صفدر امام قادری
ایک انگریزی اخبار کے حوالے سے جیسے ہی یہ خبر مشتہر ہوئی کہ حکومتِ ہند کے تقریباً سات سَو ادارے جن کی حیثیت’ خود مختار‘ کی ہے، انھیں کسی نہ کسی دوسرے ادارے میں ضم کرکے اُن کی آزادانہ حیثیت کو ختم کردیا جائے گا؛ فوراً اردو کے علمی حلقے میں بحث و مباحثہ اور ہنگامہ آرائیاں شروع ہوگئیں۔ حکومتِ ہند کی یہ بھی تجویز ہے کہ قومی اردو کونسل برائے فروغِ اردو زبان کو مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی ، حیدر آباد یا جامعہ ملّیہ اسلامیہ ، نئی دہلی میں ضم کر دیا جائے گا۔حکومتِ ہند کے پیشِ نظر یہ تجویز ’ نیتی آیو گ‘ کی سفارشات کے عین مطابق ہے جہاں بہ ظاہر حکومت اپنے اخراجات کو کم کرنے اور بہ باطن خود مختار اداروں کو سیدھے حکومت کے دائرۂ اثر میں لینے کے ارادے سے یہ فیصلہ کر رہی ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ معاملہ صرف قومی اردو کونسل کا نہیں ، اس کے ساتھ سات سَوادارے اوّلاً اور کچھ اسی قدر ادارے دوسرے فیز میں زیرِ غور ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ بھا جپا کی اوّلین حکومت میں بھی’ ڈس ا نوسٹ منٹ‘ کے نام پر ہزاروں سرکاری اداروں کو پرائیوٹ بنا نے کی مہم شروع ہوئی تھی۔
عوامی طور پر غور کریں تو کسی اخبار یا چینل پر موجودہ ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم کا کوئی ردِّ عمل ابھی تک سامنے نہیں آیا ۔ ہر صحافی نے یہی لکھا کہ وہ اس موضوع پر اپنا ردِّ عمل پیش کر نے کے لیے میسّرنہ تھے۔ حالاں کہ بعض ادیبوں اور دانشوروںنے انھیں یہ مشورہ بھی دیا کہ انھیں احتجاجاً استعفیٰ دے کر عوامی مورچے کی تشکیل میں سرگرم ہوجانا چاہیے۔ مگر اس بات کے سامنے آتے ہی کونسل کے ایک سابق ڈائرکٹر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدّین نے ایک مکمل مضمون لکھتے ہوئے اس بات کی وضاحت کر نے کی کوشش کی کہ گذشتہ دو برسوں میں قومی اردو کونسل کی جو کارکردگیاں رہیں، اسی کا یہ نتیجہ ہے۔ ’دو برس‘ کی تخصیص کے یہ بھی معنی ہوئے کہ یہ دور ارتضیٰ کریم کی قیادت سے مخصوص ہے یا خواجہ محمد اکرام الدّین کے بعد کا ہے۔ یعنی زوال کا سلسلہ خواجہ محمد اکرام الدّین کے بعد ارتضیٰ کریم صاحب کے دور سے شروع ہوا جس کا یہی انجام ہونا تھا۔
مشکل حالات میں اردو معاشرے کا کردار ایسے بیان سے سامنے آجاتا ہے۔ آج تک بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی ناکارکردگی کے بچاؤ میں کانگریس کی پالیسیوں کو پیشِ نظر رکھتی رہی ہے۔ اس لیے اگر یہ صورتِ حال پیدا ہوگئی اور قومی اردو کونسل کو ایک ’محکوم‘ ادارے کے طور پر ہی رہنے کے لیے مجبورکر دیا جائے گا تو اس میں کسی ایک ڈائرکٹر یا دو چار آدمیوں کے قصور کی پہچان اس وجہ سے مشکل ہے کیوں کہ یہ پالیسی کا کھیل ہے اور اس کی چپیٹ میں ہزاروں ادارے آرہے ہیں۔
