متحدہ عرب امارات کا ایک اڑتالیس سال پرانا اسرائیل مخالف قانون حتمی طور پر منسوخ اور اس یہودی ریاست کا بائیکاٹ ختم کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے متحدہ عرب امارات کے صدر نے ہفتہ انتیس اگست کو ایک فرمان بھی جاری کر دیا۔
دبئی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق امریکی ثالثی سے اسرائیل اور خلیجی کی اس وفاقی ریاست نے رواں ماہ کے تقریباﹰ وسط میں باہمی سفارتی تعلقات قائم کرنے کا جو تاریخی اعلان کیا تھا، اس کے فوراﹰ بعد ہی دونوں ممالک میں دوطرفہ روابط کے قیام کی عملی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں۔
اب باہمی تعلقات کو معمول کے مطابق ہمہ جہت بنانے کے لیے جو جامع اقدامات کیے جا رہے ہیں، ان کے تحت اسرائیل اور یو اے ای کے مستقبل کے تعلقات عملاﹰ تشکیل پانے لگے ہیں۔ یہ انہی کوششوں کا حصہ ہے کہ متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے 29 اگست کو ایک صدارتی فرمان جاری کر دیا، جس کے تحت1972ء میں نافذ کیا جانے والا وہ وفاقی قانون حتمی طور پر مسنوخ کر دیا گیا ہے، جس کا مقصد اسرائیل کے بائیکاٹ کو یقینی بنانا تھا۔
اسرائیلی مصنوعات کی تجارت اب قانونی عمل
ماضی میں اس قانون کی خلاف ورزی کر نے والے کسی بھی فرد، افراد یا ادارے کے لیے سزائیں بھی طے تھیں۔ اب لیکن یہ قانون منسوخ کر دیا گیا ہے اور یوں اسرائیل کا قانونی بائیکاٹ بھی ختم ہو گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی سرکاری نیوز ایجنسی نے لکھا ہے، ”اب ہر قسم کی اسرائیلی مصنوعات کو اپنے پاس رکھنا، ان کا تبادلہ اور خرید و فروخت سب کچھ قانونی طور پر کیا جا سکے گا۔‘‘
متحدہ عرب امارات اب تک اسرائیل کے ساتھ معمول کے سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم کرنے والا دنیا کا صرف چوتھا مسلم اکثریتی ملک ہے۔ باقی تین ممالک ترکی، مصر اور اردن ہیں۔ یہ وفاقی ریاست یہودی ریاست کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے والی مجموعی طور پر تیسری عرب اور خلیج کی پہلی عرب ریاست ہے۔ فلسطینیوں نے یو اے ای اور اسرائیل کے مابین اس معاہدے کو ‘دھوکا دہی‘ کا نام دیا تھا۔






