اگر گجرات فساد کیلئے مودی کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا تو آج کے حالات کچھ اور ہوتے !

 چودھری آفتاب احمد

 عام پارلیمانی انتخابات قریب ہیں،سیاسی پارٹیوں میں ہلچل شروع ہو گئی ہے، سیاسی پارٹیوں کے اتحاد بن اور بگڑ رہے ہیں،کہیں اتحاد بنائے جا رہے ہیں ،تو کہیں عظیم اتحاد بن رہے ہیں ،کہیں تھرڈ فرنٹ، تو کہیں علاقائی پارٹیاں چوتھے فرنٹ کی تشکیل میں سرگرداں ہیں،کوئی ہندتوا کا بھگوا جھنڈا لیکرمیدان میں ہے،تو کہیں سیکولر نام کے سہارے مسلمانوں کی ووٹ پر نظریں لگائی جا رہی ہیں،

 پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں تین ریاستوں میں کانگریس کی کامیابی نے راہل گاندھی کے حوصلوں کو پر لگائے ہیں،وہ وزیر اعظم مودی سے مقابلہ کی ہمت کر رہے ہیں، اگر یہی ہمت انھوں نے گجرات فساد کے بعد مسلمانوں کو انصاف دلانے میں لگائی ہوتی،توشاید آج مودی ملک کے وزیر اعظم نہ ہوتے،اور کانگریس اقتدار سے باہر نہ ہوتی،خیر راہل گاندھی کو ویسے ہی رافیل مدعا مل گیا ،جیسے وی پی سنگھ کو بوفورس کا معاملہ راجیو گاندھی کے خلاف مل گیا تھا، رافیل معاملہ میں وزیر اعظم مودی کو راہل گاندھی سر عام چور کہہ رہے ہیں،یہ ان کی ہمت کی بات ہے،اگر وہ یا ان کی پارٹی کے رہنما گجرات دنگوں میں مودی کو قصوروار بتاتے، تو آج کے حالات ہی کچھ اور ہوتے ،لیکن برسر اقتدار رہنماو ¿ نے مودی کو کھلی چھوٹ دئے رکھی،نتیجہ سب کے سامنے ہے،کہ وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے رہنے کے علاوہ ملک کے وزیر اعظم تک بن گئے، وہ بھی تب جبکہ مودی کو پوری دنیا قصوروار کہتی رہی،کانگریس حکومت اسے چھوٹ دیتی رہی،اب بھی انسانی حقوق کی بات نہ ہوکر چوری چکاری کی بات ہو رہی ہے،اس میں کوئی شک کی بات نہیں ہے،کہ جس طرح بوفورس نے راجیو گاندھی کو اقتدار سے دور کیا تھا،اور وی پی سنگھ کو اقتدار کا مسند سونپ دیا تھا،ٹھیک اسی طرح مودی بھی اقتدار سے دور ہو جائیں اور راہل گاندھی یا کسی اتحاد اور فرنٹ سے کوئی وزیر اعظم بن جائے،

 انتخابی مہم کاآغاز کر چکی بی جے پی نے پھر رام نام جپنا شروع کر دیا ہے،بی جے پی صدر امت شاہ سر عام کہہ رہے ہیں،کہ رام کا مندر وہیں بنائیں گے،یعنی شہید ہوئی مسجد کی جگہ پر ہی مندر بنایا جائے گا،اب امت شاہ کی باتوں اور وعدوں پر ہندوں ووٹر یقین کیسے کرے؟کیونکہ پچھلے انتخابات میں بی جے پی نے اچھے دن لانے کے ساتھ ساتھ مندر تعمیر کا وعدہ بھی ہندﺅں سے کیا تھا،جو ہنوز پورا نہیں ہوا،بی جے پی کی ہم خیال پارٹی شیوسینا بھی اب بی جے پی کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کر رہی ہے،شمالی ہندوستان میں جہاں سے بی جے پی کو پچھلے انتخابات میں بھاری اکثریت ملی تھی،اب وہاں پر اس کی حالت برے دنوں والی ہو گئی ہے،بی جے پی نے جنوب مشرق کی طرف روخ کیا ہے،اوڈیشہ میں نوین پٹنائک اور بنگال میں ممتا بنرجی ان پر بھاری پڑ رہی ہیں،جنوب میں بھی اسے کوئی مضبوط اتحادی نہیں مل رہا ہے،جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے،ان میں اب بی جے پی پہلے جتنی مضبوط نہیں رہی ہے،یا تو وہاں علاقائی پارٹیاں اور یا پھر کانگریس بی جے پی کو چیلنج کر رہی ہے،

