قاسم سید
جس وقت دستور سازی کا عمل چل رہا تھا مسلم زعماء کو اطمینان دلایا گیا تھا کہ دستور ہند کے بنیادی حقوق کی متعدد دفعات کے ذریعہ مسلم پرسنل لاء کو محفوظ کردیا گیا ہے اور یہ آئین کے رہنما اصول سے زیادہ اہم اور مستحکم ہیں، لیکن دوررس نگاہیں محسوس کررہی تھیں کہ جہاں تک مسلمانوں کے عائلی قوانین اور نظام معاشرت کا تعلق ہے جو ان کے مذہب کا جزولاینفک ہے، دستور ہند کے اس تاروپود میں ایک آتش گیر مادہ رکھ دیا گیا ہے، جو کسی وقت بھی آگ پکڑسکتا ہے، بس اس کو ہوا دینے کی ضرورت ہے۔ وہ ان مذہبی و قانونی تحفظات کو جلاکر خاک کرسکتا ہے، جن کی آئین نے ضمانت دی ہے، چنانچہ بارہا دیکھا گیا اکہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے ساتھ مختلف وقتوں میں قانون ساز ادارے کے اندر اور باہر سے ایسی آوازیں بلند ہوتی رہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ ملک کے قانون سازوں اور ارباب اقتدار کے ذہن اس معاملہ پر صاف نہیں ہیں اور خاکستر کے نیچے کی یہ چنگاریاں شعلہ بن کر بھڑک سکتی ہیں۔ اس کی عموماً دو وجوہات نظر آتی ہیں: ایک مسلمانوں کے عائلی قوانین کی صحیح نوعیت اور اس کے ان کے مذہب سے تعلق، اس سلسلہ میں ان کے عقائد و جذبات اور نفسیات سے عدم واقفیت فکر و نظر کی سطحیت سے ہے، دوسرے ہندوتو کے ابھار، ہندو احیاپسندی کے جذبہ، سیاسی و انتخابی مصالح اور اکثریت کو خوش کرنے کا جذبہ، جو رہ رہ کر حکمرانوں کے ذہن و دل میں عود کرآتا ہے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، اس صورت کو پیدا کرنے اور برقرار رکھنے کا کریڈٹ بہرحال کانگریس کو جاتا ہے جس نے اپنی صفوں میں موجود طاقتور ہندو احیاپسند ذہنوں کے تالیف قلب اور روحانی تسکین کے لئے رہ رہ کر یکساں سول کوڈ کا شوشہ چھوڑنے کی حکمت عملی پر لگاتار عمل کرکے ملک کی اقلیتوں کے لئے مستقل عذاب کا سامان بنادیا اور ان کی غیرت ایمانی کو للکارتی رہی۔ مسلمانوں نے اپنی جدوجہد کے دوران ہر آن اس بات کا خیال رکھا کہ ہمارے کس اقدام کو غلط معنی پہناکر اکثریت کے ہندو انتہاپسند عناصر کو فرقہ وارانہ صورت حال کو مزید بگاڑنے کا موقع نہ مل سکے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سرکار جن موضوعات کو اختیاری یکساں سول کوڈ کے دائرے میں لانا چاہتی ہے ان سے متعلق اختیاری قوانین پہلے سے موجود ہیں، جن پر ہم نے اعتراض بھی نہیں کیا۔ اس ضمن میں شادی طلاق اور نفقہ کے اختیاری قوانین کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ترکہ تقسیم کا قانون ہے۔ اسپیشل میریج ایکٹ 1954 بھی ہے، جس کے تحت شادی کرنے کے لئے نہ مذہب کی قید ہے نہ ذات برادری کی۔ ملک کا کوئی بھی باشندہ حتیٰ کہ غیرممالک میں آباد ہندوستانی بھی شادی کرسکتے ہیں۔ یہ شادی مجسٹریٹ یا رجسٹرار کے یہاں کی جاتی ہے۔ اس میں قاضی یا پنڈت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیو اِن ریلیشن شپ کو قانونی تحفظ فراہم کردیا گیا اور ہم جنسی کو قانون کا جامہ دینے کا عمل جاری ہے۔ یہ سارے اقدامات یکساں سول کوڈ کو اختیاری بنانے کے لئے ہی بڑی عیاری کے ساتھ کئے گئے جو راست شریعت سے متصادم ہیں، یہاں تک کہ شاہ بانو کیس کے بعد چلائی گئی مہم کے نتیجہ میں مطلقہ نقطہ ترمیمی ایکٹ میں بھی اس بات کی گنجائش رکھ دی گئی کہ فریقین چاہیں تو وہ سول قوانین کے تحت مقدمہ کا تصفیہ کراسکتے ہیں۔ بہرحال اس امر کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ معزز قانون ساز باڈی یعنی پارلیمنٹ نے آئین کے نفاذ کے چند سال بعد ہی آئین کے رہنما اصول یعنی دفعہ 44 میں مطلوب و مقصود یکساں سول کوڈ کی طرف قدم بڑھادیا تھا۔ اور اس کا پہلا مرحلہ اختیاری تھا۔ یقیناً ہماری مذہبی قیادت کی اس پہلو پر ضرور نظر ہوگی۔
اب پھر یہی سوال منھ پھاڑے کھڑا ہے۔ سائرہ بانو مسلم پرسنل لاء کے لئے شاہ بانو سے زیادہ بڑا چیلنج بن گئی ہے اور یہ ایٹم بم لگاتار ٹک ٹک کررہا ہے۔ پہلی بات یہ کہ سرکار نے ازخود قدم نہیں بڑھایا بلکہ سائرہ بانو اور کئی دوسری مطلقہ خواتین نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دوسرے لاء کمیشن نے شرارت پر مبنی سوالنامہ شہریوں کے سامنے رکھ دیا۔ دونوں معاملے الگ ہیں، سائرہ بانو نے طلاق ثلاثہ کے ساتھ تعدد ازدواج اور نکاح حلالہ پر بھی سوالیہ نشان لگایا ہے، جس کا جواب بورڈ نے عدالت عظمیٰ میں داخل کیا ہے۔ اس پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ شریعت میں مداخلت کا حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا، جو قانون اللہ کا عطاکردہ ہے اس میں ترمیم یا تنسیخ کا تصور بھی گناہ ہے۔ فلسفہ مذاہب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مذہب کو اس کے مخصوص نظام معاشرت و تہذیب سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں میں فطری تعلق ہے کہ معاشرت مذہب کے بغیر اور مذہب معاشرت کے بغیر موثر و محفوظ نہیں رہ سکتے، اس لئے اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ ہمارے اوپر کوئی دوسرا نظام معاشرت، نظام تمدن اور عائلی قوانین کو مسلط کردیا جائے۔ جمہوریت کی بقا اپنے حقوق کے تحفظ، اظہار خیال کی آزادی اور ہر فرقہ و اقلیت کے سکون سے مشروط ہے۔
جہاں تک طلاق ثلاثہ، تعدد ازدواج اور نکاح حلالہ کا تعلق ہے، سپریم کورٹ میں معاملہ زیر بحث ہے۔ یہ ایک طویل عمل ہے، موجودہ حالات سے لگتا ہے کہ سرکار نے اسے ٹھنڈے بستہ میں ڈال دیا ہے اور سپریم کورٹ نے 19 سال پرانے ہندوتو معاملہ پر ازسرنو سماعت شروع کردی ہے۔ عدالتی مراحل صبرآزما ہوتے ہیں۔ فریقین کو سنا جاتا ہے، شواہد و دلائل پر بحث ہوتی ہے۔ عدالت معاملہ کے ہر پہلو کا جائزہ لیتی ہے اور پھر اپنا فیصلہ سناتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ موقف کو آئینی و قانونی دلائل کے ساتھ رکھا جائے۔ اگر ہمارا موقف فریق مخالف کے مقابلہ کمزور ہوگا یا وکلا مطلوبہ انداز میں بحث کرنے میں ناکام رہیں گے تو حق پر ہونے کے باوجود ناکامی ہاتھ لگے گی۔ اسے پرشور نعروں، دھمکیوں اور مطالبوں سے اپنے حق میں نہیں موڑا جاسکتا۔ جیسا کہ شاہ بانو کیس میں مقدمہ ہار گئے، بابری مسجد ملکیت کیس میں نتیجہ ہمارے موافق نہیں آسکا۔ یہ سب خواہشات اور آرزوئوں کی بنیاد پر نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک طلاق ثلاثہ کا معاملہ ہے اس پر علما و فقہا کو ہی اختیار ہے، ہمہ و شمہ کو رائے دینے کی حماقتوں سے گریز کرنا چاہئے۔ بورڈ کا موقف ہے کہ طلاق ثلاثہ ایک نشست میں نافذ ہوجاتی ہے، گرچہ بعض مسالک جیسے اہل حدیث، اہل تشیع و بوہرہ وغیرہ کو اس سے اختلاف ہے، مگر بورڈ بھی یہ مانتا ہے کہ یہ اسلام کی روح کے خلاف ہے جو اس طرح طلاق دیتا ہے وہ گنہگار ہے، لیکن طلاق ہر حال میں نافذ ہوجاتی ہے۔ ہم بیداری مہم چلارہے ہیں، ماڈل نکاح نامہ اس کی ایک شکل ہے۔ یہ درست ہے کہ قرآن نے مرحلہ وار طلاق کا ضابطہ بنایا ہے اور مسلمان اس پر عمل کرنے میں ناکام ہیں، اس لئے حالات کا تقاضہ ہے کہ عدالت یا حکومت کو دخل اندازی کا موقع دیے بغیر اس معاملہ کو خود حل کیا جائے۔ جس کام کو خود اللہ اور اس کے رسول نے ناپسندیدہ ترین کی فہرست میں رکھا ہو، اسے کھیل سمجھنے والوں کے لئے سزا کا کوئی ضابطہ ہو جو دارالقضا کے ذریعہ نافذ کی جائے۔ جیسا کہ حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی المعروف علی میاںؒ نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبئی اجلاس میں احتسابی انداز میں کہا کہ عہد کیجئے کہ آپ اسلامی طریقہ پر شریفانہ انسانی طریقہ پر شادی کا پیام دیں گے، آپ لڑکی مانگیں گے، اپنے لئے رفیقہ حیات تلاش کریں گے، جہیز کے لئے بڑھے چڑھے مطالبات نہیں کریں گے۔ ایسا ہی ترکہ شرعی طریقہ پر تقسیم ہونا چاہئے۔ نکاح شرعی طریقہ پر ہونا چاہئے، طلاق کا مسنون طریقہ معلوم کرنا چاہئے۔ مسنون اور افضل طریقہ کیا ہے، پھر اس کے بعد فقہی طلاق جس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، اس کو سمجھنا چاہئے کہ طلاق رجعی کیا ہوتی ہے۔ طلاق بائن و مغلظہ کیا ہوتی ہے؟ پھر اس میں طلاق کو آپ یہ سمجھیں کہ طلاق ابغض المباحات ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جائز ہے، آخری درجہ کی چیز ہے، بڑی مجبوری کی چیز ہے جو حرام چیزوں سے اور زندگی کو تلخ بننے سے بچانے کے لئے بہت مجبوری سے دل پر پتھر رکھ کر اختیار کی جاتی ہے۔ یہ نہیں کہ طلاق ایک فیشن ہوگیا، جو لوگ ہم کو یہ طعنہ دیتے ہیں اس میں تھوڑی سی ہماری کوتاہی کو بھی دخل ہے۔
جب ہم اہل حکومت اور برادران وطن سے شکایت کرتے ہیں تو ہمیں آپ سے شکایت کرنے کا حق کیوں نہ ہو۔ آپ کا گریبان پکڑیں گے اور وہ ہاتھ ہمارا نہیں شریعت کا ہوگا، جو آپ کا گریبان پکڑکر رہے گا کہ پہلے تم اپنے گریبان میں منھ ڈال کر دیکھو کہ تم اس قانون پر کتنا چلتے ہو، تمہاری نگاہوں میں اس قانون کی کتنی حرمت ہے، تم جہاں اس قانون کو چلاسکتے ہو چلا رہے ہو کہ نہیں، تم اپنے گھروں میں نہ چلائو اور حکومت سے مطالبہ کرے کہ وہ تمہارے قانون کو چلائے اس کا احترام کرے۔‘‘ یہ آب زر سے لکھی جانے والی رہنما ہدایات ہیں۔ اگر ان پر صدق دلی سے عمل کیا جائے تو کوئی شاہ بانو یا سائرہ بانو پیدا نہ ہو، ہمیں دوسروں پر انگلی اٹھانے کے ساتھ اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے اور ذاتی احتساب کرنا چاہئے، جیسا کہ حضرت مولانا علی میاں ندوی نے فرمایا تھا۔(ملت ٹائمز)
مضمون نگار روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹرہیں)
qasimsyed2008@gmail.com