نمازکی اہمیت

عرفان ا لحق
یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہر مسلمان کو کچھ نہ کچھ اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہیے، کیونکہ اس میں ایسی کوئی technical چیز involve نہیں ہے کہ بندہ یہ سمجھے کہ میں اس پر بات نہیں کر سکتا۔ جتنے بھی قرآن میں احکامات ہیں۔۔۔۔۔۔۔ احکامات کی حد تک سب سے زیادہ زور رب العزت نے اِس پر دیا اور رسولِ اکرممنﷺے اپنا گھر تو تعمیر نہ فرمایا مگر مسجدیں آپﷺنے تعمیر فرمائیں اور اپنے دستِ مبارک سے تعمیر فرمائیں۔ اُن کا گارہ بھی اُٹھایا، پتھر بھی ڈھوئے۔ نماز کے بارے میں احکامات سے قرآن بھرا پڑا ہے اور کم و بیش 370 مرتبہ مختلف جگہوں پہ اس کا ذکر آیا ہے۔
ایک بات بڑی ضروری ہے جو اکثر لوگوں کے ذہنوں میں آتی ہے اور یہ بڑی important بات ہے کہ کیا ظاہرہ آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ممکن ہے؟ یہ بہت بنیادی بات ہے۔ قرآنِ حکیم اس پر گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کوئی ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا ہے۔ یہ جو ہماری ظاہری بصارت ہے، یہ ظاہری چیزوں کو دیکھنے کے لیے ہے مگر اللہ تعالیٰ کی شان تو ہر جگہ ظاہر ہے، اُسی کا نور ہے، یہ جو بکھرا ہوا ہے اور یہ ساری کائنات اسی کا پرتو ہے مگر پروردگارِعالم واحد ہستی ہے جو سب سے زیادہ پردے میں ہے۔ اِسی لیے رب العزت کو باطنی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے کہ جیسے آپ خواب دیکھتے ہیں۔ آپ کی آنکھیں تو بند ہوتی ہیں، آپ سوئے ہوئے ہیں مگر پیغمبروں کے خوابوں کو سچے خواب قرار دیا گیا اور بہت سے پیغامات پیغمبروں کو خواب کے عالم میں ہی ملتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے یا اُن کی قربانی پیش کرنے کا حکم ملا تو وہ بھی خواب میں ہی آپ کو order ملا۔ خواب کی اتنی اہمیت ہے کہ رسولِ اکرممﷺنے سچے خواب کو نبوت کا چھیالیسواں (46) حصہ قرار دیا۔ تو جو بھی باطنی چیز آپ دیکھیں۔۔۔۔۔۔۔ باطنی چیز وہ ہے جو ظاہراََ آپ کو نظر نہیں آتی، اس کو باطنی آنکھ سے دیکھیں گے۔ پیغمبروں کی تو خیر بہت ہی روشن ہوتی ہے، اولیاء اللہ کی بھی روشن ہوتی ہے جو ہمارے اندر کی باطنی روشنی کو جِلا بخشتے ہیں۔ وہ جس کو ہم کہتے ہیں صاحبِ بصیرت اور رسولِ پاک ﷺنے فرمایا ہے کہ ’’مومن سے ڈرو کہ مومن اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھنا یہ ہے کہ اس کے اندر کی آنکھ کی روشنی ہوتی ہے۔ اُن کو نورِ بصیرت میسر ہے تو یقیناًان کی بات درُست ہوتی ہے کہ ظاہری آنکھ سے ایسا نہیں ہوتا مگر پروردگارِعالم جب اپنے جلوے دکھاتا ہے، عنایات کرتا ہے تو باطنی آنکھ سے انسان دیکھتا ہے۔
جب شعبِ ابی طالب میں آپ ﷺاور مسلمان تین سال تک محصور رہے اور بڑی دقتیں، بڑی اُلجھنیں اور بڑی پریشانیاں شدت سے اُٹھانی پڑیں اور جس سال اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو معراج پہ بلایا، اُسی سال آپﷺ کے چچا ابو طالب کا انتقال ہوا، جو کہ آپﷺ کے لیے بہت بڑی سیاسی پناہ گاہ تھے کیونکہ وہ اس وقت بنو ہاشم کے سردار تھے۔ یہ شدید صدمہ تھا اور ان کی جگہ وہ دشمن آگیا جسے آپ ﷺکا نام لینا بھی گوارا نہیں تھا، ابولہب۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی آپ ﷺکا چچا تھا۔ اس کو سردارِ بنو ہاشم چُن لیا گیا، انتہائی ملول ہونے کی بات تھی، غمگین ہونے کی بات تھی۔
دوسری طرف تھوڑے سے وقفے کے بعد حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوا۔ تو یہ دوسرا صدمہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ آپ ﷺ کی ڈھارس کے لیے، بہترین مشورے کے لیے اور مالی معاونت کے لیے حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وجود بڑی غنیمت تھا۔ یہ غم کا سال ہو گیا۔ تو جب پروردگارِعالم نے محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ کے حبیب ﷺ غم زدہ ہو چلے ہیں تو پروردگارِعالم نے آپﷺ کو اپنے پاس بلایا۔ تو جسے اللہ تعالیٰ مل جائے، اللہ تعالیٰ اپنے پاس بلا لے، اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہو جائے، اُسے کون سا غم باقی رہ سکتا تھا؟ پروردگارِعالم نے پہلا انعام یہ فرمایا کہ اپنے حبیبﷺکو اپنے پاس بلایا اور دوسری چیز کہ نماز کا تحفہ عطا فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ کے حبیب ﷺوہاں تشریف لے گئے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پروردگارِعالم کو کوئی دیکھے اور اس کی ہیبت اور اس کا جلال و جمال اس کو مغلوب نہ کر دے۔ اُسی وقت سجدے میں گر گئے کملی والےﷺ، جب اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اُس نے آپA کی اُمت پر فرض کر دیا سجدے کو۔ بات یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے فرض کر دیا اُمتِ مسلمہ پر اس سجدے کو، اتنی ادا پسند آئی اور پھر کملی والے ﷺنے فرمایا کہ ’’نماز مومن کی معراج ہے۔‘‘ تو معراج کیا ہوئی؟ یہ تب فرمایا کملی والےﷺ نے۔۔۔۔۔۔ اس کائنات کے perfect ترین انسان نے فرمایا ، اُس سچے ترین انسان نے فرمایا، اُس ذہین ترین انسان نے فرمایا، اُس مکمل ترین انسان نے فرمایا کہ ’’نماز مومن کی معراج ہے۔‘‘ اس لیے کہ آپ ﷺنے یہ نماز معراج پہ ادا فرمائی۔ اور معراج یہ ہے کہ جب بندہ اپنے رب کو دیکھے ۔۔۔۔۔۔، اسی کو مومن کی معراج فرمایا۔ تو پہلی بات یہ ہے کہ نماز میں معراج مومن کو نصیب ہو گی، مسلمان کو نہیں اور جب تک آپ لوگ مسلمان سے مومن تک ترقی نہیں کریں گے، آپ معراج کو نہیں پا سکتے۔ یہ بات سمجھ لیں۔
