ڈھاکہ: بنگلہ دیش کی عدالت نے رواں برس اپریل میں زندہ جلائی جانے والی 19 سالہ طالبہ نصرت جہاں کے 16 قاتلوں کو سزائے موت سنادی۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق بنگلادیش کی عدالت نے 7 ماہ بعد 19 سالہ طالبہ نصرت جہاں رفیع کے قتل کا فیصلہ سناتے ہوئے طالبہ کو آگ لگانے والے 16 حملہ آوروں کو سزائے موت سنادی۔
تاہم سزا پانے والے مجرمان کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
تفتیشی پولیس افسر کے مطابق بنگلا دیش میں ایک مدرسے کی طالبہ نصرت جہاں رفیع نے پولیس میں اپنے ہیڈماسٹر کے خلاف جنسی ہراسانی کی درخواست دے رکھی تھی اور ہیڈماسٹر نے چندافراد کو یہ کیس واپس لینے کے لیے نصرف پر دباؤ ڈالنے کا کہا اور انکار کی صورت میں قتل کرنے کی ہدایت بھی دی۔
تفتیشی افسر کے مطابق حملہ آوروں نے نصرف کو جھانسا دیکر چھت پر بلایا اور مقدمہ واپس لینے کے لیے کہا لیکن وہ نہ مانی جس پر انہوں نے تیل چھڑک کر 19 سالہ طالبہ کو آگ لگادی جس سے وہ بری طرح جھلس گئی اور بعد ازاں اسپتال میں دم توڑ گئیں لیکن مرنے سے پہلے ایک ویڈیو میں ہیڈماسٹر کے خلاف تمام الزامات کو دہرایا اور چند حملہ آوروں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ استاد نے مجھے چھوا اور میں آخری دم تک لڑوں گی۔
واضح رہے کہ چٹاگانگ کے ضلع فینی میں سونگازئی کے ڈگری مدرسہ ’سونگازئی اسلامیہ فیضل‘ کی 19 سالہ طالبہ نصرت جہاں کو مبینہ طور پر 6 اپریل کو مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی تھی‘۔
نصرت جہاں نے مدرسے کے پرنسپل سراج الدولہ کے خلاف ریپ کی کوشش کا الزام لگایا تھا تاہم مقتولہ پر مقدمہ واپس لینے کا دباؤ تھا۔
جب مقتولہ نے مقدمہ واپس لینے سے انکار کیا تو انہیں باندھ کر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی گئی تھی۔
نصرت جہاں کا جسم 80 فیصد تک جھلس چکا تھا اور ہسپتال میں پانچ روز تک زیرِ علاج رہنے کے بعد 10 اپریل کو دم توڑ گئیں تھیں۔
واضح رہے نصرت جہاں رفیع کی موت کے بعد بنگلادیش بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور وزیراعظم پر انصاف کے لیے دباو ڈالا گیا جس پر وزیراعظم حسینہ واجد نے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔






