متحدہ عرب امارات اور اسرائیل معاہدہ، صہیونی مملکت کی شاندار کامیابی

پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی 

 سعودی عرب کی سرزمین سے پہلی مرتبہ 23 مئی 2017 کو اسرائیل کی جانب ایک پرواز نے رخت سفر باندھا ۔اس فلائٹ میں امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ تھے ۔ مئی 2017 میں سعودی عرب کا سہ روزہ سفر مکمل کرنے کے بعد انہوں نے وہیں سے اسرائیل کا دورہ کیا ۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ریاض سے تل ابیب تک کسی نے سفر کیا ۔ یہ سفر اسرائیل کیلئے نیک فال ثابت ہوا ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیجئے عرب ممالک نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے پر اپنی آمادگی ظاہر کردی ۔ 2018 میں امریکہ نے مشرقی یروشلم کو اسرائیل کی مستقل راجدھانی تسلیم کرلی ۔ اپنا سفارت خانہ بھی وہاں کھول ۔ فلسطین اور عرب کے خلاف امریکہ کا یہ بہت بڑا اور خطرناک قدم تھا لیکن عرب ممالک نے اس پر خاموشی اختیار کی اور اب امریکہ نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ کرادیا ہے ۔ اس معاہدہ کا سب سے واضح مطلب یہ ہے کہ عرب ممالک نے اسرائیل کے وجود کو بطور ایک ملک کے تسلیم کرلیا ہے اور فلسطین پر قبضہ کا دعویٰ واپس لے لیا ہے ۔ متحدہ عرب امارات کے بعد سعودی عرب اور دیگر ممالک بھی یقینی طور پر اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات ہموار کرلیں گے ۔ اس کا خمیازہ بھگتیں گے، فلسطین کے مسلمان جن کیلئے زمین اب مزید تنگ ہوجائے گی ۔ پریشانیاں مستقل ان کا مقدر بن جائیں گی اور مسجد اقصی کی آزادی کی کوششیں بھی سرد پڑے جائیں گی ۔ آئیے پہلے جانتے ہیں اسرائیل کے قیام کی تاریخ :

اسرائیل شام ۔ اردن۔ مصر ۔لبنان اور فلسطین کے بیچ میں ایک یہودی ملک ہے ۔ اسرائیل کے نارتھ میں لبنان ہے ۔ نارتھ ایسٹ میں ملک شام ہے ۔ ایسٹ میں اردن ہے ۔ ایسٹ اور ساﺅتھ ایسٹ میں فلسطین کا بچا کچھا علاقہ ہے اور ساتھ میں مصر اور بحر احمر ہے ۔ اس ملک کا کل رقبہ 20,770 کیلو میٹر ہے ۔ اسرائیل کی کل آبادی 9237410 ہے۔ ان میں سے76 لاکھ سے زیادہ افراد یہودی ہیں۔ اسرائیل کا دوسرا بڑا نسلی گروہ عرب ہیں جن کی آبادی 1686000 افراد پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ مسیحی اور افریقی ممالک سے آنے والے پناہ گزین اور دیگر مذاہب کے افراد بھی یہاں رہتے ہیں۔