تو یہ کب فرمایا کملی والےﷺ نے کہ جب آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔ تو اب دیکھیں پروردگارِعالم کی کمال مہربانیاں کہ کتنا بڑا gift اپنے دیدار کا نہ صرف اس نے اپنے حبیبﷺکو دیا بلکہ آپ ﷺکی اُمت کو بھی نواز دیا کہ جو اِس شوق کے ساتھ نماز پڑھے گا اُسے دیدارِالٰہی نصیب ہو گا اور معراج نصیب ہو گی جب وہ مومن بنے گا۔ بقول علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
؂ شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
نمازیں پڑھتے ہو، بے جان قسم کی نمازیں جن میں شوق ہی نہیں ہوتا، لگن ہی نہیں ہوتی۔ اور اگر تمہیں یہ پتا ہو کہ میں سجدے میں جاؤں گا تو اللہ تعالیٰ کو دیکھوں گا تو کہاں پہنچو گے، کون سی نماز پڑھو گے۔۔۔۔۔! تمہاری نمازیں بدل جائیں گی، تمہارے سجدے بدل جائیں گے اور کملی والے ﷺ کیا فرما رہے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو جیسا کہ تم اللہ تعالیٰ کو دیکھتے ہو۔‘‘ یہ فلسفہ ہے۔ معراج کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کو دیکھنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے حبیب ﷺ نے فرمایا کہ ’’تم اِس طرح نمازیں پڑھو، اِس طرح عبادت کرو جیسے اللہ تعالیٰ کو دیکھتے ہو ورنہ وہ تو تمہیں دیکھتا ہی ہے۔‘‘ اب ہماری نمازیں رُوح کے بغیر، شوق سے خالی، لگن سے خالی، دیدارِ الٰہی سے ہم نااُمید ہیں۔ یہ فلسفہ دے دیا گیا کہ دُنیا میں کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا حالانکہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے، البتہ بصیرت درکار ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں یہ شوق عطا فرمائے کہ ہم معراج حاصل کریں اور نماز کو سمجھیں، اس کو انعامِ الٰہی سمجھیں۔ جب تک بوجھ سمجھ کے ادا کرتے رہو گے تو تمہیں وسوسے آتے رہیں گے، شیطان کبھی تمہارا دھیان اولاد کی طرف لے جائے گا، کبھی بیوی کی طرف لے جائے گا، کبھی کاروبار کی طرف لے جائے گا، کبھی حکومت کی طرف لے جائے گا، کبھی دفتر کی طرف لے جائے۔ شیطان تمہیں بھگاتا پھرے گا مگر جس کو معراج حاصل ہو رہی ہو، وہاں شیطان حائل ہی نہیں ہو سکتا۔
اگر یہ تمہارے ذہن میں آگیا کہ میں تو سجدہ کر رہا ہوں، مجھے تو رب نظر آئے گا۔۔۔۔۔۔ تمہارا یقین اِس بات پہ مکمل ہو گیا، ٹھہر گیا، پختہ ہو گیا تو ناممکن ہے کہ اُس منزل تک نہ پہنچو، کیونکہ اس کے لیے تم پھر تیاری کرو گے۔ اپنے اندر کے کھوٹ نکال دو گے، مال کی محبت کو نکال دو گے، طعام کی محبت کو نکال دو گے، جھوٹی اَنا کو نکال دو گے، نفرت کو نکال دو گے، حسد کو نکال دو گے، تب پہنچو گے مومن کے درجے پر، اور مومن مکمل ایمان رکھنے والے کو کہتے ہیں کہ جس کو یہ بھروسہ ہو کہ جو اللہ تعالیٰ نے کہا، اللہ تعالیٰ ویسا ہی کرتا ہے، عملاََ بھروسہ ہو۔ ہم اللہ تعالیٰ کو مانتے ضرور ہیں لیکن عملاََ اللہ تعالیٰ پہ بھروسہ نہیں ہوتا۔ اگر عملاََ اللہ تعالیٰ پہ بھروسہ ہو جائے تو ہم چالاکی کر ہی نہیں سکتے، غیبت کر ہی نہیں سکتے، کسی کے مال کو چُرا نہیں سکتے، ہتھیا نہیں سکتے، کسی کی جگہ پہ قبضہ نہیں کر سکتے۔ یہ سارے کام automatically چھوڑ دیں گے۔ اس لیے کہ ہمیں پتا ہے کہ جو میرا حصہ میرے اللہ تعالیٰ نے عزت کا مقرر کر دیا ہے، صحت کا مقرر کر دیا ہے، زندگی کا مقرر کر دیا ہے، مال کا مقرر کر دیا ہے وہ میرے مالک نے مجھے دینا ہے۔ میں مسلمان، مومن اور درویش کے فرق کو بہت آسان طریقے سے سمجھایا کرتا ہوں کہ مسلمان وہ ہے جو عدل کے زُمرے میں زندگی گزارتا ہے۔ جو اس کا حق ہے، جو اس نے کسی سے لینا ہے، اُس سے لیتا ہے اور جس کا دینا ہے، اُسے دیتا ہے مگر مومن وہ ہوتا ہے جو احسان کے زُمرے میں زندگی گزارتا ہے۔ دوسروں کو ان کے حقوق سے زیادہ دیتا ہے، بڑھ کر دیتا ہے، عبادت بھی بڑھ کر کرتا ہے، شوق میں کرتا ہے۔ اور درویش وہ ہوتا ہے جو اپنا بھی سارا لُٹا دیتا ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کر کے دکھایا۔ ان great لوگوں نے یہ کر کے دکھایا کہ ایک شخص مسجد میں آیا، وہ بھوکا تھا اور دوسرا نمازی جو وہاں بیٹھا ہوا عبادت میں مصروف تھا، اس سے کہنے لگا یہاں کھانے کا کوئی بندوبست ہے؟ اس نے کہا فلاں جگہ پہ چلا جا، وہاں لنگر تقسیم ہو رہا ہے۔ وہ گیا، اس نے کھانا کھایا۔ اُس نے کہا کہ ایک نمازی اور بیٹھا ہوا ہے مسجد میں، وہ بھی بھوکا ہے، اس کے لیے بھی دیں۔ انہوں نے کہا کہ کس شکل کا ہے؟ اس نے ان کی شکل بتائی تو انہوں نے کہا یہ اُسی کا لنگر چل رہا ہے۔ تو وہ کس کا لنگر چل رہا تھا۔۔۔۔۔۔؟ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا۔ تو شوق تو پھر یہاں پہنچاتا ہے اور جو کر کے دکھاتے ہیں وہ ہیں مومن کے درجے سے آگے کے لوگ۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی معراج نصیب ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ نماز کیا ہے۔
بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم نماز کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ نماز بوجھ نہیں ہے، دیدارِ الٰہی کی تربیت اور دیدارِ الٰہی کا سبب ہے۔ جب آپ شوق میں کریں گے، اس انداز سے کریں گے تو آپ کو اللہ تعالیٰ ملے گا، اللہ تعالیٰ نظر آئے گا۔ اللہ تعالیٰ تو خود کہتا ہے کہ ’’لوگو! جیسا گمان مجھ سے رکھو گے، ویسا ہی پورا کروں گا۔‘‘ اگر میں اللہ تعالیٰ سے یہ گمان رکھ لوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے نظر نہیں آئے گا تو ہرگز نظر نہیں آئے گا۔ اور اگر میں اللہ تعالیٰ سے یہ گمان کروں کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھوں گا تو ضرور دیکھوں گا۔ اللہ تعالیٰ تو گمان پورا کرنے والا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو اعلیٰ ظرف ہے، اللہ تعالیٰ سے بڑھ کے اعلیٰ ظرف کوئی نہیں۔ ہم گھٹیا کام کرتے ہیں، مانگتے ہیں تو کم مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ سے، ڈر ڈر کے مانگتے ہیں، تھوڑا مانگتے ہیں کیونکہ اسباب کو دیکھتے ہیں۔ ہم اسباب کے حوالے سے اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں۔ ہمیں تو یہ ہی یقین نہیں کہ وہ کائنات کا مالک ہے۔ تھوڑا تھوڑا مانگتے ہیں کہ کہیں اللہ تعالیٰ ناراض ہی نہ ہو جائے زیادہ مانگنے سے۔ ایک تو ذہن سے یہ کھرچ دیں کہ نماز بوجھ ہے۔ نماز بوجھ نہیں ہے بلکہ معراج ہے مومن کی۔
ایک بات اور سمجھنے کی ہے، جو بہت ضروری ہے۔ جب ہمارا بندہ فوت ہو جاتا ہے تو فوراََ ہم کہتے ہیں اس کو دفنا دو، لے جاؤ اس کو اُٹھا کے اور قبرستان میں مٹی کے سپرد کر دو۔ ہوتا کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟ اس کا سر، بال، آنکھیں، ہونٹ، دانت، کان، ہاتھ، پیر، جسم سارا ویسا کا ویسا ہوتا ہے۔ بھئی! اس میں کیا نقص ہو گیا؟ یہ مکمل ہے ویسے کا ویسا، کیوں دفنانے جا رہے ہو؟ اس لیے کہ اُس کے اندر سے رُوح نکل گئی۔ بھئی نمازیں پڑھتے ہو رُوح کے بغیر تو کیا تمہاری نمازیں دفنانے کے قابل نہیں ہیں۔ کبھی سوچا ہے اس بات کو کہ تم کون سی نمازیں ادا کر رہے ہو؟ پھر کہتے ہو ہماری دُعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ بھئی مردہ نمازیں جن میں روح ہی موجود نہیں، وہ تو دفنانے کے قابل ہیں۔ نماز کی روح تو ہے خشوع و خضوع۔ ہم کہتے ہیں کہ نمازوں کی ادائیگی اور پابندی کے باوجود results نہیں آ رہے۔ بھئی! results کہاں سے آئیں گے، مردے کیا results دیں گے، جب تک ان میں جان نہیں ڈالو گے۔ تو جان اس کی خشوع و خضوع ہے۔۔۔۔۔۔ تمہیں یہ یقین ہو کہ تم اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے، تمہیں یہ یقین ہو کہ تمہیں اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے تو تب تمہاری نمازیں results دیں گی، تمہارے اندر تبدیلی آئے گی، تمہارے باہر تبدیلی آئے گی، تمہاری مملکت میں تبدیلی آئے گی، پوری کائنات کو تم بدل دو گے کیونکہ کملی والےA نے اس کو معراج فرمایا ہے، مومن کی معراج فرمایا ہے، جنت کی کنجی فرمایا ہے، دین کا ستون فرمایا ہے۔ جب ہماری نمازیں مردہ تو دین کا ستون کمزور ہو گیا۔ دین کیسے مضبوط رہ سکتا ہے، مسلمانوں کو دنیا میں کیسے عزت مل سکتی ہے، توقیر کیسے نصیب ہو سکتی ہے انہیں، اُن کی ہیبت کہاں قائم رہ سکتی ہے؟ کیونکہ تمہارا تو pillar ہی کمزور ہو گیا۔ دین کا ستون ہے نماز۔۔۔۔۔۔۔ جب تم مردہ نمازیں اُٹھائے پھر رہے ہو تو مردے کی دُنیا میں کون عزت کرتا ہے، کون احترام کرتا ہے؟ مردے کو تو دفنایا جاتا ہے۔ تو تمہاری نمازیں تو دفنانے کے قابل ہیں۔ تو ان نمازوں کے ساتھ جب دین کا ستون ہی تمہارا کمزور رہے تو تمہارے دین کی وقعت کیا ہے دُنیا میں؟ یہودیوں نے تمہیں اپنا آلۂ کار بنایا ہوا ہے۔ انتہائی نحیف اور کمزور ہو تم اس لیے کہ تم نے بنیاد خراب کر دی۔ جو تحفہ اللہ تعالیٰ نے دیا، اس کو بوجھ سمجھا اور جو کسی بڑے عظیم power کے، عظیم قوت کے تحفوں کے ساتھ ایسا سلوک کرے تو وہ قوت اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گی؟ تو جب اللہ تعالیٰ کے تحفے کے ساتھ یہ سلوک ہے تو اللہ تعالیٰ سے کس سلوک کی توقع کرتے ہو؟ کیا چاہتے ہو کہ تمہارے ساتھ رعایت کرے گا، تمہارے ساتھ محبت کو جاری رکھے گا؟ اس کی یہ کمال مہربانی ہے کہ تمہاری شکلیں نہیں بگاڑ دیں اس نے۔ اس کی یہ کمال مہربانی ہے کہ تمہارے کھیتوں میں فصلیں اُگ رہی ہیں۔ اس کی یہ کمال مہربانی ہے کہ تمہاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں، بیٹوں اور بیٹیوں کو جنم دے رہی ہیں۔
