مونگیر: (پریس ریلیز) امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھار کھنڈ کے امیر شریعت سابع،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری و خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں جو کارِ زریں انجام دیے ہیں ان میں سے ایک جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر بہار کے قدیم و مؤقر استاذ الاساتذہ اور ان کے خاص شاگرد اور معتمد حضرت مولانا عبد السبحان صاحب رحمانی مدظلہ کے خطاب کا مجموعہ ”خطبات سبحانی“ کی دوسری جلد کی نکات کا باریک بینی سے مشاہدہ، کتاب کے مشمولات کا تعین، اس پر اپنی ذاتی رائے اور قیمتی مشورے سے نوازنا شامل ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اس جلد کی اہمیت نہ صرف مزید بڑھ جاتی ہے بلکہ اس جلد کے تاخیر سے طبع و اشاعت کی اہم وجہ بھی یہی ہے کہ ان کے ہر نکتے اور ان کے ہر اشارے پر حرف حرف عمل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔صاحب تذکرہ حضرت مولانا عبد السبحان صاحب رحمانی کو اللہ پاک نے گوناگوں صلاحیتوں سے نوازا ہے، آپ جامعہ رحمانی میں استاذ حدیث کے ساتھ قومی سطح پر کہنہ مشق اور بے باک خطیب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، بلکہ کہناچاہئے کہ آپ اس میدان میں اب ٹرینر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کی خطیبانہ صلاحیتوں کا راز یہ بھی ہے کہ اس وصف کو صرف اپنی ذات تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے ہزاروں شاگردوں کو اس میدان کارزار کا غازی بنادیا۔ آج مولانا عبد السبحان صاحب رحمانی ہندوستان کے چند ان ممتاز خطیبوں میں سر فہرست ہیں جن کے خطبات کو لوگ عقیدت کی کانوں سے سنتے اور لعل و گہر سے زیادہ قیمتی سمجھ کر اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں۔مذکورہ باتوں کا اظہار کتاب کے مرتبین مولانا عبید اختر رحمانی و فضل رحماں رحمانی نے ”خطبات سبحانی“ جلد دوم کے منظر عام پر آنے سے قبل ایک پریس بیان جاری کرتے ہوئے کیا۔مرتبین نے اس تعلق سے مزید کہا کہ مولانا عبد السبحان صاحب رحمانی کے خطاب کا اپنا ایک الگ ہی رنگ و آہنگ ہے۔ درس و تدریس اور عام بول چال سے لے کر تقریر و تحریر تک گویہ کہ بیک وقت کئی شعبوں میں دسترس رکھنا اور اسے لوگوں کو ذہن نشیں کرا دینا یقیناً آپ کا ہی خاصہ ہے۔مولانا موصوف کی تقریر کا آغاز بہت طویل عربی خطبے سے نہیں ہوتا، بلکہ وہ ہمیشہ قرآن کریم کی آیت یا حدیث پاک کے کسی حصے اور مختصر خطبے سے اپنی تقریر شروع کرتے ہیں۔ دوران خطاب زیادہ تر اردو اشعار زبان زد ہوتے ہیں، مگر فنی مہارت کہہ لیجئے کہ جو شعر جس جگہ بھی وہ کہہ دیتے ہیں، سننے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ شاید شاعر نے شعر کی تخلیق اسی موقع کے لئے کی تھی۔واضح رہے کہ سنہ 2018 ء میں حضرت مولانا عبد السبحان رحمانی کے خطبات کا پہلا مجموعہ ”خطبات سبحانی“ منظر عام پر آکر مقبول عام ہوچکا ہے۔ مدارس کے طلباء و ائمہ حضرات نے اس کتاب سے بڑا فائدہ اٹھایا ہے۔ چند دنوں میں پہلا ایڈیشن ختم ہونے کے بعد اور احباب و محبیین کی طرف سے پیہم تقاضوں کے بعد مولانا موصوف کے خطبات کا دوسرا مجموعہ ”خطبات سبحانی“ جلد دوم دیدہ زیب سرورق، منفرد انداز اور معیاری کاغذ و طباعت کے ساتھ عنقریب منظر عام پر آرہا ہے۔
واضح رہے کہ اس اہم ترین کتاب کی دوسری جلد کو مولانا موصوف کے صاحبزادہ و ای ٹی وی بھارت اردو حیدرآباد کے صحافی و نیوز اینکر فضل رحماں رحمانی اور مولانا عبید اختر رحمانی نے مرتب کیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں ملک کے چیدہ و چنندہ شخصیات نے اعتماد بھرے لہجہ میں اپنے خیالات و احساسات کا بھر پور اظہار کیا ہے۔ جن میں خاص طور پر مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی صاحب رحمانی نوراللہ مرقدہ، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد)، مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی (نائب ناظم،امارت شرعیہ پٹنہ)، مولانا عمرین محفوظ رحمانی (سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)، مفتی ریاض احمد قاسمی (جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر)، مفتی عین الحق امینی قاسمی (ناظم، مدرسہ معہد عائشہ صدیقہ، کھاتوپور بیگوسرائے)، ڈاکٹر پروفیسر شبیر حسن، مونگیر اور شاہ عمران حسن کے تاثرات اور جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کی خدمات کے حوالے سے مولانا موصوف سے لیا گیا صحافی عارف اقبال کا جامع اور وقیع انٹرویو بھی شامل کتاب ہے۔