اسرائیل جس خطے اور علاقے کا نام ہے وہ کبھی فلسطین تھا ۔ 1948 سے پہلے یہ پورا علاقہ مسلمانوں کا تھا اور اسرائیل نام کے کسی ملک کا کوئی وجود نہیں تھا ۔ برسوں سے یہودی چاہتے تھے کہ وہ اپنا ایک علاحدہ ملک بنائیں لیکن کامیاب نہیں ہورہے تھے ۔ پندرہویں صدی میں جب اندلس سے عیسائیوں نے یہودیوں کو نکال دیا تو انہیں خلافت عثمانیہ نے اپنے یہاں پناہ دی ۔ یورپین ممالک فرانس ، برطانیہ ، جرمنی میں بھی یہودیوں کو ہمیشہ ستایا گیا اور ان کی مدد خلافت عثمانیہ کے ذریعہ ہوتی رہی ۔ انیسویں صدی میں یہودیوں نے ایک تنظیم قائم کی عالمی صہیونی کانگریس اور اس کا بنیادی مشن بنایا ۔ اسرائیل نام کا ایک ملک قائم کرنا ۔ اس ملک کیلئے انہوں نے فلسطین کا انتخاب کیا اوریہ منصوبہ بنایا کہ اسی فلسطین پر قبضہ کرکے ہم اسرائیل بنائیں گے ۔ یہاں سے تمام مسلمانوں کو نکال دیں گے اور دنیا بھر کے یہودیوں کو یہاں آکر آباد کریں گے ۔ انیسویں صدی کے اخیر میں یہودیوں نے کھل کر اپنے اس منصوبہ سے متعلق بات چیت کرنا شرو ع کردیا ۔ ملکہ برطانیہ ۔امریکہ اور فرانس کی بھی عالمی صہیونی کانگریس کو حمایت مل گئی ۔ ان سبھی نے فلسطین پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا نا شروع کیا تاکہ وہاں اسرائیل قائم ہوسکے ۔ یہودیوں نے فلسطین میں زمینوں کی خریداری بھی شروع کردی ۔ اسرائیل بنانے کی یہ سازش جن دنوں ہورہی تھی اس وقت خلافت عثمانیہ کی باگ دور سلطان عبد الحمید کے ہاتھوں میں تھی ۔ انہیں یہودیوں کے اس منصوبہ کا علم ہوگیا ۔ سلطان کے جاسوسوں نے یہ بھی بتادیا کہ کچھ عرب مسلمان یہودیوں کے ہاتھوں فلسطین میں زمین فروخت کررہے ہیں ۔ خلیفہ عبد الحمید نے فوری قدم اٹھاتے ہوئے فلسطین میں زمین کی خریدو فروخت پر پابندی عائد کردی ۔ جو زمینیں بیچی جاچکی تھی ان سبھی کو منسوخ قرار دے دیا ۔ اس واقعہ کے بعد یہودیوں اور دیگر عالمی طاقتوں نے خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ سلطان عبد الحمید کے قتل کی سازشیں رچی گئی لیکن کسی میں اس وقت تک کامیابی نہیں ملی ۔ 1898 کی کی دہائی میں صہیونی عالمی کانگریس کے سربراہ تھیوڈ ہرزل نے خلیفہ سلطان عبد الحمید کے ساتھ ملاقات کی ۔ کافی تگ اور کوششوں کے بعد خلیفہ تک اسے جانے کا موقع ملا ۔ سلطان کے سامنے تھیوڈ ہرزل نے کہاکہ یہودی پوری دنیا میں پریشان ہیں ۔فرانس ۔ جرمنی ۔ برطانیہ ہر جگہ انہیں مصائب کا سامناہے ۔ صرف عثمانی سلطنت میں وہ خوشحال ہیں اور اچھی زندگی گزار رہے ہیں ۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ان کیلئے فلسطین میں کچھ زمینیں آپ دے دیں۔ اس کے بدلے میں ہم عثمانی سلطنت کا پورا قرض یورپ کو ادا کریں گے ۔ سلطان نے تھیوڈ ہرزل سے کہا جس حقیقت کا اعتراف آپ ہمارے سامنے کررہے ہیں اسے اپنے اخبار میں کیوں نہیں لکھتے ہیں ۔ اخبار میں تو آپ یہ چھاپتے ہیں کہ یہودیوں پر سب سے زیادہ ظلم عثمانی سلطنت میں ہی ہورہا ہے ۔تھیوڈ ہرزل کے سامنے گرجتے ہوئے سلطان نے کہا میں کبھی بھی فلسطین کا ایک انچ نہیں بیچوں گا ۔ یہ آبائی شہر میرا نہیں میری قوم کا ہے ۔میری قوم اور امت مسلمہ اپنے خون سے اس سرزمین کو سیراب کی ہے ۔ ہم سے اگر کوئی چھیننا چاہے تو ہم دوبارہ خون دیں گے ۔ سلطنت میری نہیں میرے لوگوں کی ہے ۔ میں اس کا چھوٹا سا حصہ بھی نہیں دے سکتا ہوں ۔ آپ صرف ہماری لاشوں پر چل کر ہی اس ملک کو الگ کرسکتے ہیں ۔ جب تک میں زندہ ہوں اس کام کی اجازت نہیں دوں گا ۔ میں یروشلم پر صہیونی حکومت قائم کرنے کی اجازت نہیں دوں گا ۔ 

