قاسم سید
کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ آتش بار تقریروں، جذبات سے کھیلنے اور خیالی رزم گاہ میں کشتوں کے پشتے لگانے کی روش ترک کرکے ٹھنڈے دل و دماغ سے مسائل کو سمجھنے، ان کی تہہ تک جانے اور حالات کو سازگار بنانے کی کوشش کی جائے، جوش پر ہوش کو ترجیح دی جائے، مسلکی تنازعات کو دشمنی کی حد تک نبھانے اور ایک دوسرے کی گردن اتارنے کے درپے ہونے کی دیوانگی سے احتراز کیا جائے، عقل و خرد اور حکمت و دانائی کی دولت بے بہا سے سرفراز ہونے کے باوجود محض انانیت اور ضد کے سبب زندگی کو اپنے لئے بوجھل بنالیا جائے، یہ کہاں کی دانش مندی ہے۔
معروف اسلامی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائک پر دہشت گردی پر اکسانے، مذہبی منافرت پھیلانے اور دھرم پریورتن کے لئے مالی ترغیب دینے کے الزامات کے پس منظر میں میڈیا ٹرائل کے بعد لگتا ہے کہ اب سرکار ان کے خلاف کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اگر میڈیا میں آنے والی خبروں پر یقین کرلیا جائے تو شاید جلد ہی یواے پی اے کے تحت نائک اور ان کی این جی او اسلامک ریسرچ فائونڈیشن پر قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ وزارت قانون نے وزارت داخلہ کو مشورہ دیا ہے کہ نائک کے خلاف مطلوبہ ثبوت موجود ہیں، ان کی آئیڈیالوجی ہندوستان کے تکثیری معاشرہ اور سیکولر سماجی ڈھانچہ کے لئے تباہ کن ہے، ان پر انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کی تقاریر مذہبی منافرت پھیلانے کا باعث بن رہی ہیں اور تاحال 50مسلم نوجوان ان کی تقریروں سے متاثر ہوکر آئی ایس کی طرف راغب ہوچکے ہیں، جبکہ آئی آر ایف کا مالیاتی ریکارڈ تو صاف ہے، اس نے ایف سی آر اے کی خلاف ورزی نہیں کی ہے مگر اسے یواے پی اے کے تحت ممنوع قرار دینے پر غور ہورہا ہے۔ سرکار کا یہ حق اور فرض ہے کہ وہ سماج میں ہونے والی تخریبی سرگرمیوں پر نظر رکھے، ان کی بیخ کنی کرے اور وہ تمام قانونی اختیارات استعمال کرے جو اسے اقتدار نے بخشے ہیں۔ سرکار کی نیت اور پالیسی انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہو تو عوام کے اندر اس کے تئیں اعتماد بڑھتا ہے، جبکہ دوسری صورت میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جس کی طرف ہندوستان کے دورے پر آئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اشارہ کیا اور امریکی صدر براک اوبامہ ایک سے زائد مرتبہ عدم رواداری کے بڑھتے ماحول کے پس منظر میں ارباب اقتدار کو متنبہ کرچکے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائک پر جو الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں وہ ان کی تردید کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے بعض چینلوں پر جن میں ٹائمز نائو بھی ہے، ہتک عزت کا مقدمہ بھی دائر کیا ہے۔ ان کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے اوپر عائد الزامات کا جواب دیں اور اگر مقدمہ قائم ہوتا ہے تو اس کا سامنا کریں۔ ہندوستانی عدلیہ اور قانون کی عملداری پر سب کا بھروسہ ہے اور امید کی جانی چاہئے کہ نائک بھی ان میں شامل ہیں۔ اگر انھوں نے غلطی کی ہے تو سزا بھگتیں گے، الزام ثابت نہ ہونے پر عدلیہ باعزت بری کردے گی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ میڈیا ٹرائل کے ذریعہ نائک کو ویلن بناکر پیش کیا گیا ہے، اس میں کتنی سچائی ہے۔ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ میڈیا کے ایک بڑے حصہ نے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے، ان کی حب الوطنی پر انگلی اٹھانے کی سپاری لے رکھی ہے۔ وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتا۔ جہاں اسے کیچڑ اچھالنے کا موقع ملے اور رائی کا پہاڑ بنائے، جبکہ ایسے ہی ہزاروں معاملوں میں چپ شاہ کا روزہ رکھ لیتا ہے اور منھ میں دہی جمالیتا ہے۔ نہ جانے کتنے پروچن ہیں جن کا ہدف ہی مسلمان ہوتے ہیں، مگر ان پر کوئی گرفت نہیں کی جاتی۔ بدقسمتی سے حکومت بھی آنکھیں چرالیتی ہے جس سے تخریب پسند عناصر کو شہ ملتی ہے۔ اس کی پوری سیریز ہے۔ اونا میں دلتوں کی بغاوت بتاتی ہے کہ پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ نہ جانے کتنے اونا ہوچکے ہیں۔ کسی پارٹی کو ہوش نہیں اور مسلم جماعتوں کا زیادہ زور ہندو مسلم یکجہتی پر ہے۔ سرکار کا اقلیتوں کے ساتھ رویہ کھلا راز ہے، اس پر بحث کی گنجائش نہیں ہے، مگر ہمیں ایسے معاملات پر اپنے رویہ پر غور کرنے اور اس کا صدق دلی سے احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کو بہرحال ’مبارکباد‘ دی جانی چاہئے جنھوں نے نائک کو دہشت گرد ثابت کرنے، ملک دشمن کے طور پر پیش کرنے اور قوم کے لئے خطرناک ثابت کرنے کے لئے پوری طاقت جھونک دی۔ ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے سرکار کو میمورنڈم ارسال کئے، مطالباتی مکتوب تحریر کئے اور دھرنے و مظاہرے کئے۔ شاید حب الوطنی کے اظہار کا اس سے بہتر موقع نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ حضرات بھی ’دادودہش‘ کے مستحق ہیں جنھوں نے مسلکی منافرت کی غلاظت انڈیلنے کا سنہری موقع جانا۔ نائک کی آڑ لے کر ایسے تیر چلائے جن سے جگر چھلنی ہوگیا اور وحدت امت کا تصور لرزکر رہ گیا۔ کارپوریٹ جرنلزم نے سارے کپڑے اتار دیئے اور برہنہ ہوکر ابلیسی رقص کیا۔ یقیناً وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور آگے بھی یہ مہم جاری رہے گی۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ذاکر نائک کے ساتھ جو ہونا ہے وہ تو ہوگا لیکن خدا کا شکر یہ ہے کہ بہت سے چہرے بے نقاب ہوگئے، جن کے بارے میں پہلے بھی واقفیت تھی۔ ان کی تنگ دلی، تنگ نظری اور منافرت کے اظہار کا پہلا موقع نہیں ہے۔ بغلی گھونسوں نے پہلے بھی نقصان پہنچایا ہے اور آج بھی خنجر پر دھار تیز کئے اہداف تلاش کررہے ہیں۔ ذاکر نائک کی تقاریر منافرت پیدا کرتی ہیں، مذہبی مناقشات کو جنم دیتی ہیں تو ان کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہئے۔ ان کی این جی او نے خلاف قانون کام کیا ہے تو اس کی مشکیں ضرور کسنی چاہئیں تاکہ دوسروں کو بھی عبرت ہو۔