جب سے مرکز میں نریندر مودی کی حکومت آئی ہے، پورے ملک کو یہ معلوم ہے کہ اقلیت کے نام پر آزاد اشخاص اور اداروں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا ہے۔ مسلم اقلیت سے بیر کی کہانی کوئی نئی نہیں ؛ اس لیے ہم سب ان کے ایسے شر انگیز اقدام کے منتظر تھے ۔ مولانا آزاد فاؤنڈیشن یا قومی اردو کونسل تو محض چھوٹے نمونے ہیں، اقلیت آبادی کے لیے یہ ادارے یوں بھی آزاد نہیں تھے، بس دکھائی دیتے تھے۔ حکومت کے پیسوں سے چلنے والے ادارے غلام ہی ہوتے ہیں، ہم اسے آزاد غلط طور پر ہی سمجھتے ہیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ کانگریس کے زمانے میں بھی یہ غلامی قائم تھی اور یہ خوش اعتقادی نہیں پالنی چاہیے کہ اس ادارے کو بنا کر کانگریس نے آزادانہ طور پر اسے آگے بڑھنے کے مواقع عطا کر دیے تھے۔
میں انھی کالموں میں اس بات کی جانب متعدد بار اشار ے کرتا رہا ہوں کہ قومی اردو کونسل کو ’نئے ویژن‘ کی ضرورت ہے اور اسے اردو کے’ چند با اثر اساتذہ‘ کے چنگل سے نکا لنے کی ضرورت ہے۔ حمید اللہ بھٹ، علی جاوید ، خواجہ محمد اکرام الدّین اور ارتضیٰ کریم – تمام کے زمانے کے مستفدین کی ایک مختصر فہرست سے یہ بات ظاہر ہو جائے گی کہ ہمارے شعبہ ہائے اردو کی ایک کھڑکی یہاں بھی کھل چکی ہے اور حکومت کی رقومات کا کتاب، پروجکٹ اور سیمینار و مشاعروں میں بندر بانٹ کیا جانا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہر ڈائرکٹر نے ایسے ’بزرگانِ ادب‘ کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور عوامی دولت کو ذات کے خانے میں پہنچایا۔
تاریخ اور تعلیم کے طالبِ علم جانتے ہیں کہ قدیم نالندہ یونی ورسٹی کے زوال کا ایک سبب بختیار خلجی کی فوجوں کے ہاتھوں یونی ورسٹی میں آگ لگا کر تباہ و برباد کرنے کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ آگ چھے ماہ تک لگی رہی مگر آس پاس کے گاؤں کے لوگ اسے بجھانے کے لیے نہیں آئے۔ ادارے کی مدد کے لیے کوئی نہیں آیا۔ اس طرح پوری یونی ورسٹی خاک میں مل گئی ۔ لیکن محققین نے جب ان سوالوں پر غور کیا کہ آخر آس پڑوس کے افراد نے نالندہ یونی ورسٹی کی بقا کے لیے کوئی کوشش کیوں نہیں کی تو یہ بات سمجھ میں آئی کہ وہاں جس مکتبِ فکر کی تعلیم دی جا رہی تھی ، اس کا وہاں کے لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔
آج جب قومی اردو کانسل کے انضمام کا مسئلہ درپیش ہے تو ہمیں یہ بات یاد آتی ہے کہ آخر عوامی طور پر اس ادارے کے بچانے کی مہم کوئی کیوں شروع کرے ؟ گذشتہ تین دہائیوں میں جن پروفیسروں اور عالی مرتبتوں نے قومی اردو کونسل سے لاکھوں حاصل کیے ، وہ سب اس احتجاج میں آگے کیوں نہیں آرہے ہیں؟ ایسے لوگ جو پہلے بھی ڈائرکٹر رہ چکے ہیں ، وہ اپنے اگلے ٹرم کی گنجایشوں کے سبب حکومت کے خلاف بولنے کے بجاے گذشتہ دو برسوں کا ہی حساب کتاب چاہتے ہیں۔ یہ موقع اور مفاد کا کھیل ہے جسے اردو دوستی کا نام دینا دھوکا ہے۔
اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ قومی اردو کونسل کبھی جمہوری ادارے کے طور پرمُلک بھر کے اردو والوں کی محبّت حاصل نہیں کرسکی۔ اسباب واضح ہیں کہ اسے یونی ورسٹیوں کی” انیکسی “ کے طور پر چلانے کی کوشش ہوئی۔ یہ تومحض اتفاق ہے کہ اردو کے بعض سلیقہ مند افراد کی وجہ سے قومی اردو کونسل کی مطبوعات کا ایک وقت تک خاص معیار رہا مگر پچھلے دس برسوں کاا حتساب کرلیجیے تو سمجھ میں آ جائے گا کہ یہاں ترقّیِ معکوس کا معاملہ ہے۔ پاکستان کے ادارہ ¿ ادبیات سے اس کا مقابلہ کر لیجیے؛ فی زمانہ مطبوعات کامعیار بے شک کونسل کا ہی کم تر قرار پائے گا۔ اسے بہتر بنانے کی کوشش ایک عرصے سے نہیں ہوئی مگر تمام ڈائرکٹر حضرات اپنی ڈفلی اپنا راگ کے مترادف اپنی خصوصیات الاپ رہے ہیں۔
