آر ایس ایس بدل رہی ہے یا کچھ اور ہے پس پردہ ؟

پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی 

آج سے 125 سال قبل ستمبر 1893میں امریکہ کے معروف شہر شکاگو میں مذہبی عالمی پارلیمنٹ کے نام سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی ،ہندوستان کے معروف ہندو مذہبی رہنما سوامی وویکانند نے وہاں ہندوثقافت او رمذہب کی فضیلت پر طویل تقریرکی ،یہی تقریر وویکانند کی شہرت کی وجہ بنی ،پہلی مرتبہ مغرب میں ہندو مذہب کا ان کے ذریعہ تعارف ہوا ،سوامی وویکا نند کی اسی تقریر کی یاد میں وہاں گذشتہ 8 ستمبر کو ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس کا نام عالمی مذہی پارلیمنٹ کے بجائے عالمی ہندو کانگریس تھا۔آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے وہاں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی اور تقریبا 41 منٹ تک انگریزی میں تقریر کی ۔ تقریبا 2500 چنیدہ سامعین تھے ۔اپنے خطاب میں انہوں نے آر ایس ایس کے اس ایجنڈے کا کھل کا اظہار کیا جسے ہندوستان میں وہ نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔ شکاگومیں انہوں نے مسلمانوں، دلتوں اور عیسائیوں سمیت تمام پسماندہ طبقات کو اپنا دشمن گرادنتے ہوئے ہندوسماج کیلئے خطرہ بتایا، وہاں ان کا کہناتھاکہ ہندو گذشتہ ایک ہزار سال سے مصیبت جھیل رہے ہیں ، ہندؤوں کو خطرات لاحق ہیں اس لئے ہندوسماج کو متحدہوجانے چاہیئے ،شیر کتنا ہی بہادر کیوں نہ ہو جب وہ تنہا ہوتاہے تو جنگلی کتے اس پر حملہ آور ہوجاتے ہیں اور مارڈالتے ہیں ،ہندوسماج میں یکجہتی اور ہم آہنگی ہے، قتل پاپ ہے ، یہاں تک کہ کیڑ ے مکوڑوں کو بھی مارنا گناہ ہے ، جدید ہندوستان میں ہندؤوں کی حالت ویسی ہی ہے جیسے مہارت بھارت کی جنگ میں پانڈوں کی تھی ۔ ہم دوسروں کو جینے کا حق دیتے ہیں لیکن جن سے خطرات لاحق ہیں نقصان پہونچ سکتاہے اس سے تحفظ کیلئے ہر آلہ کا ہمارے پاس ہونا ضروری ہے ۔کون ہے کتا ؟ کسے وہ کیڑا مکوڑا کہ رہے ہیں؟ ایک ہزار سال سے مصیبت جھیلنے کی بات کہ کہکر کسے انہوں نے ظالم ٹھہرانے کی کوشش کی ہے ان سوالوں کا جواب واضح ہے اور اس موضوع پر ہم ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل پر سپریم کورٹ کے سینئر وکیل محمود پراچہ کے ساتھ خبر در خبر میں ایک مباحثہ کرچکے ہیں۔

حالیہ دنوں میں ایک مرتبہ پھر موہن بھاگوت کی تقریر اخبارات کی شہ سرخیوں میں ہے ،میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے اور جوکچھ وہ کہ رہے ہیں ان کی شکاگو تقریر کے بالکل برعکس ہے۔ دہلی کے وگیان بھون میں آر ایس ایس کی سہ رزہ کانفرنس آج مکمل ہوجائے گی ، اس کانفرنس میں انہوں نے کہاہے کہ ہندوستان ہندو راشٹر تھا اور رہے گا ،مسلمانوں کے بغیر ہندو راشٹر کا تصور نہیں کیا جاسکتاہے ، نہ ہی مسلمانوں کے بغیر ہندتوا برقرار رہے گا ، آر ایس ایس کا مقصد ہندوسماج کو متحد کرناہے ۔ہم ہندو راشٹر پر یقین رکھتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مسلمانوں کے خلاف ہیں،ہم سب کیلئے اچھائی پر یقین رکھتے ہیں جہاں تمام طبقے اور مذہب کا مقام ہے۔ موہن بھاگوت نے وگیان بھون کی کانفرنس میں بی جے پی سے اپنے تعلقات کا بھی انکار کیا ہے ، ان کا کہناہے آر ایس ایس حکومت کے کاموں میں کوئی مداخلت نہیں کرتی ہے ،سرکار میں خود ددانشور لوگ بیٹھے ہیں،ہم سنگھ کو چلارہے ہیں سرکار نہیں ۔ہاں !قومی مفاد میں کام کرنے والے لوگوں کا ساتھ ضرور دیتے ہیں ۔ہندوستان کے آئین اور ترنگے پر ہمار ا یقین ہے ۔ آر ایس ایس سربراہ نے جنگ آزادی میں کانگریس کے کردار کا بھی تذکرہ کیاہے اس کے لیڈروں اور خوبیوں کو بیان کیاہے۔

