کھونے کے لئے صرف زنجیریں ہیں

راشٹرواد کو گائے بنا دیا گیا ہے اور میڈیا کا ایک حصہ گئو رکشکوں کے غول میں تبدیل ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے70-80  فیصد گئو رکشکوں کو فرضی، نقلی اور سماج دشمن عناصر بتایا تھا، ان کی اس بات سے انکار مشکل ہے، ٹھیک اسی طرح میڈیا میں موجود راشٹر واد کے رکشکوں میں 70-80 فیصد نقلی اور فرضی ہیں جو اپنے مخالفوں کو دیش دروہی کہنے میں ذرا بھی تکلف نہیں برتتے۔

دو ٹوک: قاسم سید

عوامی زندگی سے گہرا تعلق رکھنے والے ادارے اپنے گریباں میں جھانکنا بھول جائیں،اپنے ماضی کی روایات و اقدار کو بھلا کر فرعون کے لہجہ میں بات کرنے لگیں تو دوسروں کے ہاتھ ان کے گریبانوں تک پہنچنے میں زیادہ دقت نہیں لگتا۔بدقسمتی سے جمہوریت کا چوتھا ستون کے لقب سے سرفراز میڈیا اپنی عمر کے سب سے زیادہ چیلنجنگ دور سے گزر رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا اعزاز و اکرام ان کی ساکھ پر ہے، ساکھ کا بنیادی مرکز و محور خبر کی صداقت ہے جس کو بار بارکسوٹی کی چھلنی سے گزار کر صاف شفاف کیا جائے کہ بدگمانی کاایک کنکر بھی نہ آسکے، جس سے کسی شخص کاکردار و عمل متاثر ہو سکتا ہو۔ آزاد میڈیا زور آور طبقوں کو عزیز نہیں ہوتا اس پہلو کو نظر میں رکھتے ہوئے اس پر توجہ دینی چاہئے کہ میڈیا اپنی آزادی کو خود منضبط دھاروں کے اندر رکھتے ہوئے اعتبار و و قار میں اضافہ کرے، کوئی حکومت یا طبقہ اس دور میں میڈیا پر نکیل نہیں لگاسکتا نہ اس کا اثر و رسوخ کم کر سکتا ہے، لیکن میڈیا نے اگرخود احتسابی کا نظام وضع نہیں کیا، سیلف کنٹرول سے گریز کیا اور اپنی ساکھ کے بارے میں عدم حساسیت کا مظاہرہ کیا تواس کے لئے مسائل پیدا ہوں گے۔ میڈیا کے زخم خوردہ طبقوں کے لئے اس سے بڑی خوشی کیا ہوگی کہ وہ خود شکنی کی راہ پر چل پڑے۔ اس کی خبریں غیر معتبر ہو جائیں، یہ وقار و اعتبار ہی قلعہ آزادی کی مضبوط فصلیں ہیں، ان میں یہ خود احتسابی کے بغیر ممکن نہیں۔ ہندوستانی میڈیا کا بڑا سیکشن غرور نخوت، تکبر و رعونت کی آخری حدوں کو چھورہا ہے۔ اس کی بے لگامی، غراہٹ، دھونس اور ہٹ دھرمی کے رویہ نے بے اعتباری و بے قاری میں اضافہ تو کیا ہی ہے عوام کو دہشت زدہ بھی کردیا ہے۔ ایسا لگنے لگا ہے کہ میڈیا کا بڑا حصہ ان دیکھے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے اور ملک کو کسی خاص ایجنڈے کی طرف لے جانے کے لئے آنکھوں پر پٹی باندھ کر دوڑ لگا رہا ہے۔ اس کے ایجنڈے میں کمزور و مظلوم طبقات کے آنسوؤں سے بھیگے چہرے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس نے اپنے لئے کوئی لکشمن ریکھا طے نہیں کی ہے وہ دھیرے دھیرے مافیا کے قالب میں ڈھلتا جارہا ہے۔ سیاستداں بلڈر اور چٹ فنڈ کے کھلاڑیوں کے عمل دخل نے میڈیا کے تقدس کو مجروح کیاہے اور وہ بازاری طوائف کی طرح خریداروں کی ضرورت کو پوری کرنے کے لئے صدق دلی سے تیار رہتا ہے۔ کارپوریٹ کی دراندازی نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ حتی کہ اردو اخبارات بھی کارپوریٹ کی دسترس سے محفوظ نہیں رہے۔ کارپوریٹ نے انہیں مسلکی فرقہ واریت کا چولا پہنا دیا، وہ مسلم سماج کا ناگزیر حصہ بن کر اس کے جسم پر گہرے زخم لگانے میں مصروف ہیں۔ جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے اور زہریلے ناگ کی طرح پھن اٹھا کر عرصہ سے جمع زہر باہر اگل دیتے ہیں۔ وہیں بڑے سلیقے کے ساتھ پروسی جانے والی فحاشی عریانیت اور آبرو باختہ اشتہارات، تہذیبی و ثقافتی قدروں کا جنازہ نکالنے کے لئے کافی مددگار ہوتے ہیں۔

