قاسم سید
مرکزی حکومت نے 3طلاق اور تعدد ازدواج کی مخالفت کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں جو حلف نامہ داخل کیا ہے ، اس کے بارے میں کافی دنوں پہلے ہی خدشہ ظاہر کیا جاچکا تھا اور وہی ہوا۔ مرکز کے رویے سے یہ لگتا ہے کہ اس بار مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر تنظیموں کو اپنی لڑائی لڑنے کے لئے ذہنی طور سے تیار رہنا چاہیے۔ دوسری طرف لا کمیشن نے یکساں سول کوڈ اور 3طلاق پر لوگوں کی رائے مانگی ہے تاکہ ’سماجی ناانصافی‘ کو ختم کیا جاسکے۔بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اس معاملے پر بورڈ اور دیگر فریقوں کو اس معاملے میں ایک بار پھر عدالتی لڑائی میں ہار ہوگی، جیسا کہ ماضی میں ہوا ہے۔ یہ وقت جذبات اور اشتعال میں آنے کا نہیں، بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ قانونی لڑائی کو انجام تک پہنچانے کا ہے۔ کیونکہ یہ لڑائی عدلیہ میں ہی ہوگی، زبانی بیان بازی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ یہ بات مختلف قانونی اور آئینی امور کے ماہرین کی طرف سے کہی جارہی ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے جو حلف نامہ داخل کیا ہے اس میں کئی ایسی خامیاں ہیں جن کی بنیاد پر مقدمہ کا فیصلہ ہمارے خلاف جاسکتا ہے۔لکھنؤ سے ملی باوثوق خبر کے مطابق اکتوبر کے اوائل میں مسلمانوں کے کئی سرکردہ رہنمائوں اور مذہبی تنظیموں کے لیڈروں نے بورڈ کے صدر کو ایک خط لکھ کر کئی امور کی طرف ان کی توجہ مرکوز کی، ان کے مطابق سب سے اہم بات یہ ہے کہ بورڈ نے اپنے حلف نامہ میں کئی اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے لیکن طلاق اور نفقہ سے متعلق ملکی عدالتوں نے متعدد فیصلے دیے ہیں جن میں ان دلائل کا لحاظ نہیں رکھا، جو بورڈ نے پیش کیے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں کبھی بھی بورڈ کی جانب سے چیلنج نہیں کیا گیا۔ عدالت یہ کہہ سکتی ہے کہ اس سے قبل جب ان امور پر جن میں ایک مجلس کے 3طلاق ، طلاق سے تحکیم ، طلاق کے لئے دو گواہوں کی موجودگی، مطلقہ کا تاحیات نفقہ ، دفعہ 125کے تحت ، نفقہ مطلقہ قانون کے باوجود عدلیہ کے فیصلوں کو بورڈ نے چیلنج نہیں کیاتو اب جبکہ سپریم کورٹ انہیں فیصلوں کو سند جواز عطا کرنا چاہتا ہے تو ان باتوں کو کیوں اٹھایا جارہا ہے۔ اس کا کوئی معقول جواب ہمارے حلف میں نہیں دیا گیا۔ پورے حلف نامہ میں ایک مجلس کی 3طلاقوں کو حق بجانب اور جائز ٹھہرانے کیلئے متعدد تاریخی حوالے دیے گئے۔ لیکن اسلام نے خود طلاق کو کتنا دشوار بنایا ہے ، اس کا ذکر نہیں کیا۔
طلاق کو ناپسندیدہ ، حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہونے سے متعلق حدیث وغیرہ تو بیان کی گئی ہیں، لیکن طلاق سے پہلے تحکیم اور قرآنی طریقہ طلاق کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ حلف نامہ میں اس بات کا ذکر ہے کہ اگر کسی شخص نے 3یا اس سے زائد بار لفظ طلاق کا ذکر کیا ، لیکن ان کا منشا ایک طلاق دینے کا ہے تو صرف ایک طلاق ہی واقع ہوگی، لیکن حلف نامہ میں یہ بات بھی آسکتی تھی کہ اکثر لوگ شریعت کے طریقہ طلاق سے عدم واقفیت اور جہالت کی بنا پر تین طلاق دے دیتے ہیں، اس لئے اگر ان کا منشا ایک ہی طلاق دینے کا تھا تو ایسی صورت میں وہ ایک ہی طلاق ہوگی۔ وہیں ایک مجلس کی تین طلاق کو حق بجانب ٹھہرانے کے لئے چاروں مسالک اور ائمہ کا ذکر کیا گیا، لیکن اس سلسلے میں اہل حدیث مسلک اور جعفری مسلک کی رائے کا ذکر نہیں کیا گیا، ضرورت اس بات کی ہے کہ تین طلاق کے تعلق سے ملت میں جتنے مسالک پائے جاتے ہیں ان کا ذکر بھی حلف نامہ میں کیا جاتا۔ اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو جس مسلک سے وابستہ ہے وہ اپنے مسلک پر عمل کرے گا۔ کیونکہ بورڈ صرف ایک مسلک کے افراد کا پلیٹ فارم نہیں، بلکہ اس میں تمام مسالک کی نمائندگی ہے اور یہ مسلمانوں کے سب سے معتبر ، باوقار اور معزز ادارہ ہے۔ ذرائع کے مطابق مسلم پرسنل لا بورڈ کے کئی سینئر اراکین دو بڑی مذہبی جماعتوں کے لیڈر اور بورڈ کی مجلس عاملہ کے ارکان اور مسلمانوں کے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کی جانب سے بورڈ کے صدر محترم مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب کی خدمت میں گزشتہ دنوں ایک خط ارسال کیا گیاتھا، جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ بورڈ کے حلف نامہ میں قانونی ماہرین کی نظر میں کچھ پہلو کمزور ہیں، ان کو درست کیا جانا چاہئے ۔
سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ اب حالات بدل چکے ہیں، اس وقت سرکار ، میڈیا، ماحول ، نام نہاد سیکولر پارٹیاں کوئی بھی بورڈ کے موقف کا ساتھ دینے کے لئے بظاہر تیار نہیں ہوگا۔ میڈیا کے بڑھتے دائرے اور سوشل میڈیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جاری مہم کے ساتھ مسلم خواتین کی ’مظلومی‘ کا جس طرح ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا ہے ، ان حالات میں کوئی بھی تحریک چلانا مشکل ہوگا اور چلتی بھی ہے تو ٹکرائو ، تصادم کے خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ شاہ بانو کے وقت کے حالات کا موجودہ وقت سے کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی کے ساتھ خود مسلمانوں کی طرف سے کئی اداروں نے سائرہ بانو ودیگر کی پٹیشن کی حمایت اور بورڈ کی مخالفت میں سپریم جانے کا اعلان کیا۔ ان میں مسلم خواتین تنظیموں کے علاوہ مسلم خواتین پرسنل لا بورڈ اور شیعہ پرسنل لا بورڈ وغیرہ شامل ہیں۔ اس طرح مسلم پرسنل لا بورڈ کو چوطرفہ لڑائی کا چیلنج درپیش ہے۔ اگر اس موقع پر مسلم تنظیموں اور مذہبی اداروں نے مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا اور صرف بیان بازی پر ہی ساری طاقت جھونک دی تو اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ عدلیہ کا رویہ دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ فیصلہ 3طلاق کے خلاف ہی آئے گا۔ سوال ایک نشست میں 3طلاق کا نفاذ یا صرف 3طلاق کے نفاذ کا نہیں بلکہ مسلم پرسنل کے تحفظ کا ہے جس کی آئین میں گارنٹی دی گئی ہے اور حکومت اسی آئین کی دہائی دے کر یہ شرعی حقوق چھیننا چاہتی ہے۔ بورڈ کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی ہوگی کہ حلف نامہ میں اس بات کا تذکرہ تو ہے کہ اگر طلاق کو عدالت سے مشروط کردیا گیا یا اسے مشکل بنا دیا گیا تو کئی طرح کے مسائل پیدا ہوںگے۔ لیکن یہاں مسئلہ طلاق کو مشکل بنانے یا مشروط بنانے کا نہیں بلکہ یہاںایک مجلس کی 3طلاق زیر بحث ہے۔ حلف نامہ میں یونیفارم سول کوڈ کی بات ایک اضافی چیز ہے ، اس لیے کہ SUOMOTTO پٹیشن میں یونیفارم سول کوڈ موضوع نہیں بنایا گیا ہے۔ بہر اس وقت پوری قوم بورڈ کے پس پشت کھڑی ہوئی ہے اور اس کی اپیل پر ہر طرح کی جدوجہد کے لئے ذہنی طور پر تیار ہے۔ مگر ہمیں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوگا۔ بدقسمتی سے حکومت اسی آئین اور دستور کی دہائی دے رہی ہے ، جس کے تحفظ کے لئے بورڈ عرصہ دراز سے مہم چلا رہا ہے۔بہر حال بورڈ کے وکلاء نے حلف نامہ میں جو ریسرچ اور تحقیق کی ہے ، اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
(ملت ٹائمز)