نسلی عصبیت: امریکہ اور بھارت دونوں کی کہانی ایک ہے!

پس آئینہ : شمس تبریز قاسمی

نسل پرستی ، تعصب اور امتیازی سلوک کے خلاف امریکہ اس وقت سراپا احتجاج بنا ہوا ہے ۔عالمی تاریخ کا یہ عجیب و غریب معاملہ ہے کہ امریکہ پوری دنیا کو انسانی حقوق کا سبق پڑھاتا ہے لیکن اس کی خلاف ورزی روز اول سے وہاں ہورہی ہے اور اکیسویں صدی میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔امریکہ میں سیاہ فام اور سفید فام شہریوں کو قانونی طو رپر پچپن سال قبل یکساں حقوق دیئے گئے لیکن عملی طور پر ابھی تک یہ نافذ نہیں ہوسکاہے ۔ا س معاملے میں بھارت بھی امریکہ کے ساتھ ہے بلکہ نسلی تعصب یہاں امریکہ سے زیادہ پایا جاتا ہے ، خبر در خبر کے اس کالم میں ہم اسی بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ نسلی تعصب اور انسانی حقوق کی پامالی میں آگے کون ہے امریکہ یا بھارت ؟۔

امریکہ کی دریافت 1492 میں ہوئی ۔ اس کے بعد فرانس ، یونان ، اندلس اور دیگر یورپین ممالک کے شہریوں نے یہاں آکر رہائش اختیار کرلی اور اپنے ہاتھوں میں پورا کنٹرول لے لیا ۔ یہاں پہلے سے آبادی موجود تھی جس کو نظر انداز کردیا ۔ یہ آبادی کب سے تھی ، کون قوم تھی تاریخ میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ریکاڈ ہے ۔ 15 ویں صدی سے لیکر اٹھارہویں صدی یہاں پندرہ ملین افریقی شہری غلام بنا کر لائے گئے جن سے زراعت، تعمیر اور دیگر کام لئے جاتے تھے ۔ امریکی میں ان کی حیثیت غلام کی تھی ، ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر معاملہ کیا جاتا تھا ، ان کی حیثیت صرف کام کرنے والی مشین جیسی تھی ، انہیں کسی طرح کا کوئی بھی انسانی حق حاصل نہیں تھا۔ سیاہ فاموں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کیا ، دنیا بھر میں اس کی مذمت ہوئی ، غلام فروشی کے خلاف آواز بلند ہوئی ۔ امریکہ میں بھی اس کے خلاف احتجا ج ہوا ، یہ اس وقت کی بات ہے جب پوری دنیا میں غلاموں کی خریدو فروخت، اور انسانوں کو غلام بنانے کا سلسلہ بند ہوچکا تھا ، صرف امریکہ میں یہ کاروبار چل رہاتھا چناں چہ امریکہ نے بھی 1865 میں اپنے یہاں آئینی ترمیم کے ذریعہ غلام کی خریدو فروخت پر پابندی عائد کردی ۔ اس ترمیم کے بعد بھی سیاہ فاموں کو کوئی فائدہ نہیں ہوسکا ۔ امریکی معاشرہ میں انہیں کوئی بھی حق نہیں مل سکا ۔ سیاہ فاموں کیلئے حصول تعلیم ممنو ع تھا ، زمین کی ملکیت کا حق بھی حاصل نہیں ہوسکتاتھا ، بہت سے سرکاری عہدے یہ حاصل نہیں کرسکتے تھے ۔ سفید فاموں کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔ جس کلب اور ریسٹورینٹ میں سفید فام جاتے تھے وہاں انہیں جانے کی کوئی اجازت نہیں تھی ۔ بسوں میں سفید فاموں کیلئے سیٹ مخصوص ہوتی تھی جہاں کسی سیاہ فام کو بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، سیٹیں خالی رہنے کے باوجود سیاہ فام وہاں نہیں بیٹھ سکتے تھے ، اگر کوئی سفید فام بس میں آتا تو سیاہ فام کیلئے اٹھ کر کھڑا ہونا اور سیٹ خالی کرنا ضرروری ہوتاتھا ۔

