ظلم دونوں کمیونٹی پر ہوا ، لیکن انصاف دینے اور دلانے کی کوشش صرف ایک کو!

شمس تبریز قاسمی
آسام میں پولس کے ذریعہ مسلمانوں کا قتل اور لکھیم پور کھیری میں کسانوں کا قتل عام ۔ دونوں واقعہ ایک جیسا ہے ، کہانی ملتی جلتی ہے ۔ آسام میں سرکار کے حکم پر پہلے 800 مسلمانوں کو بے گھر کیا گیا ، ان کی زمین چھین لی گئی ، کوئی متبادل زمین نہیں دی گئی ۔ دو دنوں بعد 23 ستمبر کو مسلمانوں نے اپنے حق کیلئے احتجاج کیا تو پولیس نے زیرو پوائنٹ سے فائرنگ کرکے دو بے گناہ شخص کا قتل کردیا ، دردناک منظر پوری دنیا نے دیکھاکہ ایک طرف معین الحق کی روح جسم سے پرواز کررہی تھی دوسری طرف ایک فوٹو گرافر بار بار ان کے جسم پر کود رہا تھا اور مردہ جسم پر پولس بھی لاٹھی برسارہی تھی ۔
3 اکتوبر کو لکھیم پور کھیری میں کسان احتجاج کرکے لوٹ رہے تھے ، پیچھے سے بی جے پی کے کابینہ وزیر اور وزیر داخلہ امت شاہ کے جونیئر اشیش مشرا کاٹی کے بیٹے ستیش مشرا کے اشارے پر بی جے پی کارکنان نے گاڑی چڑھا دی ، کسانوں کو روند دیا جس میں چار کسانوں کے جائے حادثہ پر موت ہوگئی ، ایک صحافی بھی حادثہ کا شکار ہوگیا ، کسانوں نے فوری طور پر انتقام لیتے ہوئے تین بی جے پی کارکنا ن کا وہیں پر قتل کردیا ۔
لکھیم پوری حادثہ کو مین اسٹریم میڈیا ، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ، اخبارات سب جگہ نمایاں طور پر جگہ ملی ، ابھی تک میڈیا کی سرخیوں میں لکھیم پوری ہی چھایا ہوا ہے ، فوری طور پر سبھی اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں نے ٹوئٹ کرنا شروع کردیا ، کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے خاموشی کے ساتھ راتوں سے لکھیم پوری کا سفر شروع کردیا ، آدھی رات کو ہی وہ لکھنو پہونچ گئیں ، وہاں سے لکھیم پوری جاتے ہوئے پولس نے ڈیٹینڈ کرلیا ، اکھلیش یادو نے بھی جانے کا اعلان کردیا تھا اس لئے پولس نے رات میں ہی انہیں حراست میں لے لیا ، وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے معاملہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے فوری طور پر ڈیمیج کنٹرول کرنے کی کوشش کی ، اپوزیشن کے سبھی لیڈروں کو جانے سے روک دیا ، صرف راکٹیش ٹکیت کو لکھیم پوری جانے کی اجازت دی ، راستے میں راکیش ٹکیٹ سے حکومت کے اعلی افسران کی میٹنگ ہوئی ، کل ہوکر یو پی کے ای ڈی جی لاء اینڈ آڈر پرشانت کمار نے جائے حادثہ کا دورہ کیا ، متاثرین کے اہل خانہ اور کسان لیڈروں سے ملاقات کی ، سبھی متاثرین کے اہل خانہ کو 45 – 45 لاکھ روپیہ، ایک سرکاری نوکری اور زخمیوں کے اہل خانہ کو دس دس لاکھ روپیہ دینے کا اعلان کیا ، یہ بھی طے پایا کہ ستیش مشرا سمیت پندرہ لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی ، اگلے 8 دنوں میں گرفتاری عمل میں آئے گی ، اس دران کسان اس معاملے پر احتجاج نہیں کریں گے ۔ تیسرے دن ہوکر راہل گاندھی نے بھی وہاں جانے کا اعلان کیا ، جانے سے قبل کانگریس ہیڈ کوارٹر میں انہوں نے پریس کانفرنس کرکے صحافیوں سے خطاب کیا ، اس کے بعد پنجاب کے وزیر اعلی چرنجیت سنگھ چنی اور چھتیس گڑھ کے وزیر اعلی بھوگیش سنگھ بگھی کے ساتھ وہ لکھنو پہونچے ، سیتاپور جاکر پرینکا گاندھی سے ملاقات کی اور ساتھ جاکر شہید کسانوں کے اہل خانہ سے ملاقات کی ، کانگریس کے دونوں وزرائے اعلی نے اپنی حکومتوں کی جانب سے پچاس پچاس لاکھ روپیہ دینے کا اعلان کیا ۔ 7اکتوبر کو سپریم کورٹ نے بھی از خود نوٹس لیتے ہوئے یوپی حکومت کی سرزنش کی اور 24 گھنٹہ میں جواب طلب کرلیا ۔ چند شیکھر آزاد، اکھلیش یادو اور دوسرے اپوزیشن لیڈران بھی وہاں جاکر اہل خانہ سے اظہارِ یکجہتی کررہے ہیں ۔
آسام میں مسلمانوں کے قتل عام اور بے گھر کئے جانے کو آج 15 دن گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک ان پولس اہلکاروں کے خلاف ایک ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی ہے جنہوں نے فائرنگ کی تھی ، سرکار نے ایک پیسہ بھی معاوضہ کے نام پر نہیں دیا ہے ، بے گھر کئے گئے لوگوں کو ابھی تک متبادل جگہ نہیں دی گئی ہے ، وزیر اعلی ہیمنتا بسوا سرما نے مسلمانوں کے ایک وفد کی ملاقات کے بعدایک جانچ کمیٹی تشکیل دینے کا صرف اعلان کیا ۔ کانگریس کی مرکزی قیادت نے اس معاملہ پر کوئی توجہ نہیں دی ، راہل گاندھی نے صرف ایک ٹویٹ پر اکتفا کیا ، کانگریس ہیڈ کوارٹر میں ایک پریس کانفرنس ابھی تک اس موضوع پر نہیں ہوئی ہے ، دو دن قبل کانگریس نے اقلیتی امور کے چیئرمین عمران پرتاب گڑھی کو بھیج کر معین الحق کے اہل خانہ کو ایک لاکھ روپے کا چیک دیا ہے ۔ آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے سربراہ مولانا بدر الدین اجمل بھی بیمار ہونے کے سبب درنگ کے متاثرین سے ملنے نہیں پہونچ سکے ، البتہ ان کی پارٹی کے لیڈروں نے شروع دن سے اس معاملہ پر توجہ دی ، جمعیت علماء ہند کے وفد کے ساتھ ان لوگوں نے چیف منسٹر سے ملاقات بھی کی ، میمورنڈم سونپا ۔ کانگریس کی آسام یونٹ اور ایک علاقائی پارٹی رائجر دل نے احتجاج کرنے اور پریشر بنانے کے بجائے مولانا بدر الدین اجمل کو ٹرول کرنا شروع کردیا ۔ مین اسٹریم میڈیا نے اس خبر کو بالکل بھی جگہ نہیں دی ، ملت ٹائمز کے صحافی شیان اشکر نے ہندی اور انگریزی کے سبھی چینلوں کا جائزہ لیا کہ کس چینل نے اس خبر کو جگہ دی ہے اور کس نے نہیں، تو سامنے یہ آیا کہ آج تک نے صرف دستک کے پروگرام میں اسے دکھایا ، اے بی پی نیوز، زی نیوز ، ریپبلک ورلڈ ، ٹائمس ناؤ ، انڈیا ٹی وی ، نیوز نیشن کے کسی بھی پروگرام میں یہ خبر نہیں دیکھائی گئی ۔ این ڈی ٹی وی کے کچھ پروگرامس میں اس خبر کو جگہ ملی ، رویش کمار نے پرائم ٹائم میں منیش گپتا اورمعین الحق کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے ایک پروگرام کیا ۔