نماز تو دین کا ستون ہے، بنیاد ہے مگر بدقسمتی یہ ہے ہم نے اس کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ آپ سوچیں ذرا۔۔۔۔۔۔ اس بات کو آگے بڑھا لیتے ہیں کہ جب آپ رکوع میں جاتے ہیں اور جب رکوع سے اُٹھتے ہیں تو کیا پڑھتے ہیں۔ سمع اللّٰہٗ لمن حمدہ کیا مطلب ہے اس کا؟ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اے بندے! تیری بات سن لی۔ وہ خود کہہ رہا ہے، تم سے کہلوا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تیری بات سن لی اور جب تجھے یہ بتا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تیری بات سن لی تو اللہ تعالیٰ تو مقروض رہنے کا عادی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ تو کبھی ایسا نہیں کرتا کہ تم اُسے پکارو اور جواب نہ دے۔ یہ تو ناممکن سی بات ہے۔ تو پھر تمہیں سجدے میں لے جاتا ہے کیونکہ جواب سجدے میں دیتا ہے۔ تمہیں سجدے میں لے جاتا ہے کیونکہ تھوڑا سا پردہ دار ہے۔۔۔۔۔۔۔ کیا نہیں ہے؟ تو وہاں تم سے سبحان ربی الاعلیٰ کہلواتا ہے کہ اپنی عظمت کا اِقرار تم سے کراتا ہے، بڑائی کا، عروج کا اس لیے کہ معراج بھی عروج ہی کا دوسرا نام ہے۔ بلندیوں پہ چلے جانے کا نام ہی معراج ہے۔ اُس وقت وہ جواب دیتا ہے کہ جب تم یہ اِقرار کر لیتے ہو کہ اعلیٰ ظرف تُو ہے۔ مجھ سا گھٹیا اور مجھ سا بُرا اور مجھ سا عاجز کوئی نہیں ہے اور پھر وہ اپنا دیدار کراتا ہے اور تمہیں وہ معراج نصیب کرتا ہے۔ تو جب سجدے میں جاتے ہو اور اُس کی بزرگی اور برتری کا اعلان کرتے ہو کہ تُو سب سے اعلیٰ ہے، تُو پاک ہے تو پھر تمہیں دیدار نصیب ہو گا۔ جب اس فلسفے کو آپ سمجھ لیں گے تو اب وہ آپ کو جواب دے گا۔ سوال آپ کا کیا تھا جس کا وہ جواب دے گا؟ آپ کے دو سوال تھے ایاک نعبد و ایاک نستعین ’’تیری ہی عبادت کرتا ہوں، تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں۔‘‘ تو اب جواب یہ ہو گا کہ وہ تمہاری مدد کرے گا۔ دوسرا سوال اس سے کرتے ہو اھدناالصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم ’’اے اللہ تعالیٰ! دکھا سیدھا راستہ، ان لوگوں کا جن پر تیرا انعام ہوا۔‘‘ اب تمہیں تو نہیں پتا کہ انعام کن پہ ہوا؟ سجدے میں تم گئے اور وہ جواب دے رہا ہے۔ التحیات میں بٹھا دیا، انبیاء پہ سلام بھجوا رہا ہے، رسولِ اکرمﷺ پہ درود بھجوا رہا ہے، صالحین پہ سلام بھجوا رہا ہے۔ تو یہ تمہیں جواب دے دیا اس نے کہ وہ سیدھا راستہ ہے انبیاء علیہم السلام کا اور صالحین کا اور اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺ کا۔۔۔۔۔۔۔ یہ جواب ہے مالک کی طرف سے تمہیں اُسی نماز میں کہ تم نے اس سے demand کی کہ مالک! ہمیں مالک بتا سیدھا راستہ اُن لوگوں کا جن پر تیرا انعام ہوا۔ سجدے میں گئے، تم نے اِقرار کر لیا کہ ہم میں سارے نقص ہیں، کوئی بات نہیں جانتے، کوئی علم نہیں رکھتے، عاجز ہیں۔ اللہ تعالیٰ کہہ رہا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن پر میرا انعام ہوا۔ اسی نماز میں تمہیں reply کر دیا۔ تو اب نماز تو وہ چیز ہے کہ آپ کے سوال کے جواب بھی اُس میں موجود ہیں۔ آپ کی مدد بھی اُس میں موجود ہے اور مدد کس طرح کی؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کہہ رہے ہوں کہ ایاک نعبد و ایاک نستعین اور وہ آپ کی مدد نہ کرے۔ مدد کا فلسفہ بھی سمجھا دیا بقول شاعر
؂ یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اپنے پاس سجدہ کرا کے تمہیں باقی تمام دنیا کے، تمام انسانوں کے غلبے سے نکال دیا۔ اس سے بڑی مدد کیا ہو سکتی ہے؟ اپنی ربوبیت تمہیں سمجھا دی اور کیا مدد ہو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری کہ یہ بھید اس نے بتا دیا کہ جس نے میرے آگے سر جھکا لیا، اگر اس نے صحیح جھکایا ہے تو اس کا سر کسی اور کے آگے جھکنے نہیں دوں گا۔ یہ وعدہ ہے اللہ تعالیٰ کا۔
نماز کی معراج کے حوالے سے بات ہو رہی ہے تو ایک اور پہلو کو بھی سمجھیں۔ ہم عبد ہیں، بندے ہیں، بندگی ہی ہمارا شعار ہے تو بندگی کی معراج کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟ بندگی کی معراج عجز ہے، عاجز ہونا ہے، اپنے آپ کو لاچار، کم تر، حقیر، نحیف اور معذور جاننا اللہ تعالیٰ کے سامنے، لوگوں کے سامنے نہیں۔ جو لوگوں کے سامنے اِس کا اظہار کرے، وہ تو بھکاری ہوتاہے۔ بھکاری کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے آپ کو عاجز اور مجبور جاننا، نحیف جاننا، حقیر جاننا۔۔۔۔۔۔۔ بعض جگہ تو یہاں تک لوگوں نے کہا ہے کہ اپنے آپ کو ذلیل جاننا۔ تو جب ہم اس stage پر پہنچتے ہیں اور بندگی کی معراج حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بندگی کی معراج کیا ہے؟ جو ہماری سب سے بڑی شان ہے، جو ہماری سب سے بڑی عزت ہے، ہمارا سر، ہماری یہ پیشانی ہم اس کو زمین پر جھکا دیتے ہیں اور رگڑتے ہیں۔ نماز کی معراج بھی سجدے ہی میں ہے۔ تو جب ہم سجدے میں سر رگڑتے ہیں تو عملاََ اس کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں کہ اے اللہ تعالیٰ! میں عاجز ہوں، نحیف ہوں، کمزور ہوں، حقیر ہوں، ذلیل ہوں۔ اور جب اپنے بارے میں یہ سب کچھ سوچتے ہیں تو یہی پروردگارِعالم کے اعلیٰ ہونے کی علامت ہوتا ہے۔ رب العزت کو جب ہم اعلیٰ تصور کرتے ہیں تو بندگی کی معراج بھی ہمیں نماز میں ہی حاصل ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنی بندگی کا اظہار کسی اور طریقے سے کریں۔ اگر کسی اور طریقے سے ہوتا تو پروردگارِعالم نے تمام انبیاء علیہم السلام کو جتنے گزرے ہیں، سب کو نماز کا حکم دیا۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ایک بھی نبی ایسا نہیں گزرا، کوئی ایک بھی پیغمبر ایسا نہیں گزرا جسے رب العزت نے نماز کا حکم نہ دیا ہو کیونکہ اس کی بندگی پوری تب ہوتی ہے، جب وہ سجدے میں چلا جاتا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺسے جب یہ پوچھا گیا کہ یارسول اللہﷺ! اللہ تعالیٰ سب سے جلد کیسے مل سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کو جلد سے جلد پانا کیسے ممکن ہے؟ یہ سوال کیا گیا آپﷺ سے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’رات کے سجدوں سے۔‘‘ پھر پوچھا گیا کہ یارسول اللہﷺ! اور کوئی طریقہ۔ فرمایا: ’’رات کے سجدوں سے۔‘‘ یہاں تھوڑا سا فرق آگیا، دن کے سجدے آگئے۔ دن میں یہ ہوتا ہے کہ جب ہم دن میں سجدے کرتے ہیں، دن میں نمازیں ادا کرتے ہیں تو اس کی وجہ سے اپنے معاشرے میں نیک نام ہوتے ہیں۔ معاشرے کے بہت سے طبقے ہمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ تو یقیناًتھوڑا سا نفس پھولتا ہے، تفاخر محسوس کرتا ہے، تھوڑی سی اَنا promote ہوتی ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ہاں جو ہمارا معاوضہ ہے یا تعلق ہے وہ کمزور پڑ جاتا ہے۔ بہت تھوڑے لوگ ہیں جو مستقل نمازی ہوں دن کے اور جب وہ نماز کو جاتے ہیں یا آتے ہیں تو ان کے نفس پر یہ احساسِ تفاخر نہ آئے، بڑا ہی نصیبوں والا ہے کہ جو نماز ادا کرتا ہے اور اس فخر کے ساتھ نہیں کرتا کہ لوگ اس کو دیکھ رہے ہیں، اس کو پسند کر رہے ہیں، نمازیوں میں اس کا شمار ہو رہا ہے۔ مگر جو رات کو اُٹھتا ہے، اس کو کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا، کسی کو نہیں معلوم ہوتا۔ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت میں جاگتا ہے اور بڑی خاموشی سے اس کے آگے سر جھکا دیتا ہے۔ جسے کہتے ہیں نا کہ کاناپھوسی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ سے کاناپھوسی کرتا ہے، جو ظاہر میں نصیب نہیں ہوتی۔ تو وہ رات ہی کو میسر آتی ہے۔
مجھے ایک درویش کی بات یاد آتی ہے۔ وہ مجھے سرائے عالمگیر میں ملے اور کہنے لگے کہ جب میں چھ سال کا تھا تو مجھے گھر والوں نے کہا کہ مسجد جو ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا گھر ہے۔ کہتے ہیں، میں نے سوچا کہ جس کا گھر ہے تو گھر والا تو یہاں لازمی آتا ہو گا، چلو مسجد جانا شروع کرو، اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہو جائے گی۔ کہتے ہیں، میں نے جانا شروع کر دیا۔ سات سال گزر گئے، میں تیرہ سال کا ہو گیا، اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہی نہیں ہوئی البتہ مسجد میں جاتا رہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا گھر ہے، کبھی تو اپنے گھر آئے گا۔ کہنے لگے پھر میں نے بڑا سوچا، بڑا غور کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ جو ہے نا، کوئی پردے میں رہنے والا ہے، دن میں نہیں آتا۔ کہتے ہیں، پھر میں نے رات کو جانا شروع کر دیا۔ جب میں نے رات کو جانا شروع کر دیا تو چھ مہینے بعد اللہ تعالیٰ کو میں نے پا لیا، مجھے اللہ تعالیٰ مل گیا۔ دن میں اللہ تعالیٰ نہیں ملا کیونکہ وہ پردے میں رہتا ہے اس لیے رات کی تنہائی میں ملتا ہے۔
ایک simple سی بات ہے کہ پروردگارِعالم واحد ہستی ہے جو چھپی ہوئی ہے، جو مخفی ہے، جو عیاں نہیں ہے۔ تو اگر اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہتے ہو تو بابا رات کو جاگو، رات کو نماز پڑھو، مل جائے گا۔ کوئی وجہ ہی نہیں ہے کہ نہ ملے اور پھر میں آپ کو بتاؤں اگر سمجھیں اس بات کو۔ میں نے ایک دن شوقِ دیدار کی بات کی تھی، اللہ تعالیٰ سے ملنے کی بات کی تھی۔ آپ یہ دیکھیں کہ کملی والےﷺ کے سر میں درد ہے، مرض الموت میں مبتلا ہیں آپﷺ مگر مسجد کی طرف کس طرح جاتے ہیں اس وقت بھی کہ دونوں پاؤں مبارک زمین پر گھسٹ رہے ہیں اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے دونوں بازو مبارک پکڑے ہوئے ہیں اور آپﷺ فرما رہے ہیں کہ ’’مجھے مسجد لے چلو۔‘‘ اگر مسجد میں نماز میں آپ ﷺکو اللہ تعالیٰ کا دیدار نہ ہوتا ہو تو آپﷺ مسجد میں جاتے اس طرح دقّت اُٹھاتے ہوئے؟ وہ تو شوقِ دیدار کملی والے ﷺکو وہاں تک کھینچ کر لے جاتا تھا سجدے کے لیے۔ تو اِس بات پہ تھوڑا سا دھیان دیں اور اس پہ غور کریں کہ ہماری جو معراج ہے، وہ اعلیٰ ترین بندگی میں ہے اور یہ اعلیٰ ترین بندگی ہمیں سجدے میں ملتی ہے، سجدے سے باہر نہیں مل سکتی کیونکہ جب اس کو صحیح معنوں میں آپ سمجھ لیں گے اور سجدے کرنے شروع کر دیں گے تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو آپ نہ پا لیں، ممکن نہیں ہے۔ یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم نے اس انداز میں کبھی اس کو دیکھا نہیں۔ سجدے کی ایک اور بڑی حسین بات آپ کو بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے آپ کی پیشانی جھکواتا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ یہ کہہ رہا ہے کہ ’’ہم نے تمہیں پیشانیوں سے تھام رکھا ہے۔‘‘ اس کا مطلب کیا ہوا کہ تم جتنے فیصلے کرتے ہو، جتنی عقل کی باتیں کرتے ہو، جتنی plannings کرتے ہو، جتنے پروگرام کرتے ہو، وہ ساری قوت تمہاری اس حصۂ جسم میں ہے اور آج سائنس اس بات پر پہنچ آئی ہے کہ جو forehead ہے، اس حصے سے انسان اپنے سارے فیصلے کرتا ہے۔ تو مالک وہی forehead آپ سے جھکوا رہا ہے سجدے میں۔ تو کیا مقصد ہے، کیا چاہتا ہے؟ آپ کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ اپنے سارے فیصلے مجھ پر چھوڑ دو، اپنے سارے فیصلے میری نذر کر دو، میرے فیصلوں پر راضی ہو جاؤ، جب تم surrender کر دو گے اپنے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے فیصلے تو تمہاری رائے پر اللہ تعالیٰ کی رائے فوقیت پاگئی، مقدم ہو گئی، تو بہت سی کوتاہیوں سے اور عذاب سے بچ گئے۔ سجدہ کروا کے پروردگارِعالم تمہیں راضی بہ رضا اور راضی بہ قضا بنانا چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دئیے پر، اللہ تعالیٰ کے کیے پر راضی ہو جاؤ، اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دو۔ خالی باتوں سے تم اللہ تعالیٰ کے سپرد اپنے آپ کو نہیں کر سکتے جب تک اس کے آگے surrender نہیں کر دو گے۔