سلطان عبد الحمید نے یہودیوں اور عالمی طاقتوں کی تمام سازشوں کو ناکام بنادیا اور فلسطین میں ایک انچ بھی زمین نہیں دی ۔ یہودیوں کے اس منصوبہ کو پورا کرنے کیلئے عالمی طاقتوں نے 1916 میں پہلی عالمی جنگ چھیڑ دی ۔ اس جنگ کے شروع میں خلافت عثمانیہ کو جیت ملی لیکن بعد میں شکست ملنی شروع ہوگئی ۔ سلطنت عثمانیہ مختلف ٹکروں میں بٹ گئی ۔ فلسطین پر بھی برطانیہ نے قبضہ کرلیا ۔ 1923 میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا ۔ اس واقعہ کے بعد یہودیوں نے آکر زمین خرید نا شروع کردیا ۔ چند سالوں میں تقریباً دس لاکھ یہودی فرانس ، برطانیہ ، جرمنی ،عرب اور دیگر ملکوں سے یہاں آکر بس گئے ۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہودیوں نے برطانیہ کے خلاف احتجاج شروع کردیا اور مطالبہ کیا کہ اسرائیل نام سے ایک مستقل ملک کا اعلان کیا جائے ۔ پورے خطے میں عرب مسلمان اور یہودیوں کے درمیان تنازع بھی مسلسل بڑھ چکا تھا ۔ 15 مئی 1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کے لیے ایک نئی کمیٹی بنائی۔ 3 ستمبر 1947 کو اس کمیٹی نے رپورٹ پیش کی کہ برطانوی انخلا کے بعد اس جگہ ایک یہودی اور ایک عرب ریاست کے ساتھ ساتھ یروشلم کے شہر کو الگ الگ کر دیا جائے۔ یروشلم کو بین الاقوامی نگرانی میں رکھا جائے گا۔ 29 نومبر 1947 کو جنرل اسمبلی نے اس بارے میں قرار دار منظور کی۔ یہودیوں کی نمائندہ تنظیم جیوش ایجنسی نے اس منصوبے کو قبول کر لیا لیکن عرب لیگ اور فلسطین کی عرب ہائیر کمیٹی نے اسے مسترد کر دیا۔ یکم دسمبر 1947 کو عرب ہائی کمیٹی نے تین روزہ ہڑتال کا اعلان کیا اور عربوں نے یہودیوں پر حملے شروع کر دیے۔ ابتدا میں خانہ جنگی کی وجہ سے یہودیوں نے مدافعت کی لیکن پھر وہ بھی حملہ آور ہو گئے اور فلسطینی عرب معیشت تباہ ہو گئی ۔ اڑھائی لاکھ فلسطینی عرب کو وہاں سے نکال دیا گیا۔

14 مئی 1948 کو برطانوی اقتدار کے ختم ہونے سے ایک دن قبل جیوش ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان نے مملکت اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا۔ اور 15 مئی 1948 کو باضابطہ اسرائیل نام کاایک ملک بن گیا ۔

اگلے دن چار عرب ملک، مصر، شام، اردن اور عراق کی افواج فلسطین میں داخل ہو گئیں اور 1948 کی عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی۔ ایک سال کی جنگ کے بعد جنگ بندی ہوئی اور موجود ویسٹ بینک اور جنوبی یروشلم پر اردن نے قبضہ کر لیا جبکہ مصر کے قبضے میں غزہ کی پٹی آئی۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق اسرائیل سے مزید 7 لاکھ فلسطینیوں کو نکال دیا گیا۔ ان کے گھر ۔ ان کی زمین اور دولت پر یہودیوں نے قبضہ کرلیا ۔

11 مئی 1949 کو اقوام متحدہ میں اکثریتی رائے سے اسرائیل کو رکن منتخب کر لیا گیا۔ جبکہ فلسطین کو رکن تسلیم نہیں کیاگیا ۔اگلے دس برسوں میں اسرائیل کی آبادی دس لاکھ سے بڑھ کر بیس لاکھ ہو گئی۔ 