لکھیم پوری کھیر ی کا حادثہ اور آسام میں مسلمانوں کا قتل عام ۔ دونوں واقعہ اور اس کے بعد کی تفصیلات آپ کے سامنے ہے ۔ ایک معاملہ پر سبھی اپوزیشن رہنما بے قرار ہیں ، لکھیم پور کھیری جانے کیلئے بے چین ہیں ، متاثرین کے اہل خانہ کو انصاف دلانے کیلئے پوری طاقت جھونک رہے ہیں ۔ سرکار دباؤ میں آکر فیصلہ کررہی ہے ، ملزمان کی گرفتاری شروع ہوگئی ہے ، بی جے پی کے وزیر کا بیٹا جو کلیدی ملزم ہے وہ بھی سلاخوں کے پیچھے ہے، سبھی طرح کی میڈیا میں کوریج دی جارہی ہے ، سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیا ہے ۔ دوسرے معاملہ میں ابھی تک مجرموں کے خلاف ایف آئی آرج درج نہیں ہوئی ہے ، سرکار پر ذرہ برابر کوئی دباؤ نہیں پڑا ہے بلکہ آئندہ کچھ اور علاقوں سے مسلمانوں کو بے گھر کرنے کا آسام سرکار نے منصوبہ بنا رکھا ہے۔ متاثرین کے اہل خانہ کو کسی طرح کا کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے نہ ہی مسلمانوں میں صف اول کے قائدین وہاں پہونچے ہیں اور نہ اپوزیشن پارٹیوں کے مرکزی رہنما وہاں گئے ہیں ۔ آسام کے معاملہ میں بھارت سے زیادہ بے چینی عرب مسلمانوں میں نظر آرہی ہے ، ٹوئٹر پر عرب ایکٹیوسٹ لگاتار ٹرینڈ چلارہے ہیں الہند تقتل المسلمین ، کویت کی پارلیمنٹ نے مذمتی قرار داد پاس کردیا ہے ، او آئی سی نے بھی ٹویٹ کرکے مذمت کی ہے اور بھارت سرکار سے مسلمانوں کی مذہبی اور بنیادی آزادی کو یقین بنانے کی درخواست کی ہے ۔
لکھیم پوری میں جو کسان مارے گئے ہیں وہ سبھی سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں ، دوسرے لفظوں میں یہ لکھیم پوری کا معاملہ بھی ایک اقلیت کا ہے اور آسام کا معاملہ بھی ایک اقلیت کا ہے ۔ لیکن دونوں واقعہ پر حکومت ، میڈیا ، افسران ، عدلیہ اور اپوزیشن کے طرزعمل اور رویے میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ ایک کمیونٹی کے ساتھ ہوئے ظلم پر درد اور کرب کا اظہار سامنے آرہا ہے ، دوسرے کے ساتھ ہوئے ظلم پر خاموشی طاری ہے ۔ آخر ایسا کیوں؟ اس کیلئے ذمہ دار کون ہے ؟ مسلمان اتنے بے وقعت کیسے ہوگئے ہیں؟، بی جے پی کی طرح کانگریس بھی کیوں مسلمانوں کے مسائل کو نظر انداز کررہی ہے ؟۔ بی جے پی کی پالیسی کے مطابق اپوزیشن پارٹیوں نے کیوں مسلمانوں کے ظلم پر بھی خاموشی اختیار کررکھی ہے ؟
ان سوالوں پر غور کیجئے ، دونوں واقعات اور اس کے بعد کے حالات کا جائزہ لیجئے ، تنہائی میں سوچیے ، خود اپنے ضمیر سے بھی سوال کیجئے، اس فرق کی وجہ سمجھیے اور اس کا جواب بھی ڈھونڈھنے کی کوشش کیجئے!
stqasmi@gmail.com
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)