  پچھلے انتخابات میں بی جے پی کو دلت اور پسماندہ طبقات کا ووٹ ملا تھا،وہ بھی اس لئے کہ بی جے پی نے مودی کی قیادت میں ہر ہندوستانی کے بینک کھاتہ میں5 15-1لاکھ روپے جمع کروانے کا وعدہ کیا تھا،اس پندرہ لاکھ روپے کے لالچ نے غریبوں کو بی جے پی کے حق میں پولنگ کرنے پر مجبور کر دیا تھا،لیکن اب ملک کا ہر امیر و غریب بی جے پی کے جھوٹ کو سمجھ گیا ہے،کہ یہ تو صرف ان کا جملہ تھا،

 

  کانگریس اور دوسری سیکولر جماعتوں نے بھی اپنی انتخابی مہم کسی نہ کسی صورت شروع کردی ہے،بنگال میں ممتا بنرجی نے سیکولر پارٹیوں کو ایک جگہ جمع کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرایا ہے،بی جے پی نے بھی ساتھ کے ساتھ سی بی آئی سے کولکاتہ کے پولیس کمشنر کے گھر ریڈ کراکے ممتا کو وہیں روکنے کی کوشش کی ہے،لیکن ممتا نے ہنگامہ کر کے بی جے پی کو حد میں رہنے کی وارننگ دے دی ہے ،

  کانگریس نے راہل کی قیادت میں دہلی کے جواہر لعل نہرو اسٹیڈیم میں اقلیتی سیمینار کر کے مسلمانوں کو اپنی طرف کرنے کی کوشش کی ہے،ویسے کانگریس مسلمانوں کے ووٹ کو اپنے لئے مجبور ووٹ گردانتی رہی ہے،لیکن جب سے اس ملک میں علاقائی پارٹیوں نے جنم لیا ہے،مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہونے لگے ہیں،بی جے پی کے ستائے ہوئے مسلمان جائیں بھی تو جائےں کہاں؟پچھلی حکومت میں انھیں دہشت گرد بتاکر گرفتار کیا جاتا رہا،بی جے پی حکومت میں ہندووادیوں نے انھیں کبھی گائے کے نام پر مارا،کبھی مسلمان ہونے کے نام پر مارا،کبھی لو ¿ جہاد میں پھنسا کے جیل میں ڈال دیا،غرضکہ مودی حکومت میں بھی مسلمان دہشت کے سائے میں جیتا رہا،

 

  کانگریس مسلم ووٹوں پر اپنا حق جتاتی ہے،عموماً مسلمان کانگریس کے حق میں ہی ووٹنگ بھی کرے گا،لیکن اتر پریش کی صورت حال دوسری ریاستوں کے مقابلہ مختلف ہوگئی ہے،اتر پردیش میں مایاوتی اور اکھلیش کے ایک ساتھ آجانے اور کانگریس کے ایس پی۔ بی ایس پی اتحاد سے باہر رہنے کی وجہ سے مسلم ووٹر دو راہے پر کھڑا ہے،کہ آخر وہ جائے تو جائے کہاں،قومی سطح پر کانگریس کا مقابلہ بی جے پی سے ہے،ایس پی اور بی ایس پی علاقائی پارٹیاں ہیں،اگر مسلمان تھوڑا بہت بھی کانگریس اور ایس پی۔ بی ایس پی اتحاد میں تقسیم ہوتا ہے،تو اس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو جائے گا،پچھلے انتخاب میں مسلمانوں کی تقسیم کاری نے ہی بی جے پی کو بھاری اکثریت سے کامیاب بنایا تھا،ویسے اتر پردیش میں کانگریس اب مسلمانوں میں اتنی مقبول نہیں رہی ہے،جتنی مقبول یہ 80کی دہائی میں ہوتی تھی،بابری مسجد اور مسلم کش فسادات نے اتر پردیش میں اسے مسلمانوں سے دور کردیا تھا،یہی وجہ رہی ،کہ کانگریس سے خفا مسلمان بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملائم سنگھ کی تھوڑی سی ہمدردی میں اسی کے ساتھ ہو لیا تھا،بات یو پی میں مسلمانوں کی ووٹ تقسیم کی ہے،ورنہ انتخاب کے بعد ایس پی۔بی ایس پی اور کانگریس حکومت سازی کے وقت ایک ساتھ آجائیں گے، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے،کیونکہ ان تینوں ہی پارٹیوں کا مقابلہ بی جے پی سے ہے، اور تینوں ہی پارٹیاں بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لئے پابند عہد ہیں۔

( مضمون نگار ہریانہ کے سابق وزیر اور کانگریسی رہنما ہیں )