پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
ملت ٹائمز
لیبیا مغربی افریقہ میں واقع وہاں کا چوتھا سب سے بڑا ملک ہے اور دنیا بھر میں سولہویں نمبر پرآتا ہے ،1,759,541 مربع کیلومیٹر پر محیط رقبہ ہے، اس کے شمال میں بحیرہ روم واقع ہے ،حبکہ مشرق میں مصر ،جنوب مشرق میں سوڈان ،جنوب میں چڈ اور نائیجریااور مغرب میں تیونس اور الجیر یاسے لیبیا کی سرحدیں ملتی ہیں ۔وہاں کی کل آبادی65 لاکھ کے قریب ہے ،جن میں سے 97 فی صدسے زائد مسلمان ہیں ۔
647 میں حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ کی قیادت اور عبد اللہ بن سعد کی سپہ سالای میں مسلم فوج نے یہاں کے تاریخی شہر طرابلس پر فتح ونصرت کا علم لہرایاتھا،لیبیا کے جنوبی علاقہ فزان کی فتح 663 میں حضرت عقبہ بن نافع رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھوں ہوئی تھی ، خلافت بنی امیہ کے دور میں پورے لیبیا میں اسلامی حکومت قائم ہوگئی ، خلافت بنوعباسیہ کے دور میں اسے مزید استحکام ملا ، خلیفہ ہارون رشید نے اسے افریقہ کا مضبوط ترین ملک بنادیا اور خلافت عثمانیہ تک لیبیا اسلامی سطلنت کا ناقابل تسخیر جز رہا،1912 میں اٹلی ،ترک جنگ کے دوران لیبیا پر سلطنت عثمانیہ کا اقتدار ختم ہوگیا ، اطالوی اس کے بیشتر حصے پر قابض ہوگئے اور31 سالوں تک لیبیا پر حکومت کی ، اطالوی حکومت کے دوران لیبیا میں تحریک آزادی کی آواز مسلسل بلند ہوتی رہی ،جس میں نمایاں نام اسعد مختار نام کے ایک جاں باز مجاہدکا ہے جنہوں نے اطالیوں کے خلاف منظم پیمانے پر جنگ آزادی کی تحریک چلائی اور اٹلی کی غلامی سے نجات پانے کے لئے دسمبر 1931 میں انہوں نے تختہ دار پر لٹک کر اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کردی، آزادی کی جو صور انہوں نے پھونکی تھی وہ رکی نہیں بلکہ بڑھتی رہی اور ایک بڑی تعداد اطالوی حکومت کے خلاف آزادی کا مطالبہ کرنے لگی ، شاہ ادریس کی قیادت میں لیبیائی عوام آزادی کے حصول کے لئے تن من دھن کی قربانیا ں دینے لگی ، اطالوی حکومت نے بھی آزای کے پروانوں کو باغی قررادے کر کچلنا شروع کردیا، ایک اطالوی تاریخ داں ’’ایمولیوجینٹائل‘‘ کے مطابق پچاس ہزار سے زائد افراد کو قتل کردیا گیا ، لیکن آزادی کے پروانوں کی یہ تحریک ماندنہیں پڑی، ان کی جدوجہد جاری رہی،تختہ دار پرلٹکنے کے باوجودانہوں نے آزادی کی تحریک سے انحراف نہیں کیا ،بالآخر1940 میں ہونے والی عالمی جنگ میں اٹلی کی شکست لیبیا کے لئے نوید مسرت بن کر آئی ، 1943 میں لیبیا اٹلی سے نجات پاکر اتحادی افواج کے ماتحت آگیا،جس کاانتظام و انصرام برطانیہ اور فرانس کے درمیان مشترکہ طور پر تھا،دوصوبوں پر برطانیہ کی حکومت تھی اور ایک علاقے پر فرانس کا اقتدار تھا،24 دسمبر 1951 میں برطانیہ نے لیبیا کی مکمل آزادی کا اعلان کردیا اوراس طرح شہید اسعد مختار کی آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا، شاہ ادریس یہاں کے پہلے بادشاہ بن گئے ۔ لیکن ان کے خلاف بھی فوجی بغاوت شروع ہوگئی اور یکم ستمبر 1969 میں فوجی کمانڈر معمر القذافی نے حکومت کا تختہ پلٹ کر شاہ ادریس کو اقتدارسے بے دخل کرکے اقتدار کی باگ دوڑاپنے ہاتھوں میں لے لی،1977 میں عرب جمہوریہ کے نام قذافی نے اعلان کیا او ر یوں لیبیا ایک جمہوری ملک بن گیا ،تقریبا42سالوں تک معمر القذافی نے بلاشرکت غیر لیبیا پر حکومت کی ، 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی عربہاریہ تحریک لیبا بھی پہونچ گئی ، عوامی بغاوت اور معمر القذافی کے خلاف چلنے والی تحریک کو ناٹو افواج کی مکمل حمایت مل گئی اور اگست 2011 میں عالم اسلام کے غیور،باضمیر اور ہوشمند حکمراں کے قتل کے ساتھ لیبیا خاک وخون میں تبدیل ہوگیا۔
لیبیا کا شمار دنیا کے ان دس اہم ممالک میں ہوتاہے جہاں سب سے زیادہ تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں ، معمر القذافی کے دور میں لیبا نے اقتصادی ،معاشی،تعلیمی اور معاشری سطح پر بے پناہ ترقی کی تھی،عوام کو ہر طرح کی سہولیات حاصل تھی ،بنیادی تعلیم عوام کو مفت میں فراہم کرائی جاتی تھی،ثانوی تعلیم لازمی تھی ،وکی پیڈیا کے مطابق 89 فی صد لیبیا میں تعلیم ہے جبکہ کچھ دوسری رپوٹس یہ کہتی ہیں کہ معمر قذافی کے زمانے میں وہاں سو فیصد تعلیم تھی ،ہر فرد کو ایک گھر دیا جاتاتھا، پیدائش کے بعد ہی بچے کے نام وظیفہ جاری کردیا جاتھا، قذافی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس نے امریکہ اور یورپ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور ان کے نظام کو اپنانے کے بجائے اپنا نظام مرتب کیا ، انہوں نے جوہری ہتھیار بنانے کی بھی پہل کی جس کی پاداش میں مغرب نے لیبیا پر پابندی عائد کردی ، 2003 میں قذافی نے امریکہ کی شرطوں کو تسلیم کرتے ہوئے جوہری منصوبہ ختم کردیا اور مغربی کمپنیوں کو کاروبار کی اجازت دی لیکن قذافی نے تیل کی خریدو فروخت اپنی شرطوں کے مطابق کی ، اپنا ایئر لائنس بنایا، قومیت کے نام پر تمام عربوں کو متحدکرنے کی پہل کی ، مغرب کی بے جا دخل اندازی اور داداگیر کو پیش نظر رکھتے ہوئے دوبارہ ان کی شراکت پر پابندی عائدکردی ، عراق کے سابق صدر صدام حسین کی پھانسی پر معمر قذافی نے تین روزہ قومی سوگ منانے کا اعلان کیا ،یہ وہ چیزیں تھی جو مغربی ممالک کو کھٹکنے لگی ، معمر القذافی کو ختم کرنے کا انہوں نے فیصلہ کرلیا ،29 مارچ ،2011 میں امریکہ اور برطانیہ کی کوششوں سے لیبیا پر حملے کرنے پر اتفاق کر لیا گیا، ایک مہینہ کی جاری جنگ کے بعد جب جنگ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلاتو امریکہ نے قذافی کے قتل کا فرمان جاری کردیا،اور 23 اگست 2011 میں ناٹو کی افواج نے قذافی کو قتل کردیا۔
قذافی کے قتل کے بعد مغربی میڈیا نے قذافی پر الزامات کی بوچھا رکردی ، ہندوستان کی میڈیا بھی قذافی کی شخصیت کو داغدارکرنے میں پیش پیش رہی،ان تقریبات اور پروگرام کو خصوصیت سے کوریج دیا گیا جس میں عوام قذافی کے قتل پر جشن منارہی تھی ، باغی فتح کے ترانے گارہے تھے لیکن آج قذافی کے قتل کے بعد دنیا کے اس خوشحال ملک کا حال بد سے بدتر ہوچکا ہے ، حکومت اور اقتدا رنام کی وہاں کوئی چیز نہیں ہے ،چودہ سال سال قبل کی تاریخ آج پھر وہاں دہرائی جارہی ہے یعنی ہرقبیلہ کی اپنی حکومت ہے ،جس میں قابل ذکر دو فریق ہے ، ایک فریق اسلام پسندوں کا ہے دوسرا فریق اسلام بیزا روں کا ، 2014 سے لیبیا میں دو متحارب حکومتیں کام کر رہی ہیں جن میں سے ایک مغربی لیبیا میں دارالحکومت طرابلس میں اسلام پسندوں کی حمایت یافتہ حکومت ہے اور دوسری مشرق کے طبرق میں اسلام بیزاروں کی پارلیمینٹ ہے ۔ اقوام متحدہ دونوں کو متحد کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن کامیابی نہیں مل پارہی ہے ، عالمی طاقتیں طرابلس میں قائم حکومت کو ختم کرکے طبرق کی اسلام بیزا جماعت کو اقتدار دینا چاہتی ہے جو اسلام پسندوں کو تسلیم نہیں ہے ۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں گروپ کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اگر مرکز میں اسلام پسندوں کی حکومت بنتی ہے تواسلام بیزار اس کو اکھاڑ پھنکنے کیلئے تشدد شروع کردیتے ہیں اور اگراسلام بیزار کو اقتدارملتا ہے تو اسلام پسند مسلح حملے شروع کردیتے ہیں ،عالمی طاقتیں بھی انصاف کے ساتھ کام لینے کے بجائے دوہری پالیسی اپنارہی ہے ، وہ اسلام پسندوں کو اقتدار سے بے دخل کرکے اسلام بیزاروں سیاہ وسفید کا مالک بنانا چاہتی ہے تاکہ پس پردہ مکمل مغرب کی حکمرانی رہے ، منتخب حکومت کٹھ پتلی بن کر کام کرے ۔ ان سب کے درمیان عام شہری ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ایسا کوئی دن نہیں گذرتا جب کوئی گروپ دوسرے گروپ کے علاقے پر حملہ نہیں کرتا اور اس لڑائی میں 40تا 50 افراد مارے نہیں جاتے۔ بمباری ، قتل و غارت وگری اور اقتداری کے لئے جاری جنگ کے دوران ہزاروں افراد مصر اور تیونس نقل مکانی کرچکے ہیں جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں لیبیا کے شہری نامساعد حالات کے باوجود بحیرہ روم پار کر کے یوروپی ممالک کا رخ کررہے ہیں جہاں وہ غلاموں سے بد تر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ، شام کے بعد سب سے زیادہ ہجرت کرنے والوں کی تعداد لیبیائی عوام کی ہے ، اب تک تقریبا وہاں سے دس لاکھ سے زائد افراد ترک وطن کرچکے ہیں،تیل کی دولت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے ۔ گذشتہ دنوں لڑائی کے دوران ایک کنویں میں آگ لگادی گئی تھی جس میں 18 لاکھ بیرل تیل جل کر خاکستر ہوگیا تھا ۔معمر قذافی کے دور میںیومیہ16 لاکھ بیرل تیل نکلتا تھااور اب صرف 6 لاکھ بیرل تیل نکل رہا ہے ،ملک کی اقتصاری اور معاشرتی صورت حال ناقابل بیا ن ہے۔
لیبیا جیسا دنیا کا خوشخال ملک ان دنوں تباہی اور بربادی کی داستان بیان کررہاہے ، امن وسلامتی کے لئے بے چین و بے قرار ہے ،وہاں کی صورت حال عراق ،افغانستان اور شام سے بھی بد تر ہوچکی ہے ،خانہ جنگی نے جینا دوبھر کردیا ہے ، اب وہاں کی عوام کو یہ محسوس ہورہا ہے کہ ہزار برائیوں کے باوجود قذافی بہتر تھا، اسی کی آمریت میں امن وسلامتی تھی ،امریکہ کی مخالفت اور اس کی دشمنی میں ہی لیبیا کی خیر وعافیت تھی جب سے امریکہ کا سایہ پڑا ہے لیبیا تباہی و بربادی کی نذر ہوگیا ہے ، خاک و خون میں تبدیل ہوگیا ہے، پانچ سال کا عرصہ گذر جانے کے باوجود بھی سیاسی استحکام نہیں ہوسکا ہے ۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com