1967 میں سرائیل نے چھ روزہ جنگ کا آغاز کرتے ہوئے مصرکے فوجی اڈہ پر تباہ کن حملہ کردیا ۔ اسرائیل نے جب حملہ کیا اس وقت مصر کی ستر ہزار فوجیں یمن میں ایک محاذ پر سرگرم تھیں ۔ جمال عبد الناصر کو عرب قوم پرستوں نے اپنا رہنما منتخب کر رکھا تھا لیکن وہ اسرائیل کی طرف سے بے خبر تھے۔ اس جنگ میں اسرائیلی فضائیہ نے عرب مخالفین مصر، اردن، شام اور عراق پر اپنی برتری ثابت کر دی۔ اورعربوں کی بدترین شکست ہوئی ۔ اس جنگ میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی، ویسٹ بینک، جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ یروشلم کی حدود کو بڑھا دیا گیا اور مشرقی یروشلم بھی اسرائیل کے قبضے میں آ گیا۔

خلافت عثمانیہ کے خاتمہ اور اسرائیل کے قیام میں عرب کے کئی مشہور خاندانوں نے بھی ساتھ دیا ۔ جن میں سعود خاندان اور شریف خاندان کا نام سر فہرست آتا ہے ۔ اسرائیل ایک فلسطین پر قبضہ کرکے بنایا گیا تھا اس لئے مسلم ملکوں نے اسے قبول نہیں کیا ۔ شروع سے یہ مطالبہ رہا کہ اسرائیل نام کی کوئی ریاست یہاں نہیں ہونی چاہیئے ۔ عرب ممالک نے طویل عرصہ تک متحد ہوکر اسرائیل کی مخالفت کی ۔ اس مہم کو کامیاب بنانے کیلئے عرب لیگ کا قیام عمل میں آیا ۔ اسلامی تعاون تنظیم کی تشکیل میں پھی فلسطین کا مسئلہ شام تھا لیکن رفتہ رفتہ اسرائیل دشمنی کم پڑتی گئی اور اس میں کلیدی کردار امریکہ نے ادا کیا ۔ ترکی نے 1949 میں ہی اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور وہاں اپنا سفارت خانہ قائم کردیا ۔ اس وقت ترکی میں سیکولر اور مذہب بیزار حکومت تھی ۔ رجب طیب اردگان کے صدر بننے کے بعد اسرائیل کے ساتھ ترکی کے تعلقات بہت تلخ اور کشید ہ ہیں ۔ ایران نے بھی شروع میں تسلیم کرلیا تھا لیکن انقلاب کے بعد ایران نے مکمل طور پر سفارتی تعلقات کا خاتمہ کرلیا ۔ ہندوستان نے 1992 میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلق قائم کیا ۔ اس سے پہلے عرب ملکوں کے دباؤ کی وجہ سے چاہ کر بھی ہندوستان اسرائیل سے تعلق قائم نہیں کرسکا تھا ۔

13 اگست 2020 کی رات میں یہ خبر آئی کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے امن معاہدہ کیا ہے ۔ خبر کی سرخیوں میں یہ بھی شامل تھاکہ یہ معاہدہ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ثالثی میں ہوا ہے ۔ 

معاہدہ کی جو تفصیلات سامنے آئی ہے اس کے مطابق اسرائیل مقبوضہ غرب اردن کے مزید علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبے کو معطل کر دے گااور ویسٹ بینک کو وہ اپنا حصہ نہیں بنائے گا ۔

آنے والے ہفتوں میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے وفود آپس میں ملاقات کر کے سرمایہ کاری، سیاحت، براہِ راست پروازوں، سلامتی، مواصلات، ٹیکنالوجی، توانائی، صحت، ثقافت، ماحولیات، سفارت خانوں کے قیام، اور باہمی فائدے کے دیگر معاملات پر دو طرفہ معاہدوں پر دستخط کریں گے۔

جمعرات کو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو اور ابو ظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید نے ایک مشترکہ بیان میں اس امید کا اظہار کیا تھا کہ یہ تاریخی پیش رفت مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام میں مدد دے گی۔

اس معاہدہ کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ اسرائیل اب عر ب امارات میں اپنا سفارت خانہ قائم کرے گا اور تل ابیب میں بھی عرب امارات کا سفارت خانہ شروع ہوجائے گا ۔ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان اس معاہدہ میں امریکہ کے ساتھ یقینی طور پر سعودی عرب بھی شامل ہے اور یہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ آئندہ برسوں میں سعود ی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ علانیہ تعلقات شروع کردے گا ۔

