بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا اعلامیہ

محمد شارب ضیاء رحمانی
مدرسہ ایجوکیشن بورڈ نے اعلامیہ جاری کیا ہے،اس میں دوباتیں ہیں، پہلی بات زیادہ اہم ہے کہ مدرسہ بورڈ نے آزاد مدارس کے فضلاء کو براہ راست مولوی (انٹرکے مساوی) کے امتحان کی اجازت دی ہے یعنی ان اداروں کے فاضل کے پاس وسطانیہ اور فوقانیہ کی اسناد نہ بھی ہوں تو مدرسہ کی سند سے سیدھا مولوی کا امتحان دے سکتا ہے۔
یہ اہم بات ہے-اس کے لیے جن لوگوں نے کوشش کی ہے وہ قابل تحسین ہیں-لیکن اس پر کئی طرح کے سوالات ہیں۔ (ذیل کے سطور میں وہ درج ہیں) پجن کی وضاحت بورڈ کو کرنی چاہیے-
دوسری بات کہ ان مدارس کے فضلاء کی مدرسہ بورڈ کے مدارس میں تقرری ہوسکتی ہے-یہ چیز پہلے سے منظور ہے۔ اس میں دارالعلوم وقف کا اضافہ ہے یعنی اس بار وقف کو بھی منظوری ملی ہے-اس کے لیے وقف کے لوگوں کی کوشش قابل قدر ہے۔
دل چسپ بات یہ کہ اسی اعلامیہ میں چیئرمین صاحب نے 29مئی بروز جمعہ مدارس کھولنے کا حکم جاری کیاہے،سب جانتے ہیں کہ مدرسہ بورڈ کے تحت مدارس میں جمعہ کو چھٹی رہتی ہے۔
چیئرمین صاحب کا متنازعہ ہونا اپنی جگہ لیکن بہتر اقدام کی کوشش ہے اگر تھوڑی وضاحت ہوجائے اور اس پرعمل ہوتو، کیوں کہ بہت سارے اعلانات محض الیکشن کا ہتھکنڈہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے دعوے اور وعدے اب تک کاغذوں پر ہیں ۔ چیئرمین صاحب کی نامزدگی کے بعد پے درپے جاری ہونے والے اشتہارات اور اعلامیے کو ایک بار پلٹ کر دیکھنے لینا چاہیے کہ ان پر کتنا عمل ہوا؟
بہار کے بدعنوان نظام میں کسی بھی امکان کی گنجائش ہے اور عمومی طور پر مقامی انتظامیہ کی بدعنوانی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
چیئرمین کے فیصلے پر عمل درآمد پر شک کی وجہ یہی ہے کہ کئی تکنیکی خامیوں کی وجہ سے ان کے فیصلے روکے جاچکے ہیں، بورڈ کے ممبران کی حیثیت پالیسی ساز اور فیصلہ کن کی ہے، چئیرمین نے تحکمانہ مزاج کی وجہ سے ان کو سائیڈ کردیا جس کی وجہ سے ماضی کے فیصلے روکے گئے ۔ اللہ نہ کرے کہ اس معاملے میں ایسا ہو۔
آزاد مدارس کی اسناد پر عالم یا فاضل کا امتحان بھی لیا جاسکتا تھا لیکن ایک ٹیکنیکل وجہ سے مولوی کے امتحان کی اجازت ہوئی ہے ۔کیوں کہ اب عالم اور فاضل کے امتحانات مدرسہ بورڈ سے نہیں بلکہ مولانا مظہرالحق یونی ورسیٹی کے تحت ہوتے ہیں، بورڈ کا دائرہ اختیار مولوی کے امتحان تک ہی تھا، دو ہی متبادل تھا کہ مولوی کے امتحان کی اجازت مان لی جائے یا اسے بھی چھوڑ دیا جائے ۔اس لیے مالا یدرک کلہ مالا یترک کلہ کے تحت جو مل رہا تھا اسے ہی قبول کرلیا گیا ۔
سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ندوۃ العلماء، دارالعلوم وغیرہ کی سند پرمدرسہ بورڈ کے مدارس میں فاضل کی سیٹ پر بحالیاں ہوتی رہی ہیں ۔ اب بورڈ کے نوٹیفیکیشن میں وضاحت ضروری ہے کہ بحالی کے لیے ان مدارس کی سند کو ماضی کی طرح فاضل کے مساوی سمجھا جائے یعنی اس سند پر فاضل کی سیٹ پر بحالی ہو جیسی ہوتی رہی ہے اور جو فضلائے مدارس نظامیہ، وسطانیہ اور فوقانیہ کی سند نہ رکھتے ہوں وہ اس آرڈر کے مطابق براہ راست مولوی کا امتحان دے سکتے ہیں۔
لیکن یہ مشکل لگتا ہے کہ تکنیکی طور پر متضاد پہلو ہوں گے ۔ سوال یہی ہے کہ بحالی کے لیے فاضل جب مان رہے ہیں تو امتحان کے لیے فوقانیہ کے مساوی سند کیوں؟ بورڈ سے مطالبہ ہے کہ وہ اس کی وضاحت کرے-ورنہ صرف فوقانیہ تک کی سیٹ پر بحالی ہوسکے گی ۔ اور افسر گردی میں آگے چل کر یہ معاملہ الجھ جائے گا، چیئرمین صاحب اگر مخلص ہیں تو انھیں اس طرح لٹکا دینے والا کام نہیں کرنا چاہیے ۔
آخری چیز یہ کہ اگر آزاد مدارس کی سند عالم یا فاضل کے مساوی نہیں مانی گئی تو یہ اجازت مولوی کی بجائے فوقانیہ امتحان کی ہوتی تو بہتر ہوتا، بظاہر یہ تنزلی ہے لیکن مستقبل کے لیے مفید ہے، مان لیا کہ کوئی فاضل جامعہ رحمانی براہ راست مولوی کا امتحان دیتا ہے، آگے چل کر اسے ہرحال میں میٹرک یا فوقانیہ کی سند کی ضرورت ہوگی، یہی بنیاد ہوتی ہے، پھر وہ کہاں سے لائے گا؟ بنیاد یعنی میٹرک یا فوقانیہ کی سند بہت ضروری ہے، برتھ سرٹیفیکیٹ، پاسپورٹ یا کسی ویکینسی میں اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا ۔ اگر بہار سرکار مدارس نظامیہ کی اسناد پر مولوی کی بجائے فوقانیہ کے امتحان کی اجازت دیتی ہےٹتوایک بنیاد مل جائے گی یا پھر بہار سرکار آزاد مدارس کی اسناد کو ہر ڈپارٹمنٹ میں فوقانیہ اور میٹرک کے برابر تسلیم کرنے کا نوٹیفیکیشن نکالے کیوں کہ مدرسہ بورڈ میں وہ فوقانیہ کے مساوی مان چکی ہے، اور اگر یہ نہیں ہوتا تو ان اسناد کو مولوی امتحان کی اجازت کی بجائے عالم یا فاضل کے مساوی قرار دیا جائے ۔ صرف مولوی کے امتحان کی اجازت کافی نہیں ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں