ترک یونانی سرحد پر پولیس کی کاروائی۔ ترکی کا شدید ردعمل

ترک يونان سرحد پر يونانی پوليس نے بروز بدھ چار مارچ کو مہاجرين کے خلاف تازہ کارروائی کی ہے۔ تقريباً پندرہ ہزار تارکين وطن زمينی راستے سے يونان ميں داخل ہونے کی کوششوں ميں ہيں جب کہ ايتھنز حکومت انہيں روکنے کے ليے پر عزم ہے۔
ترکی اور يونان کی سرحد پر کشيدگی برقرار ہے۔ ہزاروں کی تعداد ميں مہاجرين کا يونان ميں زمينی راستے سے داخلہ روکنے کے ليے پوليس نے آنسو گيس اور ’اسٹن گرينيڈ‘ استعمال کيے۔ يہ ايسے دستی بم ہوتے ہيں، جو متاثرين کو زخمی تو نہيں کرتے تاہم کچھ دير کے ليے آس پاس موجود افراد حواس کھو بيٹھتے ہيں۔ خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس کی رپورٹوں کے مطابق تارکين وطن اور يونانی پوليس کے درميان يہ تازہ تصادم بدھ چار مارچ کو کاستانيس نامی ديہات کے پاس سرحدی باڑ پر ہوا۔ تارکين وطن يونان کے راستے يورپ ميں داخل ہونے کی کوشش ميں تھے جبکہ يونانی حکام نے انہيں روکنے کے ليے کارروائی کی۔
ترک صدر رجب طيب ايردوآن نے گزشتہ ہفتے يہ اعلان کيا تھا کہ يونان جانے والے مہاجرين کو نہيں روکا جائے گا۔ ان کے اس اعلان کے بعد اور شامی صوبے ادلب ميں روسی حمايت يافتہ شامی دستوں کی تازہ کارروائيوں کے تناظر ميں ترک يونان سرحد پر ہزاروں کی تعداد ميں تارکين وطن جمع ہونا شروع ہو گئے۔ دريں اثناء بحيرہ ايجبيئن کے راستے بھی ہجرت ميں اضافہ نوٹ کيا گيا ہے۔ اسی ہفتے ايک کشتی ڈوبنے کے باعث يونانی جزيرے ليسبوس پر ايک بچہ ہلاک بھی ہو گيا تھا۔ يونانی حکومت نے صورت حال کو قومی سلامتی کے ليے خطرہ قرار ديا ہے اور مہاجرين کا داخلہ روکنے کے ليے ہنگامی بنيادوں پر کارروائياں شروع کر رکھی ہيں۔
دوسری جانب ترکی کا الزام ہے کہ يونانی حکام مہاجرين کے ساتھ بدسلوکی کر رہے ہيں۔ ترک صدارتی دفتر کے  مطابق ‘جس ملک نے مہاجرين کے ليے پروٹيکشن کا درجہ معطل کر ديا اور تارکين وطن پر آنسو گيس کے شيل برسائے، وہ اخلاقی طور پر بات کرنے کا حقدار نہيں۔‘
ترکی اور يونان کی سرحد پر پيدا ہونے والی صورت حال پر تبادلۂ خيال کے ليے يورپی يونين کے نائب صدر جوزف بوريل اور کمشنر برائے کرائسس مينجمنٹ يانير لينارکک بدھ کو انقرہ ميں ترک نائب صدر سے مل رہے ہيں۔ يورپی يونين کی اعلی قيادت نے منگل کو سرحدی علاقے کا دورہ کيا تھا۔