جب ادارے بااثر افراد کو رقم بانٹنے کا ذریعہ بنیں گے ، اس وقت ان کا جمہوری کردار بھی متاثر ہوگا اور معیار بھی لازماً ضائع ہوگا۔ ایسے میں نئے نئے کام اور بنیادی نوعیت کے کارناموں کی توقع فضول ہے۔ نئے تصوّرات اور اہل افرادسے بڑے کاموں کی انجام دہی کے بارے میں تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ گذشتہ برسوں میں قومی اردو کونسل نے”علاقائی ادبی تاریخ نویسی“ کا ایک بڑا پروجیکٹ بنایا اور اشتہارات شائع کیے مگر اس کام کا آغاز دو برسوں میں نہیں ہو سکا۔ علی جاوید صاحب کے زمانے میں یونی ورسٹیوں کے اردو نصاب کی تشکیل کے لیے قومی ورکشاپ منعقد ہوئی اور سیکڑوں دماغوں کی مدد سے وہ نصاب تیار ہوا جس کے ملک بھر میں بی۔ اے۔اور ایم۔ اے۔ سطحوں پر نفاذ کی گنجائشیں تلاش کی جانی تھیں مگر ڈائرکٹر بدلتے ہی تمام کام ختم ہو جاتے ہیں۔ قومی اردو کونسل روٹین کاموں کی انجام دہی سے آگے بڑھنا ہی نہیں چاہتی؛ اس لیے اسے زوال کے قریب پہنچنا ہی تھا مگر ہمیں کیا معلوم کہ یہ وقت اتنا قریب آ گیا ہے: اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے۔
اردو کے دوسرے اداروں اور نامی گرامی فرزندان کو حکومتِ ہند سے یہ گزارش کرنی چاہیے کہ وہ اس ادارے کو اس انضمام سے الگ رکھے۔ اس گزارش کو قبول کرنے میںحکومت کو شاید ہی کوئی مضائقہ ہو۔ محدود پیمانے پر ووٹ کی سیاست سے بھی اس کا تعلق ہے۔ پارلیامنٹ کے اردو داں ممبران کو اب زبان بندی ختم کرنی چاہیے اور اداروں کو بچانے کے لیے آگے آنا چا ہیے۔ قومی کونسل کی کمیٹیوں کے ممبران اور ہندستان بھر کے صدور شعبۂ اردو کی جانب سےبھی وزیرِ اعظم ہند کو اس سلسلے سے مکتوب لکھا جا نا چا ہیے۔ ابھی ”ڈائرکٹر ڈائرکٹر“ کھیلنے سے زیادہ ضروری یہ کام ہے ورنہ ہماری لڑائیاں تو جاری رہیں گی مگر قومی اردوکونسل جیسا ادارہ شاید اپنے آزادانہ وجود کو قائم نہ رکھ سکے۔
ہماری خواہش ہے کہ حکومت سے اس ادارے کی بازیابی کی کوششوں کے بعد ادارے کے ’اغراض و مقاصد ‘ کے سلسلے سے ہمیں سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ یہ بات بھی پیش ِنظرہو کہ یہ ایک معیاری علمی ادارے کے طور پر اردو عوام کی ضرورتوں کے عین مطابق کام کرنے کی کس طرح پابند ہو ؛ اس پر گفتگو شرح و بسط کے ساتھ ہونی چاہیے ۔اسے نہیں بھولنا چاہیے کہ صرف ڈائرکٹر کی وجہ سے ادارے کام نہیں کرتے بلکہ ’ اغراض و مقاصد ‘ کی وہ روشنی ہوتی ہے جسے ہر قائد اور ہر کار پردازاپنے حصّے کا کام کر تا جاتا ہے ۔ہمیں اپنی دیرینہ تنک مزاجی اور مفاد کے حصار میں رہ کر الزام تراشی کے کاموں سے اوپر اُٹھ کر اوّلاًقومی کونسل کی خود مختاری کو بچانا چاہیے اور پھر اسے مفاد پرستوں کے ہاتھوں سے نکالنا چاہیے ۔ (ملت ٹائمز)
( مضمون نگار کالج آف کامرس ، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں)
safdarimamquadri@gmail.com