یہ جاننے کے باوجود کہ میڈیا ٹرائل نے سیکڑوں گھر برباد کردیے ہیں، متعدد نوجوانوں کی جوانیاں آہنی سلاخوں میں پگھل گئیں اور جب وہ باعزت باہر نکلے تو سر میں سفیدی اتر چکی تھی، صرف ہاتھ بدلتے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ذاکر نائک بھی بے قصور ثابت ہوئے تو کیا انھیں بدنام کرنے اور کیچڑ اچھالنے والے معافی مانگیں گے۔ داعش کے نام پر نوجوانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے کیا وہ تشویش کا باعث نہیں؟ کیا اس پر سر جوڑکر بیٹھنے کی ضرورت نہیں؟ کیا غیرقانونی حراستوں کے حوالہ سے ٹھوس تدابیرحالات کا تقاضہ نہیں۔ ذاکر نائک تو ایک علامت ہے، کل اور کوئی نام ہوسکتا ہے۔ علما کو یہ سوچنا پڑے گا کہ کیا وہ فقہی کتابوں سے کتاب الجہاد نکال دیں۔ قرآن و حدیث میں جہاد سے متعلق فرامین ہیں، ان کی کیا توضیحات کی جائے گی؟ جو کتابیں تحریر کی گئی تھیں ان کا جواز کیا پیش کیا جائے گا؟ یہ صحیح ہے کہ موجودہ دور میں جہاد لفظ کو نعوذباللہ گالی بنادیا گیا ہے اور اسلام کو بدنام کرنے کا حیلہ بن گیا ہے، کیا اس کا نام لینا بھی بند کردیں گے؟ اسلام کو برتر اور سب سے اچھا مذہب بتانا بھی دوسرے مذاہب کی توہین کے زمرہ میں آگیا ہے تو کیا اسلام کا یہ پہلو نمایاں کرنے کے بارے میں احتیاط سے کام لیا جائے گا؟ کیا اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا انداز بدلنا پڑے گا؟ کیا ذہن سازی کے طریقوں میں تبدیلی لانی چاہئے؟ کون سا عالم ہے جو اسلام کو آفاقی مذہب کہنے کے ساتھ اسلام قبول کرنے اور اس کی آغوش میں آنے کی ترغیب و تعلیم نہیں دیتا تو کیا اب جبکہ یہ بھی جرم کے دائرے میں آسکتا ہے تو نصاب کو بھی بدلنا پڑے گا، جو مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔ ایسے بہت سے سوالات ہیں جو نائک کے معاملہ سے پیدا ہوں گے۔ موجودہ حکومت کا رخ تو ایک چیلنج ہے ہی، مسلمانوں کا رویہ بھی تشویشناک ہے۔ پتہ نہیں کیوں علمائے کرام اور قائدین عظام اس کی حساسیت اور نزاکت کو محسوس نہیں کررہے ہیں یا جان بوجھ کر نظرانداز کررہے ہیں۔ نائک کے معاملہ میں مسلکی منافرت نے بھرپور کام کیا ہے اور آگے بھی اس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کئے جانے کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ جو لوگ مسلک کی توسیع و اشاعت اور اس کی برتری کو ہی اسلام کی خدمت سمجھتے ہیں وہ تو قابل معافی ہیں، انھیں آسانی کے ساتھ چارہ بنالیا جاتا ہے، آگے بھی بنایا جائے گا۔ بعض طاقتیں ہندوستان میں بھی پاکستان کے حالات پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ ہندوستان اب تک مسلکی خانہ جنگی کی لعنت سے محفوظ ہے۔ اگر مسلمان کے جسد خاکی سے اخوت و یگانگت اور صبر و تحمل کا لہو کشید کرلیا گیا تو پھر بچے گا کیا۔ نہیں معلوم کتنے نائک کو زیر منقار لانے کا فیصلہ ہوچکا ہو۔ علمائے کرام کو مصلحت کی ردا اتارکر میدان عمل میں آنا ہوگا۔ سیاست بڑی بے رحم ہوتی ہے، وہ کسی کی دوست نہیں ہوتی۔ جب تک اس حقیقت سے آشنا ہوں گے، بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ صبر آزما اور دل شکن حالات ضرور ہیں مگر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔(ملت ٹائمز)
qasimsyed2008@gmail.com