1940 کی دہائی میں ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا ، روا ’پارک ‘ میں ایک سیاہ فام خاتو ن بیٹھی تھی ، وہاں ایک سفید فام شخص آیا ، عورت نے اس کیلئے کرسی خالی نہیں کی ،اس کی پاداش میں سیاہ فام خاتون کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ۔اس واقعے نے مارتھن لوتھر کنگ کو شدید متاثر کیا اور اس واقعے کو سامنے رکھ کر انہوں نے سیاہ فاموں کے حقوق کے لئے تحریک شروع کی جو 1942 سے 1968 تک جاری رہی۔لوتھر کینگ کی تحریک کامیاب رہی اور اس تحریک کی وجہ سے سیاہ فاموں کو کئی قانونی جقوق ملے ۔1964 میں امریکہ نے آئین میں ترمیم کرکے سیاہ فاموں کو سفید فاموں کے مساوی قرار دیا،لیکن یہ صرف آئین تک محدود رہا ، امریکی معاشرے میں سیاہ فاموں کے خلاف نفرت اور امتیازی سلوک بدستور جاری رہا۔ سیاہ فاموں کے ایک رہنما مالم ایکس جو شہری حقوق کے لئے سرگرم عمل تھے انہیں 1965 میں قتل کردیا گیا۔مارتھین لوتھر بھی 1968 میں قتل کردئے گئے تاہم انہیں انسان دوستی پر مبنی خدمات کی بنیاد پر امن کا نوبل انعام دیا گیا۔تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاہ فام افریقی نسل سے تعلق رکھنے والے باراک اوبامہ 2008 میں صدر منتخب ہوئے لیکن وہ بھی امریکہ میں برسوں سے جاری نسلی عصبیت اور امتیاز کا کوئی خاتمہ نہیں کرسکے ۔ عالمی سیاست پر ان کی توجہ رہی ، امریکہ کے اندورنی مسائل میں وہ کوئی اصلاح نہیں کر پائے ۔

25 مئی 2020 کو امریکہ میں پولس کے ہاتھوں جارج فلائڈ کے قتل کا واقعہ سامنے آگیا ۔ منی پلس میں امریکن پولس نے جارج فلائڈکی گردن پر پاؤں رکھ کر نو منٹ تک دبائے رکھا ۔ اس دوران جارج نے کئی مرتبہ التجا کی کہ میری جان خطرے میں ہے ، چھوڑ دو مجھے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اور بالآخر اس کی موت ہوگئی ۔ اس واقعہ کے بعد پورے امریکہ میں سیاہ فام سڑکوں پر نکل گئے ہیں ، اس احتجاج میں امریکہ کے مسلمان، یہودی اور سفید فام شہری بھی ساتھ دے رہے ہیں ، یہ احتجاج ایسا طوفان بن گیا ہے کہ امریکی صدر کو اپنی جان بچانے کیلئے وہائٹ ہاؤس میں بنے خفیہ حفاظتی مکان بینکٹ ہال میں پناہ لینی پڑی ۔ امریکہ میں ابھی یہ احتجاج جاری تھا کہ 12جون کی شب میں ایک اور سیاہ فام افریقی نزاد امریکی شہری کا پولس کے ہاتھوں قتل ہوگیاہے ۔ امریکہ میں ہر سال 10 لاکھ سے زیادہ سیاہ فام افریقی نزاد شہریوں کو پولس کے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ امریکہ میں ملازمت کے کل 58 سیکٹر ہیں جن میں 19 سیکٹر ایسے ہیں جہاں سیاہ فاموں کو ملازمت نہیں مل پاتی ہے ، سیاہ فام شہریوں کی کل تعداد 12 فیصد ہ تاہم جیل میں ان کی تعداد 33 فیصد ہے ۔

