ڈاکٹر قیصر شمیم
انگریزی روزنامہ انڈین اکسپریس نے، جو اپنی بے باک رپورٹنگ کے مشہور ہے، 20/اکتوبر (2018) کو ہوئے ہجومی قتل اور دہشت گردانہ واردات کی خبر تین ہفتے بعد 10 نومبر کو شائع کی ہے۔ انڈین اکسپریس اور دیگر اخباروں کے نمائندے بہار میں موجود ہیں۔ اردو روزنامہ “انقلاب” کا نمائندہ بھی مظفر پور میں ہے، جس کی اناپ شناپ رپورٹیں اکثر “انقلاب” کے دہلی کے ایڈیشن کی زینت ہوتی ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق نہ تو انقلاب کے پٹنہ ایڈیشن اور نہ ہی دہلی ایڈیشن نے اس واقعہ کی خبر چھاپنا ضروری سمجھا ۔ بڑے بڑے اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا نے بھی اتنے بڑے سانحہ پر خاموشی اختیار کی۔ صرف میڈیا ہی نہیں، بلکہ خود ساختہ”ملی قائدین” اور جمعت علماء ہند سمیت اس قبیل کی دیگر تنظیموں میں سے زیادہ تر نے چپ شاہ کا روزہ توڑنا ضروری نہیں سمجھا۔ اس معاملہ میں حکمراں جماعت، اپوزیشن، ملّی تنظیموں اور میڈیا سب کا رویہ مایوس کن رہا ہے۔
اس حادثے کے فورا بعد، یہ خبر بارہ منٹ کی ویڈیو کے ساتھ، سب سے پہلے ایک چھوٹے سے اردو نیوز پورٹل: “ملت ٹائمز” نے مشتہر کی۔ اس سانحہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے گردش کرنے لگی۔ اس کے بعد، یہ عذر پیش نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس حادثے کی اطلاع ان لوگوں کو نہیں ملی، جن کو اس پر کم از کم بولنا ہی چاہیے تھا۔ جب یہ خبر اور ویڈیو گردش میں آگئی تو امارت شرعیہ، پٹنہ کے ایک وفد نے جائے حادثہ کا دورہ کیا؛ گرچہ بہت دیر ہوچکی تھی۔ جمعیت علماء ہند اور دوسری بڑی تنظیموں کے مرکزی رہنماؤں نے اس حادثے پر ایک مذمتی بیان بھی جاری کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ انھوں نے حکومت سے یہ بھی مطالبہ بھی نہیں کیا کہ مجرموں سزا دی جائے۔
اس واقعہ کا نہایت ہی مایوس کن پہلو یہ ہے کہ 31/اکتوبر کو “پٹنہ کرائم برانچ” نے “ملت ٹائمز” کو ایک نوٹس جاری کرکے اس ویڈیو کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ پورٹل (کے ایڈیٹر) نے ایسا نہیں کیا۔ بالآخر یوٹیوب اور فیس بک نے خود ہی اس ویڈیو کو ہٹا دیا۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ چھوٹے غیر نفع بخش نیوز پورٹل جو نوجوان صحافیوں کے ذریعے چلائے جاتے ہیں ان کو خوف زدہ کیا جاتا ہے۔ ملت ٹائمز نیوز پورٹل کے ذمہ دار، جناب شمس تبریز سے جب یہ خبر مجھے پہنچی؛ تو میں نے ہمدردی کا اظہار کیا۔ پھر انھوں نے جواباً مجھے لکھا کہ کسی شخص نے اظہار ہمدردی یا حمایت کے لیے ایک فون کال بھی نہیں کیا۔ میں نے ان کو اپنی ابتدائی صحافتی زندگی کا وہ واقعہ سنایا کہ جب 1971 میں، “ڈیفینس آف انڈیا رولز” (یعنی ڈی آئی آر) کے تحت، گرفتاری کے لیے تیار کی گئی فہرست میں میرا نام شامل کیا گيا تو جمہوری سیکولر لوگوں نے میری مدد کی؛ کوئی “ملی قائد” مدد کے لیے سامنے نہیں آیا ۔ میں نے شمس تبریز کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے موقف پر قائم رہیں اور دباؤ بنانے والی چال سے بالکل خوفزدہ نہ ہوں۔ ہوسکتا ہے ان کے بہانے دوسروں کو خوف زدہ کرنے کی یہ ایک یہ چال ہو تاکہ وہ لوگ بھی اپنا منھ بند رکھیں۔ اس نو جوان نے مثالی جرأت اور راست بازی کا مظاہرہ کیا اور اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔
بہرحال، اب بھی وقت ہے کہ اس ملک کی جمہوری قوتیں اس معاملہ میں سرگرم ہوں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ خطاکار اپنے انجام کو پہنچے۔ اطلاع کے مطابق، ہجومی دہشت کا شکار ہونے والے زین انصاری کے خاندان کو حکومت کی طرف سے معاوضہ کے طور پر پانچ لاکھ روپیہ کا چیک چند دن قبل دیا گیا ہے۔ برسراقتدار جماعت اور اس کے حاشیہ برداروں کی طرف سے اس سانحہ کو جھٹلانے کی تمام کوششوں کے بعد یہ معاوضہ زین انصاری کے ہجومی قتل کا اقرار ہے۔ پھر بھی زین انصاری کا نام ابھی تک ایف آئی آر میں درج نہیں کیا گیا ہے۔ حکمراں جماعتوں اور حکومت بہار نے اب تک اس ہجومی دہشت گردی کی مذمت نہیں کی ہے۔ اس لیے اس پورے مسئلہ پر رائے عامّہ تیار کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
(مضمون نگار سینٹرل وقف کونسل کے سابق سکریٹری ۔ ہریانہ، پنجاب، ہماچل پردیش اور چندی گڑھ وقف بورڈ کے سابق ایڈمنسٹریٹر ہیں)