلے پن کو آشکار کردیا ہے ۔ اس کالم کے سپرد قلم کئے جانے کے موقع پر 21مارچ تک کوویڈ 19- سے دنیا بھر میں 10,029 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ (168) ملکوں میں پھیلے اس مرض سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ڈھونگی سیاست دانوں ، ڈھونگی باباوں کے ساتھ ڈھونگی عوامی نمائندوں اور ڈھونگی میڈیا نمائندوں کی کمی نہیں ہے ۔ ان تمام لوگوں کے ساتھ مستعملہ لفظ ڈھونگی ہی ان کے پول کھولنے کے لئے کافی ہے ۔ جب ملک ان ہی ڈھونگیوں کے قبضے میں ہو اس کی بھلائی اور حفاظت کی توقع کس سے کی جاسکتی ہے ۔ کرناٹک کے گلبرگہ میں (12)افراد کے پازیٹیو قرار دیئے جانے کے بعد ضلعی انتظامیہ نے جو احتیاطی اقدامات کئے ہیں ان کی داد دی جانی چاہئے۔ ڈپٹی کمشنر پی شرت نے اپنا اور اپنے ضلعی عہدیداروں کا چین حرام کررکھا ہے ۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ ڈپٹی کمشنر شرت او ران کے ساتھی کب سوتے ہیں جب دیکھئے تب کورونا وائرس کے قلع قمع کرنے کی ’ فکر‘ مشاورتی اجلاس ’ انسدادی اقدامات اور ان سب سے ہٹ کر عوامی سطح پر خود عائد کردہ پابندیوں پر عمل درآمد یہ سب کچھ آسان نہیں ہے ۔ ضلع گلبرگہ کی نگرانی نائب وزیراعلی گووند کارجول کو دی گئی ہے ۔ انہوں نے اس خطرناک وبا کے منظر عام پر آنے کے بعد گلبرگہ کا رخ نہیں کیا۔ چار دن پہلے ڈپٹی کمشنر گلبرگہ سے انہوں نے ویڈیو کانفرنسنگ کی اور کورونا وائرس کے انسداد کے لئے مزید اقدامات تجویز کئے ۔سیاسی اور عوامی حلقوں میں گووند کارجول کے گلبرگہ کا دورہ نہ کرنے پر سخت تنقید کی جارہی ہے ۔ عوام الناس نے انہیں صیغہ غائب میں رکھ کر خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔ سوشیل میڈیا میں گووند کارجول کو سینکڑوں لوگ خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔ گووند کارجول کے مقابلے میں بلدی کے نمائندے ریاستی وزیر صحت بی شری راملو نے تین دن تک گلبرگہ کا دورہ کیا۔ جیمس ہاسپٹل اور ای ایس آئی سی ہاسپٹل میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لئے بنائے گئے آئسولیشن وارڈس اور ان کے علاج معالجہ کا معائنہ کیا اور خون اور بلغم کے ٹسٹ کے لئے ایک لیبارٹری کے قیام کے لئے ریاستی حکومت پر دباو ڈالا ۔گلبرگہ کے بی جے پی ایم پی ڈاکٹر اومیش جادھو نے کہاکہ اب یہ لیب ایک دوران میں کام کرنے لگے گی۔ اس سے متاثرین دودن کے ِخون وغیرہ کے معائنہ میں تیزی آئے گی ورنہ بنگلور کی سرکاری لیاب کو یہ نمونے روانہ کرکے تین چار دن تک رپورٹ کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ گلبرگہ میں لیاب کے قیام سے 24 گھنٹوں کے اندر کئی متاثرین کے خون وغیرہ کا معائنہ ممکن ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ اطراف گلبرگہ کے سات اضلاع بیدر ، رائچور ، یادگیر ، شاہ پور ’ کوپل اور بیجاپور اور بلاری کے متاثرین کو بھی اس سے مدد ملے گی۔

گلبرگہ حیدرآباد کرناٹک صوبے کا صدرمستقر ہے اور جغرافیائی طورپر تلنگانہ ‘ مہاراشٹرا اور آندھرا قریب ہونے کی وجہ سے یہاں ان علاقوں کے اثرات سے اور ان علاقوں میں گلبرگہ کے اثرات سے بیماریاں اور خطرناک وبائیں پھیل سکتی ہیں ۔ ڈسٹرکٹ اڈمنسٹریشن نے ان اثرات سے علاقے کو بچانے اور علاقے کے اثرات سے پڑوسی ریاستوں کو بچانے کے لئے بین ریاستی سرحدیں بندکردی ہیں ۔ بس ٹرانسپورٹیشن رابطہ منقطع کردیا ہے ۔ ٹرین رابطہ برقرار ہے ریلوے اسٹیشن پر آنے اور جانے والے مریضوں کا معائنہ کرکے انہیں چھوڑا جارہا ہے ۔ مخدوش مریضوں کو فوری دواخانہ منتقل کیا جارہا ہے ۔