 امریکہ میں جس طرح یہ نسلی امتیاز پایا جاتا ہے اسی طرح کا معاملہ بھارت کا بھی ہے ۔ یہاں نسلی امتیاز کی تاریخ امریکہ سے کئی ہزار سال پرانی ہے ۔ دستیاب تاریخ کے مطابق ڈھائی ہزار سال قبل اس خطے میں آریائی آئے تھے ، انہوں نے پورے بھارت پر اپنا کنٹرول کرلیا اور ایک نیا نظام متعارف کرایا ۔ بھارت کے عوام کو چار گروپ میں تقسیم کیا ، برہمن ، چھتری ویش اور شودر ۔ اس تقسیم کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ برہما بھگوان نے برہمن کو اپنے سر کے حصے سے پیدا کیاہے ، چھتری کی تخلیق سینے اور بازوؤں سے ہوئی ہے ، ویش کو پیٹ سے پیدا کیاگیاہے اور شودر کی تخلیق پاؤں سے ہوئی ہے ۔ چاروں کا کام بھی تقسیم کردیا ، برہمنوں کو پوجا ، مذہبی احکامات کی نگہ داشت او رقانون خدواندی کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی اور اسے گروپ کو دنیا کا روحانی پیشوا بھی بنایا گیا ، چھتریوں کو دنیا کا سیاسی اور سماجی نظام سونپا گیا، ملک کی سیاست او رحفاظت پر ان کو مامور کیا ، ویشوں کو کھیتی باری اور تجارت و حرفت کا کام سونپاگیا او رشودروں کو مذکورہ تینوں گروپ کا خادم اور نوکر قرار دیاگیا اور ہر ایک کام ان کے ذمہ سونپ دیا گیا ۔ ان کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یہ حقیر اور ذلیل ہیں ، بھگوان نے انہیں صرف اور صرف ہماری خدمت کیلئے پیدا کیا ہے ، یہ ہمارے برابر کے نہیں ہیں ۔ پھر ان سے جانورں کی طرح کام لیتے تھے ، ان کے جسم کو ناپاک سمجھتے ہوئے اس سے دوری بنانا فرض سمجھتے تھے ، کم ازکم چالیس قدم کے فاصلہ سے ان کے ساتھ بات کرتے تھے ، اپنی بستیوں سے ان کی بارات نہیں گزرنے دیتے تھے ، ان کی شادی ہونے کے بعد دلہن کیلئے ضروری ہوتا تھا کہ وہ کسی برہمن کے ساتھ پہلی رات گزارے ، اگر کوئی شودر ان کے کھانے یا پانی کے برتن کو ہاتھ لگادیتا تو اس کو بدترین سزا دیتے تھے ، علم حاصل کرنا ان کیلئے ممنوع قرار تھا ، شرافت ، عزت ، عظمت اور فخر کا کوئی بھی کام ،مشغلہ اور ہنر ان کیلئے حرام تھا ، منو اسمرتی میں یہ ساری باتیں لکھی ہوئی ہے اور اسی کو برہنمواد اپنا دستور مانتا ہے ۔ یہی شودر آج کی اصطلاحات میں او بی سی ، ایس سی اور ایس ٹی کہلاتے ہیں جنہیں ہم دلت بھی کہتے ہیں ۔ یہی ہندوستان کے اصلی اور حقیقی باشندے ہیں جن کی تعداد تقریباً 65 فیصد ہے ۔ بقیہ تینوں گروپ نے وسط ایشاء سے ہندوستان کا سفر کیا تھا ۔ جدید تحقیق میں بھی یہ بات اب ثابت ہوچکی ہے کہ ہندوستان میں جو طبقہ خود کو اپر کاسٹ کہلاتا ہے وہ ہندوستان کا اصلی باشندہ نہیں ہے ۔

 ان شودروں کو غلامی اور نسلی عصبیت سے معمولی آزادی اس وقت ملی جب یہاں مسلمانوں نے قدم رکھا ، مسلمانوں نے انہیں اپنے ساتھ بیٹھایا ، ساتھ کھانا کھلایا ، برابری کا درجہ دیا ۔ انہیں بھی انصاف ، مساوات ،آزادی او رتحفظ کا حقدار قرار دیا، مسلمانون کے اس اخلاق اورحسن سلوک نے انہیں بیحد متاثر کیا اور پھر انہوں نے اسلام قبول کرنا شروع کردیا ۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے صرف 7000 فوج کے ساتھ سندھ پر حملہ کیا تھا لیکن دوسرے تیسرے دن ہوکر ان کی فوج کی تعداد بیس ہزار سے زیادہ ہوگئی ، یہ اضافہ خلیفہ ولید بن عبد الملک کی بھیجی ہوئی فوج سے نہیں ہوا تھا بلکہ محمد بن قاسم کے حسن اخلاق کا کمال تھا ۔ شام کو جب جنگی کاروائی بند ہوجاتی تھی تو محمد بن قاسم دشمنوں کے خیمہ کا معائنہ کرنے جاتے تھے اور جو زخمی ہوتے تھے ان کا اپنے طبیبوں سے علاج کراتے تھے ، اس سلوک کی وجہ سے راجہ داہر کی فوج حلقہ بگوش اسلام ہوکر محمد بن قاسم کے ساتھ آجاتی تھی ۔ راجہ داہر کا کمانڈر برہم سنگھ بعد میں محمد بن قاسم کی فوج کے ایک دستہ کا سالار بن گیا تھا ۔