ترکی نے متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کو منافقانہ طرز عمل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تاریخ اور خطے کے لوگ اس معاہدے کو کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے۔

ترکی کا کہنا ہے کہ تاریخ اور خطے کے لوگ اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر متحدہ عرب امارات کے ‘ منافقانہ طرز عمل’ کو کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے کیونکہ ترکی کے مطابق یو اے ای نے یہ فیصلہ اپنے مفادات کے لیے کیا ہے۔اس تحریری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس معاہدے کے خلاف ‘فلسطینی عوام اور انتظامیہ کا سخت ردعمل جائز ہے۔’یہ بہت پریشان کن بات ہے، متحدہ عرب امارات کو عرب لیگ کی جانب سے تیار کردہ عرب امن منصوبے کے ساتھ چلنا چاہیے تھا۔ یہ بات درست نہیں ہے کہ اس تین طرفہ اعلان کو فلسطینی عوام کے لیے فائدہ مند قرار دیا جا رہا ہے۔

فلسطین میں شدید احتجاج ہورہا ہے ۔ فلسطینیوں کا کہناہے کہ عرب امارات نے ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ۔فلسطینی صدر محمود عباس کے ایک ترجمان نے کہا کہ یہ معاہدہ ’غداری‘ ہے، جبکہ متحدہ عرب امارات فلسطین سے اپنا سفیر بھی واپس بلوا رہا ہے۔

اس امن معاہدہ سے اسرائیل بہت خوش ہے اور یقینی طور پر یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہے ۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات کا اس میں کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا ہے ۔ ایک اور اہم بات یہ کہ اسرائیل نے ابھی سے معاہدہ کی خلاف وزری شروع کردی ہے ۔ معاہد ہ میں یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل ویسٹ بینک کو اپنا حصہ نہیں بنائے گا ۔ یو اے ای اسی کو بنیاد بناکر اسے اپنا بہتر قدم قرار دے رہاہے۔متحدہ عرب امارات کے وزیرِ خارجہ انور قرقاش کا کہناہے کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنا ’ایک بہت جراتمندانہ اقدام تھا‘ تاکہ اسرائیل کی جانب سے غرب اردن کے انضمام کے ’ٹائم بم‘ کو روکا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات اسے ’انضمام کی معطلی کے بجائے اس کا ر±ک جانا تصور کرتا ہے۔‘

 لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہونے ایک پریس کانفرنس میں یہ واضح کردیا ہے کہ امارات کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے اعلان میں ویسٹ بینک پر اسرائیلی خود مختاری کا اعلان واپس لینے کی کوئی شرط نہیں۔ ویسٹ کے علاقوں پر اسرائیل کی خود مختاری کے قیام کے اعلان پر قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امارات کی طرف سے یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ غرب اردن کے علاقوں پر اسرائیلی خود مختاری کا فیصلہ واپس لیا جائے تاہم امارات کی اس تجویز کو قبول نہیں کیا گیا۔ غرب اردن کے اسرائیل سے الحاق کے اعلان پر حکومت قائم ہے اور یہ اقدام حکومت کے اولین ترجیح میں شامل ایجنڈے کا حصہ ہے۔نیتن یاھو نے کہا کہ میں غرب اردن کو اسرائیل کا حصہ بنانے اعلان پر قائم ہوں۔

ویسٹ بینک فلسطین کی قدیم آبادی والا علاقہ ہے جہاں تقریبا بیس لاکھ آبادی مسلمانوں کی ہے اور پانچ لاکھ آبادی یہودیوں کی ہے ۔ یہودی کی آباد ی ابھی کچھ سالوں میں ہوئی ہے ۔ پانچ سو کیلو میٹر کے رقبہ پر یہ پورا علاقہ مشتمل ہے اور فلسطینیوں کی آخر ی جائے پناہ بھی ہے ۔ اگر اسے بھی اسرائیل نے ملک کا حصہ بنادیا تو عرب مسلمانوں کی پریشانیا ں کئی گنا زیادہ بڑھ جائے گی ۔

(مضمون نگار پریس کلب آف انڈیا کے جوائنٹ ڈائریکٹر اور ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)

stqasmi@gmail.com