کارپوریٹ میڈیا پر فرقہ پرستی اور ذات پات کے امتیازی رویہ کے بھگارنے دو آتشہ کردیاہے جو فسطائی طاقتوںکے اشاروں پر تانڈوکر رہا ہے۔ غریبوں، اقلیتوں اور مظلوم طبقات کے مسائل اس کے ایجنڈے میں نہیں آتے، ایک لیڈی ڈاکٹر کی خود کشی، ساس بہو کی لائیو لڑائی اور معمولی مسلم ایکٹریس کی مانگ کا سیندور پرائم ٹائم کاموضوع ہو سکتا ہے۔ قرض میں ڈوبے کسان پریوارکی اجتماعی خود کشی کو اس کی ہیڈ لائنس میں بھی جگہ نہیں مل پاتی۔ تلنگانہ انکاؤنٹر میں مارے گئے پانچ مسلم نوجوانوں پر گفتگو کے لئے وقت نہیں، البتہ میکا سنگھ اگر راکھی ساونت کا بوسہ لے لے تو وہ بریکنگ نیوز بن جاتی ہے۔ اسٹوڈیو میں بیٹھ کر فیصلے تھوپے جاتے ہیں۔ سرکار بلکہ عدلیہ تک کو مجبور کرنے کی خطرناک کوشش کی جاتی ہے۔ طارق فتح علی جیسے لوگوں کو چینلوں پر بٹھا کر اسلام، مسلمانوں اور مولویوں کو آزادی رائے کے نام پر جی بھر کر گالیاں سنائی جاتی ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، بھیڑ کو تشدد پر اکسایا جاتا ہے، پرنٹ میڈیا نے کافی حد تک اپنے وقار کی لاج رکھی ہے، الیکٹرانک میڈیا نے ابلاغ کو نیا آہنگ دیا بلا شبہ ابتدائی دور کی لغزشیں قابل فہم ہیں، مگر جب یہ عادت بن جائے، یک رخا پن آجائے اس کا بے قابو لہجہ، بے مہار انداز و اسلوب لطافتوں کو مجروح کرے، ایک خاص طبقہ کے خلاف نفرت و عداوت کی علامت بن جائے، راہ دکھانے کی بجائے دشت بیاباں کی وحشتوں میں دھکیل دے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت تو نہیں کیا جارہا ہے۔ پہلے آئی ایس آئی پھر القاعدہ، انڈین مجاہدین اور اب آئی ایس کے نام پر نوجوان تعلیم یافتہ لڑکے میڈیا ٹرائل کی آگ میں جلائے جارہے ہیں۔ دہشت گردی ایسا لفظ ہے جس نے انصاف کے تمام پیمانوں کا بدل ڈالا ہے۔ اگر آپ ان کے دفاع کے لئے وکیل اتارنے کے بارے میں سوچتے ہیں تو ملک مخالف تصور کئے جاتے ہیں۔ کرنل پروہت اور سادھوی پرگیہ کی حمایت کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں تو وہ عین مبنی پر انصاف ہے، افضل گرو کی پھانسی ہو یا یعقوب میمن کی، سولی پر ملک کے کروڑوں مسلمانوں کو چڑھا دیا جاتا ہے، حالانکہ ان پھانسیوں کی مخالفت کرنے والے غیر مسلم برادران وطن زیادہ ہوتے ہیں، ان کا مقدمہ لڑنے والے بھی غیر مسلم، لیکن میڈیاکا نزلہ گرتا ہے مسلمانوں پر۔ اب میڈیا نے راشٹرواد کے حوالے سے اختلاف رائے رکھنے والوں کو دیش ورودھی کی صف میں کھڑا کرنے کی مہم چھیڑ دی ہے، کبھی افضل پریمی گینگ تو کبھی یعقوب میمن پریمی گینگ اور اب برہان وانی پریمی گینگ، کشمیریوں کی بات کرنے والے کی حب الوطنی مشکوک افسپا پر انگلی اٹھانے والے دیش دروہی عمر خالد اور کنہیا کے حق میں آواز بلند کرنے والا دیش کا غدار-اینکر اپنے شرکا سے صرف وہ سننا چاہتا ہے جو اس نے طے کر رکھا ہے۔ راشٹرواد کو گائے بنا دیا گیا اور میڈیا کا ایک حصہ گئو رکشکوں کے غول میں تبدیل ہوگیا ہے۔ مودی نے 80 فصد گئو رکشکوں کو فرضی، نقلی اور سماج دشمن عناصر بتایا تھا، اس طرح میڈیا میں موجود راشٹر واد کے رکشکوں میں 80  فیصد نقلی اور فرضی ہیں۔ کبھی فوج کی چلمن میں تو کبھی پاکستان کا سہارا لے کر، کبھی یعقوب میمن کی آڑ میں، کبھی وانی کے بہانے، وہ صرف مسلمانوں کو ہی گالیاں نہیں دیتا ہے اب تو میڈیاکا سرکار نواز راشٹر بھگت طبقہ سرکارمخالف میڈیا دوستوں کو دلال، چور اچکا اور دیش دروہی ثابت کرنے میں لگ گیا ہے۔ غیر جانبدار میڈیا کا دائرہ تنگ کیا جارہا ہے۔ سیاستدانوں، افسران اور کارپوریٹ کے مثلث نے میڈیا کو یرغمال بنا لیا ہے۔ ان کی تھاپ پر تال بھری سے پہاڑی راگ تک گانے کے لئے تیار ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں کیاہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ اپنا موقف مضبوطی سے رکھنے کے لئے کانفرنسوں، قرار دادوں اور ریس ریلیزوں کے علاوہ اور کچھ قدم اٹھائیں یا نہیں۔ میڈیا کے بغیر حقوق کی جنگ لڑی جا سکتی ہے؟ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے یا عزم و ارادے کی؟ میڈیا ٹرائل کا کوئی جواب ہے، جواب تیار کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا ہے یا ٹھنڈی سانسیں لے کر ہم کیا کر سکتے کا ورد کافی ہے؟ ماضی میں انگریزی اخبار نکالنے کی ملک گیر مہم چلائی گئی تھی جس کا عوام نے پرجوش خیر مقدم کیا تھا، مگر وہ آرزو شرمندہ تعبیر نہیںہو سکی، لیکن آج کے حالات میں ایسی غلطی، سستی اور لاپروائی کاخمیازہ ہم بھگت رہے ہیں اور آنے والی نسلیں بھی بھگتیں گی۔ ذرائع ابلاغ میں موجودگی اور اپنے وجود کا احساس دلانا اتنا ہی اہم ہے جتنا دینی تعلیم کا حصول، مسجدو ومدرسہ کی تعمیر، اسلام نے ہر دور کے ذرائع ابلاغ کو شرف بہ اسلام کیا اور موجودہ وسائل سے بھرپور استفادہ کیا۔ اگرکروٹ بدل بدل کر سوتے رہے تو میڈیا ٹرائل ہوتا رہے گا۔ اسلام اور مسلمانوں پر انگلی اٹھتی رہے گی۔ تشخص پر سوالیہ نشان لگایا جاتا رہے گا۔ اس عمل کا رد عمل صرف اور صرف میڈیا ہے۔ اس سے زیادہ شرم اور افسوس کا مقام اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہم اردو تک میں کوئی قابل بھروسہ اخبار نہیں رکھتے، دیگر زبانوں کی بات تو جانے دیں۔ الیکٹرانک میڈیا کی بات کون کرے۔ ایسا نہیں کہ وسائل کی کمی ہے، اصحاب خیر ہیں اور باصلاحیت اذہان بھی، بس ان دانوںکو سمیٹ کر تسبیح بنانے کی دیر ہے۔ ہمارے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہے سوائے زنجیروں کے۔ کیا کوئی پہلا قدم اٹھانے کو تیار ہے۔(ملت ٹائمز)

qasimsyed2008@gmail.com