 مسلمانوں کے 800 سو سالہ دور حکومت میں دلتوں کو منو اسمرتی کے ظالمانہ نظام سے کسی حدتک نجات ملی ، لیکن اس کے باوجود ظلم وزیادتی اور انسانی کی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری رہا ، 1857 میں برٹش ایمپائر آنے کے بعد بھی شودروں پر زیادتی کے مسائل سامنے آئے ، انگریزوں نے بہت سارے مظالم سے نجات دلائی لیکن پھر بھی مکمل انسانی حقوق نہیں مل سکا ، 1947 میں بھارت کی آزادی کے بعد جب نیا دستور مرتب ہونا شروع ہوا تو وہاں دلتوں کے حقوق کی بحالی ، ان پر ہوئے مظالم کے خاتمہ اور پسماندگی دور کرنے کیلئے انہیں ریزرویشن کا حقدار ٹھہرایا گیا تاہم یہاں بھی ان کی مذہبی آزادی سلب کرلی گئی، آئین کی دفعہ 341 میں یہ وضاحت کردی گئی کہ دلت اگر کوئی مذہب قبول کریں گے تو اس مذہب میں جانے کے بعد انہیں ریزرویشن کی مراعات نہیں ملے گی ۔ آئین کی اس دفعہ نے دلتوں کی مذہبی آزادی بالکلیہ سلب کرلی، ریزویشن سے ملنے والی مراعات کو بچانے کیلئے دلتوں کے قبول اسلام کا سلسلہ بھی تھم گیا۔ آئین ہند کے دیباچے میں انصاف ، مساوات ، آزادی اور بھائی چارہ جیسے چار پریمبل شامل کرکے سبھی کو برابری کا درجہ دیاگیا۔ لیکن اب بھی ہندوستان میں دلت انسانی حقوق سے محروم ہیں ، ان کی معاشی ، تعلیمی ، سماجی صورت حال خستہ ہے ، جہاں برہمنوں اور دیگر اعلی ذات طبقے کا غلبہ ہے وہاں شودروں کے ساتھ وہی رویہ برتا جاتا ہے جو دو ہزار سال پہلے ہوتا تھا ۔

 نسل پرستی دنیا کا سب سے بدترین وائرس ہے جس کے خاتمہ کیلئے اسلام نے ہمیشہ اور ہر دور میں کوششیں کی ۔ اسلام نے غلامی کی لعنت ختم کرنے کیلئے کئی سارے گناہوں کا کفارہ غلام کی آزادی قرار دیا ، بلامبالغہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا کے پہلے شخص ہیں جہوں نے نسل پرستی کی شدید مخالفت کی اور عملی طور پر اس کا ثبوت پیش کیا ۔ افریقہ سے تعلق رکھنے والے حبشی غلام حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خرید کر آپ نے آزاد کرایا، پھر اپنا ساتھی بنالیا اور انہیں مؤذن کے منصب پر سرفراز کیا ۔ اسی طرح زید بن حارثہ کے بیٹے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو اسلامی فوج کا سپہ سالار اعلی بناکر محاذ جنگ پر روانہ کیا تاکہ یہ مسئلہ واضح ہوجائے کہ سبھی انسان برابر ہیں ، تمام بنی نوع انسان منصب ، تعلیم ، دولت ، عزت اور اکرام کے حقدار ہیں ۔ کسی کو کسی پر کوئی ترجیح اور فوقیت حاصل نہیں ہے ۔ قرآن کریم نے صاف لفظوں میں کہاہے ” ولقد کرمنا بنی آدم “ اور ہم نے بنی آدم کو مکرم بنایا ۔

 آج امریکہ جیسا ملک تعصب اور بدامنی کا شکار ہے ، ہندوستان میں یہ مرض بہت پرانا ہے ، دنیا کے بیشتر ملکوں کا یہی معاملہ ہے جہاں نسل ، علاقہ ، ذات ، مذہب اور دیگر بنیادوں پرایک دوسرے سے تعصب کیا جاتاہے ، یہی انتشار اور بدامنی کا سبب بنتا ہے ، اس کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے جب ہر ایک انسان کو قابل احترام سمجھا جائے گا اور تمام بنی نوع انسان کو انصاف ، آزادی ، مساوات اور تحفظ کا حقدار قرار دیا جائے گا ، یہ اسلام کا بنیادی نظریہ ہے ، دنیائے انسانیت کی ترقی اور کامیابی کیلئے اس کو اپنانا ضروری ہے ، پچھلے پچاس سالوں میں دنیا بھر کے ملکوں نے اپنے آئین میں قرآن کریم سے ماخوذ اس اصول کو تو شامل کیا ہے لیکن عملی طور پر ابھی بھی اس کا کوئی مظاہرہ نہیں ہورہا ہے ۔

(کالم نگار ملت ٹائمز کے بانی ایڈیٹر اور پریس کلب آف انڈیا کے جوائنٹ ڈائریکٹر ہیں )

stqasmi@gmail.com