اسلام کے معنی کیا ہیں؟ سر جھکا دینا۔ تو سر کا جھکا دینا صرف physical نہیں ہوتا کہ یوں سر جھکا کے کھڑے ہو گئے، دل میں منافقت ہے، دل میں کوئی ہیرا پھیری ہو رہی ہے۔ سر جھکانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس کے حضور سر جھکایا جائے، اُس کے سارے فیصلے تسلیم کیے جائیں۔ وہ فیصلے بظاہر آپ کے خلاف ہوں یا آپ کے حق میں ہوں۔ تو نماز کا جو سجدہ ہے وہ بنیادی طور پر اس لیے ہے کہ آپ لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ میں نے اپنے ساری plannings، سارے فیصلے اللہ تعالیٰ کے حضور surrender کر دئیے ہیں، مجھے اللہ تعالیٰ کے فیصلے منظور ہیں، میرے اپنے فیصلوں کی وقعت نہیں ہے۔ جب یہ سوچ لیا آپ نے، آپ کی اندر کی اَنا مر گئی، آپ کے اندر کا تفاخر ختم ہو گیا، آپ کے اندر سے کِبر نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔ تو جس کے اندر سے کِبر نکل گیا اس کو اللہ تعالیٰ مل جائے گا، اس کو یقیناً اللہ تعالیٰ مل جائے گا۔ تو سجدے میں ایک یہ بات بھی پنہاں ہے۔
اس کے علاوہ آپ دیکھیں، اگر پرانی تاریخ اُٹھائیں، چین کی تاریخ اُٹھائیں تو جو بڑی بڑی اُن کی عبادت گاہیں ہوتی تھیں وہاں پہ انہوں نے کیا کیا ہوتا تھا کہ ایک چمڑے کا دھاگا ہوتا تھا جس کے ساتھ ایک ٹکیا بندھی ہوتی تھی جو بندے کی پیشانی پر باندھتے تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کچھ وقفوں سے جو وہاں کا پنڈت ہوتا تھا وہ اس کو ایک لکڑی کی ہتھوڑی سے hit کرتا تھا۔ اُن کا فلسفہ یہ تھا کہ اِس طرح چوٹ مارنے سے انسان کے اندر مستقل مزاجی اور استحکام پیدا ہوتا ہے، انسان کے اندر فرماں برداری پیدا ہوتی ہے اور اُس کی سوچ میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ آپ دیکھیں یہ قبل از اسلام کی بات ہے مگر اللہ تعالیٰ نے نہ آپ کو وہ ڈنڈی باندھنے دی، نہ فیتہ باندھنا پڑا اور نہ کسی پگوڈا میں جانا پڑا۔ آپ کو پانچ وقت اللہ تعالیٰ نے اس practice پر لگا دیا تاکہ آپ مستقل مزاج بھی ہو جائیں اور آپ میں استحکام بھی پیدا ہو جائے۔ آپ میں وسعتِ نظر بھی پیدا ہو جائے، آپ کی یادداشت بھی اچھی ہو جائے اور نظر بھی مضبوط ہو جائے۔
آپ یہ دیکھیں کہ کتنا بڑا فلسفہ ہے اس میں کہ بہت بڑی تعداد میں یہ پنڈت لوگ اس طریقے کو adopt کرتے رہے ہیں۔ اس لیے کہ وہ اس طریقے سے بندے سے بری عادات چھڑواتے تھے، اسی لیے کہا گیا کہ نماز فحش و منکر سے روکتی ہے۔ اگر سجدے آپ صحیح کرنا شروع کر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ فحش و منکر سے رک نہ جائیں۔ کوئی وجہ ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ ناممکن سی بات ہے کہ آپ اگر صحیح نمازی ہیں اور صحیح تحمل کے ساتھ سجدہ کرتے ہیں اور یہ سوچ کے کرتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کر رہے ہیں اور اُس وقت آپ کے ذہن میں کوئی اور خیال نہیں ہوتا تو کوئی وجہ ہی نہیں ہے کہ آپ فحش و منکر سے رُک نہ جائیں۔
ایک شخص نے مجھ سے ایک سوال کیا، کہنے لگا کیا یہ ممکن ہے کہ اس زندگی میں یہ پتا لگ جائے کہ ہماری نمازیں قبول ہوئی ہیں یا نہیں ہوئیں؟ میں نے کہا یہ تو بہت آسان سی بات ہے بھئی! یہ تو کوئی مشکل ہی نہیں ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ نماز فحش و منکر سے روکتی ہے تو جو نمازی فحش و منکر سے رُک گیا اُس کی نماز قبول ہو گئی۔ جو نماز ادا کر رہا ہے اور فحش و منکر میں مبتلا ہے، اُس کی قبول نہیں ہوئی کیونکہ ہر چیز کا result ہے۔ ارے بابا! اگر result تمہارے سامنے آگیا تو یہیں قبول اور اگر result سامنے نہیں آتا، result اُلٹا آیا تو اس کا مطلب ہے نہیں قبول۔ اب نماز میں فرق نہیں ہے۔ یہ ہی نماز پیغمبروں نے پڑھی ہے۔ یہ ہی نماز کملی والےﷺ نے پڑھی ہے۔ یہ ہی نماز صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے پڑھی ہے۔ یہ ہی نماز تابعین نے پڑھی ہے۔ یہ ہی نماز تبع تابعین نے پڑھی ہے اور یہ ہی نماز تمام اولیاء عظام رحمتہ اللہ علیہم نے پڑھی ہے۔ نماز تو وہ ہی ہے، آپ کی سوچ کا فرق ہے، آپ کی ادائیگی کا فرق ہے۔ انہوں نے اس میں اللہ تعالیٰ کو پا لیا، ہم سے فحش و منکر بھی دُور نہیں ہو رہا۔ تو نماز فحش و منکر سے روکتی ہے۔ یہ روح ہے اگر آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ نے یہیں قبول کروانی ہے اور تصدیق لینی ہے تو صحیح طریقے سے پڑھیں، آپ کی زندگی میں سے فحش نکل جائے گا، منکرات نکل جائیں گے۔ منکرات سے کیا مراد ہے۔۔۔۔۔۔؟ انکار کرنے والا اور ہر کافر ہی انکار کرنے والا ہوتا ہے۔ تو ہم کچھ باتیں تو مالک کی مانتے ہیں، اس لیے اسلام میں داخل ہیں اور بہت سی باتیں اللہ تعالیٰ کی ہم عملاََ نہیں مانتے، اس لیے منکر کی تعریف ہم پہ بھی لاگو ہوتی ہے۔ بہت سی باتیں ہم اللہ تعالیٰ کی نہیں مانتے۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ’’اللہ تعالیٰ کہتا ہے میں رزق دینے والا ہوں‘‘ مگر ہم اپنی چالاکیوں سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ ’’میں عزت دینے والا ہوں‘‘ مگر ہم اپنی چالاکیوں سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ ’’جسے چاہوں حکومت دوں اور جس سے چاہوں چھین لوں‘‘ مگر ہم اپنی چالاکیوں سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب بھی منکر میں آتا ہے اور بھی اس کے بہت سے احکامات کا نہ ماننا منکر میں آتا ہے۔ یہ بڑی وسیع بات ہے، یہ معمولی بات نہیں ہے کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ یہ معمولی بات ہے۔ اگر صحیح نمازی ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ فحش و منکر سے نہ رُک جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی لاگو کردہ حدود کو توڑنا بھی منکرات میں سے ہے۔
ایک بات اور جو اکثر و بیشتر سامنے آتی ہے۔ اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ خوفِ خدا کی بات کرتے ہیں (جسے ہم خشوع کہتے ہیں) تو ذہن میں یہ گمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کہیں ہمیں دوزخ میں نہ ڈال دے، اللہ تعالیٰ ہمیں دوزخ کے عذاب میں گرفتار نہ کر دے۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کا خوف تو نہ ہوا۔ خوف تو دوزخ کا ہوا، اللہ تعالیٰ کا خوف کہاں گیا؟ یا اس خواہش میں گرفتار ہوتے ہیں کہ ہمیں جنت مل جائے۔ تب بھی جنت وجود رکھتی ہے، اللہ تعالیٰ کی بات کہاں گئی؟ نماز تو ہم نے خالق کی پڑھنی ہے، خالق کی ادا کرنی ہے، خالق کی قائم کرنی ہے۔ دوزخ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق، جنت بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق۔ تو جو دوزخ سے بچنے کے لیے نماز ادا کر رہا ہے وہ بھی مخلوق کی نماز پڑھ رہا ہے اور جو جنت کو سدھارنے کے لیے نماز پڑھ رہا ہے وہ بھی مخلوق کی نماز پڑھ رہا ہے مگر جو صرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے نماز ادا کر رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے لیے نماز ادا کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ آپ سے جو چاہے سلوک کرے۔ ہماری تو نمازیں بھی مخلوق کے لیے ہیں۔ اس بات پر کبھی غور کریں، سوچیں، سمجھیں۔ جو بات میں کہہ رہا ہوں کہ مانتے خالق کو ہیں اور نمازیں مخلوق کی پڑھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے خوف کو غلط نام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا خوف یہ نہیں ہے کہ دوزخ میں بھیج دے گا۔ یہ تو دوزخ کا خوف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا خوف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دلوں سے اپنی یاد کھرچ نہ لے، اپنی یاد کو آپ کے اندر سے محو نہ کر دے کیونکہ پروردگارِعالم یہ ہی کہتا ہے کہ ’’میری توفیق کے بغیر تم کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے، کچھ بھی تمہیں میسر نہیں آسکتا۔ میری یاد بھی میری توفیق کے بغیر تمہیں نہیں مل سکتی۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ کا خوف یہ ہے کہ آپ کو یہ خیال دامن گیر رہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے کاغذوں میں سے نکال نہ دے، میری رسی کو دراز نہ کر دے۔ تو جن لوگوں کو زندگی میں چھوٹی موٹی تکلیفیں پہنچتی ہیں، کوئی مالی نقصان اُٹھانا پڑتا ہے، کوئی بدنی نقصان اُٹھانا پڑتا ہے، کوئی اولاد کا نقصان اُٹھانا پڑتا ہے، کوئی عزت پہ آنچ آجاتی ہے، ذہنی سکون برباد ہو جاتا ہے تو آپ سمجھ لیں اللہ تعالیٰ آپ کو بھولا نہیں ہے۔ یہ چھوٹی موٹی تکلیفیں اس لیے دیتا ہے کہ آپ فوراََ پلٹیں، اس سے معافی مانگیں اور توبہ کریں۔ تو جب توبہ کرتے ہیں تو اس کی یاد آپ کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف موجود ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو بھولا نہیں ہے، اس نے چٹکی بھری ہے کہ پلٹ آؤ میری طرف، اور جب وہ رسی دراز کر دیتا ہے تو نہ جسم دُکھتا ہے، نہ آنکھ دُکھتی ہے، نہ مالی نقصان ہوتا ہے، نہ رشتے داروں میں کسی کو تکلیف ہوتی ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ پروردگار نے تمہیں اپنے کاغذوں سے نکال دیا ہے۔ اس بدنصیبی سے ڈرنا ہے ہمیں۔۔۔۔۔۔ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے کاغذوں سے نکال نہ دے، اپنی یاد کو ہمارے دلوں سے کھرچ نہ دے، ہم سے توبہ نہ چھین لے مالک، ہم سے گریہ و زاری نہ چھین لے، گناہوں پہ شرمسار ہونا نہ چھین لے۔ اِس سے ڈرنا ہے، یہ ہے خشوع۔ دوزخ سے ڈرنا خشوع نہیں ہے۔ وہ تو مخلوق ہے، اُس سے کیا ڈرنا۔ وہ تو مالک کی مرضی ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے اس نے آگ کو گلزار بنا دیا ہمارے لیے بھی بنا سکتا ہے۔ آگ نے اپنی فطرت کے خلاف کام کیا، جلایا نہیں۔ اس کی فطرت تو اللہ تعالیٰ کے تابع ہے۔ تو ہمیں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے نماز پڑھنی ہے اور اس انداز سے اللہ تعالیٰ کا خوف قائم رکھنا ہے۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کا خوف۔ مجھے ایک شخص کہنے لگا کہ آپ عام طور پر لوگوں کو نماز کے لیے نہیں کہتے۔ میں نے کہا بابا! کیا نماز کے لیے کہیں۔۔۔۔۔۔ ہم تو یہ کام کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اُن کے دلوں میں پیدا کر دی جائے، اِسی کوشش میں ہیں۔ اگر آپ کی محبوبہ آپ کو نہر کے پُل پہ رات کو دو بجے بلائے تو آپ بھاگتے ہوئے جائیں گے۔ نہ آپ کو سردی لگے گی، نہ traffic کا ڈر ہو گا، موٹر سائیکل پہ چلے جائیں گے، سائیکل پہ چلے جائیں گے، بھاگے ہوئے جائیں گے اُس کے اشتیاق میں، اُس سے ملاقات کے اشتیاق میں۔۔۔۔۔۔ اس لیے کہ محبت موجود ہوتی ہے۔ تو اگر آپ کے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت ہم نے جگا دی، پیدا ہو گئی تو آپ نماز کو کیسے نہیں جائیں گے بھئی۔۔۔۔۔! یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔۔۔! نماز تو چھوٹی بات رہ جائے گی، اللہ تعالیٰ کے جتنے orders ہیں، آپ سارے دوڑ دوڑ کے قبول کریں گے کہ میرا محبوب راضی ہو جائے، میرا رب راضی ہو جائے۔ تو ہم تو اس طرح کے کام کرتے ہیں کہ اُس کی محبت جگا رہے ہیں آپ کے دلوں میں۔ جب آپ کے اندر اُس کی محبت جاگ جائے گی تو آپ اس کو راضی کرنے کے لیے دوڑتے ہوئے چلے جائیں گے۔
ایک بڑی ضروری بات نماز کے حوالے سے، رسولِ اکرمﷺ کا حکم ہے کہ ’’اپنی ثقافت کی حفاظت کرو۔‘‘ جس کو ہم culture کہتے ہیں، کیونکہ جہاں بھی کوئی دوسرا مذہب کارفرما ہوتا ہے، اثرانداز ہوتا ہے اور آپ یقین کریں کہ ثقافت کے راستے سے ہوتا ہے۔ اُس جگہ کا culture اپناتے ہیں ہم پہلے، اور اِس کے بعد اُس کے مذہب کے لیے نرم گوشے ہمارے اندر پیدا ہوتے ہیں اور پھر اس میں داخل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ اسلام نے نماز کو اجتماعی عبادت بنایا اور جو اجتماع کا دین ہو، اجتماع کا طریقہ ہو وہ اُس علاقے کی، اُن لوگوں کی ثقافت بن جاتی ہے۔ تو نماز اور مسجدیں آپ کی ثقافت کا حصہ ہیں۔ اب جو شخص نمازی ہے، اُس کے لباس کا انداز بدل جائے گا، اُس کے چہرے کا ڈھنگ بدل جائے گا۔ تو یہ ثقافت بھی ہے ہماری۔ اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺ نے جب یہ فرمایا کہ ’’اپنی ثقافت کی حفاظت کرو‘‘ تو دو باتیں فرمائیں کہ ’’اگر مضبوطی چاہتے ہو تو اپنے راز کی حفاظت کرو۔ اپنا راز کسی کو مت دو اور اپنی ثقافت کی حفاظت کرو۔‘‘
اب آپ دیکھیں اگر آپ پکے نمازی ہیں تو پینٹ میں آپ کا گزارا نہیں ہو سکتا۔ نماز تو پینٹ میں بھی ہوتی ہے، ستر ڈھانپا ہوتا ہے مگر آپ کی ثقافت کو توڑنے والا لباس پینٹ ہے کہ اس میں اس طرح کا انداز ہے کہ آپ پیشاب کریں گے کھڑے ہو کے، بیٹھ کے نہیں کر سکتے ورنہ اس کی zip خراب ہو جائے یا کسی اور جگہ سے اُدھڑ جائے گی یا اتنی ڈھیلی ڈھالی پہنیں گے کہ لگے گا کہ تھیلا گھسیٹا ہوا ہے آپ نے۔ تو آپ کو کھڑے ہو کے پیشاب کرنا پڑے گا۔ اب کھڑے ہو کے پیشاب کرنا اسلامی ثقافت کے خلاف ہے۔ استنجا نہ کرنا، نماز سے بھاگ جانا۔۔۔۔۔۔۔ میں ایسے ہزاروں لوگوں کو جانتا ہوں، اللہ تعالیٰ گواہ ہے اس بات پر جو صرف اس لیے دن کی نمازیں نہیں پڑھ سکتے کہ وہ پینٹ پہنتے ہیں اور اُن کا جسم اس میں پاک نہیں رہتا، اُن کا لباس اس میں پاک نہیں رہتا، اُن کو طہارت میسر نہیں آتی۔ تو نماز آپ کی ثقافت بھی ہے۔ اگر آپ اِس کو بطور ثقافت سمجھیں گے تو آپ کے انداز بدل جائیں گے۔ اس کو اس انداز میں بھی دیکھیں ضرور، بطور ثقافت بھی اس کو اپنائیں اور ہماری بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہمیں تو باجماعت نماز کے لیے کتنے سخت orders ہیں۔ اب ہم مسجدوں میں نماز پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں باجماعت پڑھ کے آیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ گواہ ہے، جتنے لوگ وہاں ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو جانتے ہی نہیں ہوتے۔ مسجد میں جتنے لوگ ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو جانتے ہی نہیں مگر کہتے ہیں میں باجماعت نماز پڑھ کے آیا ہوں۔ تم کون سی جماعت میں نماز پڑھ کے آئے ہو کہ تمہیں یہ پتا ہی نہیں کہ کون تمہارے ساتھ تھا، کون بائیں تھا اور کون دائیں تھا؟ اور کہتے ہیں السلامُ علیکم و رحمۃ اللّٰہ، السلامُ علیکم و رحمۃ اللّٰہ۔ دائیں والوں پہ بھی رحمت اور بائیں والوں پہ بھی رحمت۔ اس لیے باجماعت نماز تمہیں شروع کروائی کہ تمہیں پتا ہو کہ بائیں والوں کا کیا حال ہے اور دائیں والوں کا کیا حال ہے۔ اور جب سب کو پتا ہو گا تو ہمارا معاشرہ کتنا جُڑ جائے گا، کتنا اجماعِ اُمت ہو جائے گا، ہم کتنے مضبوط ہو جائیں گے، ہماری ثقافت کتنی مضبوط ہو جائے گی۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو نماز کو اُس کی اصل رُوح کے ساتھ سمجھنے اور ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کا اور میرا حامی و ناصر ہو (آمین)۔
(بشکریہ رابعہ الرباء پاکستان)

SHARE