تمام اسکول کالجس بند ہےں ۔ صرف پی یو سی امتحانات جاری ہےں ۔ ان کے بعد ایس ایس ایل سی کے امتحانات منعقد ہوں گے۔ اہم سرکاری دفاتر اور لازمی خدمات کام کررہے ہےں۔ بازار ، دکانیں، ہوٹلس ‘ سنیما گھر ‘ شاپنگ مالس ‘ دھارمک مراکز ‘ منادر بند ہیں ۔ مساجد میں محدود وقت میں نماز کی ادائیگی کے بعد مصلیان کو فوری گھر جانے کی ہدایت دی گئی ہے ۔ درگاہوں میں گروپس کی شکل میں حاضری اور زیادہ وقت ٹھہرنے کی اجازت نہیں ہے اور اس پر وزیر اعظم نریندر مودی کا 22 مارچ کو خود عائد کردہ قومی بند کا حکم ہے ۔ اس کے مکمل کامیاب ہونے پر کیا ملک سے کورونا وائرس کا خاتمہ ہوجائے گا ؟ اس سوال کا جواب سوائے وزیر اعظم کے ہر شخص کے پاس ہے ۔ سب کچھ ہورہا ہے تو یہ بھی ہوجائے ‘ جو کچھ ہوگا اوپر والے کے حکم سے ہوگا ۔ زمین پر ڈرامے کرنے والے کرتے رہےں ۔ گلبرگہ میں کرناٹک بھر سے زیادہ سخت احتیاطی اقدامات کامیابی کے ساتھ کئے گئے ۔ دس بارہ دنوں سے لوگوں کا گھروں سے نکلنا بند ہے ۔

 جن لیڈروں نے جان کے خوف سے گلبرگہ کا دورہ نہیں کیا ہے ‘ ان میں ضلع کے نگران و نائب وزیر اعلی گووند کارجو سرفہرست ہیں ۔ ان ہی کے پارٹی کے گلبرگہ اور حلقہ کے رکن اسمبلی بسواراج متی موڈو اور گلبرگہ جنوب کے رکن اسمبلی دتاتریہ پاٹل اپنی سالگرہ منانے کے بعد غائب ہوگئے ہےں۔ اسمبلی اجلاس کے جاری رہنے کے دوران ہر رکن اسمبلی اجلاس میں شریک رہتا ہے مگر ہفتہ اور اتوار اپنے حلقہ میں گذارتا ہے ۔ گلبرگہ کے کم و بیش سبھی ارکان اسمبلی ایک ہفتہ دس دن سے گلبرگہ ضلع سے غائب ہےں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گلبرگہ کے عوام کی جان سستی ہے ۔ انہیں خواہ کچھ ہوجائے ان کے نمائندوں کی جان کو دھکہ نہیں پہنچنا چاہئے ۔ کوئی رکن اسمبلی عوام کو اس مصیبت سے لڑنے کی ہمت دلاتے ہوئے نظر نہیں آیا۔ دور دور سے سرکاری عہدہ داراروں کو نصیحت یا ان کے کام پر تنقید کے سواگلبرگہ ضلع کے بیشتر ارکان اسمبلی نے کچھ نہیں کیا ۔ ایک رکن اسمبلی نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ ہمارے ارکان اسمبلی پورا وقت کبھی اسمبلی میں نہیں گذارتے یہ تو کورونا وائرس کا اثر ہے کہ کوئی رکن اسمبلی اپنے حلقے میں جانا نہیں چاہتا اس سے سبھی اسمبلی کی کاروائی میں سارا سارا دن شریک نظر آتے ہیں ۔ نائب وزیر اعلی اور وزرا ویڈیو کانفرنس منعقد کرکے ڈپٹی کمشنر کو نصیحت کرنے کا پوز دیئے ہوتے نظر آرہے ہیں ۔

گلبرگہ آ کر صورتحال کا جائزہ لینے کی کسی میں ہمت نہیں ہے۔ جان کا خوف ان سیاستدانوں میں کس قدر شدید ہے اس کا اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سیاستدانوں کے چیلے چانٹے اپنے ارکان خاندان کو گلبرگہ میں چھوڑ کر اپنے لیڈروں کے ساتھ بنگلورو میں مزے کررہے ہیں ان کے ارکان خاندان کورونا وائرس کا خوف جھیل رہے ہیں۔ سیڑم کے بی جے پی رکن اسمبلی راجکمار تیلکورجو پندرہ سال تک شکست اٹھا کر اس بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں ان کے حلقہ کے عوام بھی ان کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ بیماری کی اس گھڑی میں کب ان کے درمیان ہوں گے۔ گلبرگہ شمال کی رکن اسمبلی محترمہ کنیز فاطمہ قمر الاسلام بھی بیماری کے اس برے وقت میں عوام سے رابطہ میں نہیں ہیں۔ اپنے طورپر وہ بنگلورو ہی میں سرکاری ربط کے ذریعہ گلبرگہ کے حالات کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ضلع گلبرگہ کے بیشتر ارکان اسمبلی نے گلبرگہ آنا تو دور کی بات گلبرگہ کی طرف دیکھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ گلبرگہ آکر اپنی زندگی کورونا وائرس کے خطرے میں نہیں ڈال سکتے ابھی دس پندرہ دن یا ہوسکے تو پورا ایک ماہ بنگلورو میں ہی گذارنا چاہتے ہیں۔ گلبرگہ کے نامزد نمائندوں میں سے ایک الحاج اقبال احمد سرڈگی ایم ایل سی عہدہ داروں سے مسلسل ربط میں ہیں خود ان کی طبعیت اس قدر خراب ہے کہ وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہیں کانگریس پارٹی کے دوسرے لیڈروں کی رپورٹ بھی یہی ہے۔ سابق ریاستی وزیر پرہانک کھرگے ٹوئٹر پر گرماگرم تنقیدی بیانات جاری کررہے ہیں لیکن وہ بھی گلبرگہ میں موجود نہیں ہیں اور نہ ہی اپنے حلقہ چیتاپور میں ہیں۔ ان کو بھی یہ خوف ہے کہ اگر وہ گلبرگہ جائیں گے تو وائرس ان پر ہی حملہ کردے گا۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی الند سبھاش گتہ دار نے دو بیانات اخباروں کو جاری کرکے کورونا وائرس پر تشویش ظاہر کی لیکن بنگلورو سے گلبرگہ آنے کی ہمت نہیں دکھائی۔ افضل پور کے کانگریسی لیڈر ایم وائی پاٹل بھی بنگلورو میں گپ شپ کررہے ہیں۔

بی جے پی کے ایم ایل سی ‘ پی جی پاٹل کچھ دن پہلے گلبرگہ میں تھے۔ انھو ںنے عوام کو کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں دلائی۔ ہر دن اخبار میں ان کا کوئی نہ کوئی بیان ضرور شائع ہوتا ہے کہ انھوں نے کن معاملات پر حکومت کو توجہ دلائی۔ اب یہ نہیں معلوم کہ وہ کورونا وائرس سے گلبرگہ کے عوام کو بچانے کے لئے کیا کررہے ہیں۔ ایک اور ایم ایل سی میں تپّن اپّا کمکنور وہ بھی بڑے سرگرم لیڈر ہیں۔ انھوں نے بھی دس بارہ دن سے گلبرگہ کا رخ نہیں کیا ہے وہ اسمبلی اجلاس میں پابندی سے شرکت کررہے ہیں۔

ایک طرف گلبرگہ کے عوامی نمائندے اپنی جان بچانے کے لئے گلبرگہ سے دور ہیں۔ دوسری طرف ڈپٹی کمشنر شرت بی اور ان کی ٹیم ہے جو مسلسل سرگرمی سے کورونا وائرس سے خود بھی لڑ رہی ہے اور عوام کو بھی حوصلہ دلا رہی ہے۔ خطرناک بیماری اور نازک حالات میں ہر ایک کو اپنی ذمہ داری ایمانداری سے نبھانی چاہئے۔

چار دن پہلے سوشیل میڈیا میں کورونا وائرس کے پہلے مریض (متوفی) کا علاج کرنے والے ڈاکٹر بیمار ہونے اور انتقال کر جانے کی جھوٹی خبر نشر کی گئی۔ پولیس کمشنر نے اس ادارے کے خلاف کارروائی کرنے ڈپٹی کمشنر کو ہدایت دی ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف جب تک سخت کارروائی نہیں ہوگی نام نہاد میڈیا رپورٹرس کی من مانیاں جاری رہیں گی۔