ہندوستان اور مسلمانوں کے تئیں آر ایس ایس کا نظریہ اب کوئی مخفی نہیں رہ گیاہے ،یہ اب صرف ہندوستان کی نہیں بلکہ دنیا کی طاقتور تنظیم بن چکی ہے ،نفرت ،انتہاءپسندی اور مسلمانوں سے عداوت اس تنظیم کی فطرت میں شامل ہے، مسلمانوں سے انہیں سب سے زیادہ نفرت ہے کیوں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت آنے کے بعد برہمنزم کمزور ہوتی گئی، دلتوں کو غلام بنانے اور انسان سے بدتر سمجھنے کی روایت میں خلل واقع ہوئی ، اسی لئے انگریزوں کی آمد کے بعدبرہمنوں کو سب سے زیادہ خوشی ہوئی اور انہوں نے آر ایس ایس کے خلاف کبھی بھی کسی بھی مہم میں شرکت نہیں کی ۔آج آر ایس ایس اسی پرانے نظام کو دہرانے اور برہمنزم کو واپس لانے کی کوشش کررہی ہے ، سنگھ کے نزدیک ہندو کا مطلب صرف برہمن راجپوت اورچند اعلی ذات ہے جن کی تعداد بہت کم ہے ان کے علاوہ کوئی اور ہندو نہیں ہے ۔

آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے خطاب سے یہ بھی واضح ہورہاہے کہ اب وہ کانگریس کو گود لیناچاہتے ہیں ، کانگریس بھی خود یہی چاہ رہی ہے کہ آر ایس ایس سے اس کے رشتے ہموار ہوجائیں ،پہلے بھی کانگریس آر ایس ایس کیلئے بہت کام کرچکی ہے ، کانگریس کویہ بھی اندازہ ہوچکاہے کہ آر ایس ایس کا ایجنڈہ نافذ کئے بغیر کامیابی ملنا ناممکن ہے ، اس تناظر میں کانگریس صدر راہل گاندھی کو بھی دیکھا جاسکتا ہے جو مسلسل خود کو ہندو ثابت کرنے اور مسلمانوں سے دوری بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔آرایس ایس کی شروع سے یہ پالیسی رہی ہے کہ باضابطہ وہ حکومت میں شریک نہیں ہوتی ہے لیکن حکومت کے افراد کو اپنے ماتحت رکھتی ہے، سرکار اسی کے ایجنڈے مطابق کام کرتی ہے ۔ہندوستان کی 70 سالہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ حکومت خواہ کانگریس کی رہی ہو یا بی جے پی کی عملی سطح پر آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل ہوئی ہے ۔ہاں کام کاج اور سرکار چلانے کا طریقہ بدل جاتاہے ،بی جے پی سرعام مسلمانوں کے خلاف بولتی ہے کانگریس خیر خواہی کے نام پر مسلمانوں کو نقصان پہونچاتی ہے ۔ جن ایشوز پر 2014 میں بی جے پی نے جیت حاصل کی تھی کانگریس نے ہی اس اس کی بیج بوئی تھی اور 2002 کے جس گجرات فسادکے نام پر 2004 میں کانگریس اقتدار میں آئی تھی اس پر دس سالوں کے دوران اس نے کبھی بھی توجہ نہیں دی ۔

2019 سامنے ہے ،آر ایس ایس کو اندازہ ہوچکاہے کہ 2014 کی یہ طرح یہ الیکشن جیتنا بی جے پی کیلئے ممکن نہیں ہے نہ ہی یہاں ایسے قابل لوگ ہیں جو عوام کا اعتماد برقرار رکھتے ہوئے سنگھ کے ایجنڈا کی تکمیل کرسکے اس لئے اب کانگریس کو گود لینے کی کوشش کی جارہی ہے ،مسلمانوں کے پاس کانگریس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں ہے ۔

stqqasmi@gmail.com